دل کے داغ دھوۓ کون ؟۔۔ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

دل جسمانی اور روحانی زندگی کا علمبردار ہے یعنی اس عضو کی فضیلت جسمانی طور پر بھی نمایاں اور روحانی طور پر بھی بالاتر ہے۔دونوں صورتیں زندگی کے مفہوم کو واضح کرکے بنی نوع انسان کو یاد دلاتی ہیں کہ دل خدا کی خوب صورت کاریگری ہے۔اس میں زندگی کی وہ باتیں ، خیالات، احساسات اور جذبات سموتے ہیں۔ یہاں زندگی کی خوبصورتی اپنے رنگوں کے ساتھ جلوہ گر ہو کر اپنی سمت دریافت کرتی ہے۔ ویسے یہ دل کیا چیز ہے یہاں سے جسمانی اور روحانی زندگی کا چشمہ پھوٹتا ہےاور پھر اس چشمے سے میٹھا یا کھاری پانی نکلتا ہے۔ یقین کیجئے قوت فیصلہ قوت ارادی کے تحت وجود میں آتا ہے۔لہذا قوت اور سمت زندگی کے وہ بنیادی محرکات ہیں یہاں سے انسان کی پہچان شروع ہوتی ہے۔اگر آپ زندگی کے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کے اندر تخیل کی بلند پروازی ہونا ضروری ہے تاکہ اغراض و مقاصد واضح ہو جائیں ۔ اگرچہ اس دل میں شعلہ نفسی اور فکر و خیال کے جوہر موجود ہیں۔
ہمارا سماج سائنسی اور دنیاوی اعتبار سے روز بروز تعمیر و ترقی کی منازل طے کر رہا ہےاور وقت انسان کو ترقی کے یکساں مواقع عطا کرتا ہے۔خیالات آزاد پرندوں کی طرح دل کے گہرے سمندر میں اچھلتے کودتے رہتے ہیں ۔کبھی یہ بقا کی خوشخبری اور کبھی جہنم کے آگ میں اتارتے ہیں۔
ذرا سوچئے ! یہ دل تو منبع حیات ہے نہ جانے کیوں پھر بھی ہم اپنی سمت کا رخ دلدل کی طرف موڑ دیتے ہیں۔
فطری طور پر تو یہ دل حساس شفاف اور پاکیزہ ہےتو پھر کیوں ہمارے منزہ جذبے ماند پڑتے ہیں اور خواہشات کے حصار اسے کیوں داغدار کرتے ہیں؟ ہم اسے اتنا کیوں مجبور اور بے بس کر دیتے ہیں یہاں مجوسی اور افسردگی کی پرچھائیاں پڑنے لگتی ہیں۔ ہمارا دل ہم سے سوال پوچھتا ہے۔تم مجھے اتنا کیوں جلاتے تڑپاتے اور رلاتے ہو جب کہ میںں تو زندگی کی شہ دگ ہوں ۔میرا کچھ تو لحاظ رکھو اور دیکھو میں کیسا مہربان ہوں ۔
میں تم سے التماس کرتا ہوں کہ میرے اندر سے ان لعنتوں وہموں ، کرچیوں ،ناچا قیوں، ناپا کیوں، اور بدیوں کو دور کرو تاکہ میں تمہیں جسمانی اور روحانی برکات سے مالامال کروں گا۔ میں تمہیں فرش سے عرش پر بیٹھاٶں گا۔
میں تمہیں دلی اطمینان اور سکون کی پرچھائیاں عطا کروں گا۔ لیکن میری شرط یہ ہے کہ مجھے پاکیزہ اور منزہ رہنے دو۔مجھے پاکیزہ خیالات سے غسل دو تاکہ میں اجلا ہو جاؤں۔
دیکھو آج میں تمہارے آگے عزر پیش کرتا ہوں کہ مجھے ترو و تازہ رکھو تاکہ صبح ہوتے ہی اس سے شبنم کے قطرے نکلیں جو اجلے موتیوں کا منظر پیش کریں۔میں تمہیں حسین وادیوں، باغیچوں، باغوں میں لے جاؤں گا جہاں تمہیں ہریالی تروتازگی اور زندگی کی امید نظر آئے۔

افسوس !آج میں تم سے نوحہ کناں ہوتا ہوں کہ تم نے میرا کیا حشر کر دیا؟ اسے ذرا ٹٹول کر دیکھو تو تمہیں داغوں کی خزاں ملے گی نہ تم نے مجھے وقت پر پانی پلایا اور نہ تم نے مجھے متوازن غذا کھلائی بلکہ تم نے ملاوٹ سے مجھے نا پاک کر دیا۔ مجھے اتنا دکھ دینے کے باوجود بھی مجھ سے زندگی کی بھیک مانگتے ہو۔ آج تم دنیا کے اتنے کم بخت بھکاری کیوں بنتے جا رہے ہو۔ البتہ میں تمہاری زندگی کی چیخ و پکار شور اور ہنگامہ سنتا ہوں۔ تم نے مجھے آنسوؤں کے ندی نالے نہیں بلکہ سمندر میں تبدیل کر دیا ہے۔
اس لیے میرا بہاؤ نہ رکتا نہ ٹھہرتا ہے اس لئے میں سب کچھ بہا کر لے جاتا ہوں۔ دیکھو آج! میں وقت کے ہاتھوں مجبور ہو کر تم سے کچھ مانگتا ہوں۔

کاش! تم میری آواز پر کان دھرو میرا شور اور ہنگامہ سنو میں تمہیں اس کی بدلے سر اور راگ سناؤں گا جو تمہاری روح کے لئے غذا بن جائے گا۔ تم میرے دل کے اندر جھانک کر دیکھو میرے دل کے اندر کتنے روشن خانے ہیں۔کیا کبھی تم نے چار سمتوں کا سفر نہیں کیا کاش کیا ہوتا اور تمہیں اندازہ ہوتا۔

مجھے معلوم ہے تم نے میری فزیالوجی جانی میری شکل بند مٹھی جیسی ہے اور میں گوشت کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہوں جو تمہارے بدن میں دھڑکتا ہوں۔ کیا تم نے کبھی میرے اندر احسنات اور جذبات کا دیا جلایا تاکہ اس روشنی سے جہالت مٹ سکے۔میرا امتحان لو اور مجھے آزما کر دیکھو میں تمہاری جہالت کو کس طرح روشنی میں بدلتا ہوں۔ لیکن اس کے ساتھ میرا مشورہ یہ ہے کہ صبر اور شکر کا پیمانہ تھام کر رکھو کیونکہ صبر کا پھل میٹھا اور شکر، شکر گزاری کا ہنر سکھاتا ہے۔

میں تم سے ایک گزارش کرتا ہوں کہ تمہارے پاس فکر و خیال کا فن اور وسیع حدوداربعہ ہونا چاہیے تاکہ میں تمہیں ایسا مقام اور فضیلت بخش دوں جہاں دو راستوں کا سفر ایک منزل میں تبدیل ہو جائے ۔ میرے اندر تیل ڈالو میں خود جلوں گا۔ مجھے ہوا دو میں تمہیں بدلے میں آکسیجن دونگا۔ تم مجھے لاکھ مصنوعی آلوں سے تراش کر دیکھ لو تم لوگوں سے میری کبھی بھی اصلی صورت نہیں بنے گی کیوں کہ میں قدرت کی عجب صنائی ہوں۔ تم مجھے چلانے کے لئے جتنے مرضی مصنوعی ریموٹ کنٹرول بنا لو میرے اندر کبھی بھی خون کی سپلائی نہیں آئے گی کیوں کہ خدا نے مجھے خاص مقصد کے تحت پیدا کیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

البتہ میں آج تم لوگوں سے رنجیدہ ہوں کیونکہ تم لوگوں نے میرے اندر حسد ،جلن اور کڑھن کی دھونٸ جلائی تاکہ میں بہت جلد ناکارہ ہو جاؤں۔ میں نے بڑی باریک بینی سے تمہاری ریاکاری دیکھی۔تم نے مجھے سواۓ داغوں کی خزاں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ تم نے میری حسی قوتوں کو جلا ڈالا جس سے میرے جذبات اور احساسات آگ کی نظر ہوگئے۔
تم نے میری ساتھ مادہ کے تینوں زرات کا کھیل کھیلا ٹھوس حالت نے مجھے سخت بنا دیا۔گیس اور ما ئح حالت نے مجھے جلا کر را کھ بنا دیا۔ اب تم مجھے جواب دو میں ان شعلوں، داغوں، اور کثافتوں کو مٹانے کے لیے کونسا کیمیکل استعمال کروں۔ مجھے جواب دو کہ میں کونسی صراحی سے غسل دوں ،کونسا برقی کرنٹ استعمال کرو اور علتوں کو کاٹنے کے لیے کون سی ڈور استعمال کروں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply