ایل جی ایس واقعہ پر خاموشی اختیار کریں۔۔ذیشان نور خلجی

کمینگی کی انتہا سمجھ لیں لیکن سچ کہوں تو مجھے بڑی خوشی ہوتی ہے جب کبھی خبر دیکھنے کو ملتی ہے کہ فلاں دینی مدرسے کے استاد نے طالب علم پر جنسی تشدد کیا یا فلاں مسجد کا پیش امام محلے کے بچے سے منہ کالا کرتے پکڑا گیا۔ اور اس طرح کی خبریں ہمارے ہاں، ہر دوسرے دن کی کہانی ہے۔ ان گھناؤنے واقعات سے مجھے ایک طرح سے نیا موضوع مل جاتا ہے اظہار خیال کو، لیکن درحقیقت اہل مذہب پر بغض نکالنے کا موقع ملتا ہے۔ ہاں نا، سچ بات تو یہی ہے۔ ورنہ کیا مسجد و مدرسے کے علاوہ ہمارے دوسرے ادارے ان برائیوں سے مبرا ہیں؟ تو مجھے کبھی ان کے خلاف آواز اٹھانے کی توفیق نہیں ہوئی۔
جب کبھی سنتا ہوں کہ میری ہی قبیل کے کسی دنیا دار نے کسی کے ساتھ منہ کالا کیا ہے تو میری زبان گنگ ہو جاتی ہے۔ جب کبھی کسی کالج یا یونیورسٹی میں استاد کے روپ میں چھپا کوئی بھیڑیا اپنی ہی روحانی بیٹی کا جنسی استحصال کرتا ہے تو میری آواز خاموش ہو جاتی ہے۔ جب گریڈز اور نمبرز کی دوڑ میں جیتنے کو جنسی حظ سے مشروط کر دیا جاتا ہے تو اس وقت میرا ضمیر جانے کیوں سو جاتا ہے؟ کیا میرے سارے واعظ و نصیحتیں صرف قال اللہ و قال الرسول کہنے والوں کے لئے ہیں؟ کیا صرف داڑھی اور ٹخنوں سے اوپر شلوار کئے ہوئے ہی مجرم ہیں؟ ہاں، یقیناً صرف یہی مجرم ہیں۔ کیوں کہ جب کبھی انگریزی سکولوں میں اساتذہ کو مختلف طریقوں سے جنسی تشدد کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو آنکھیں میچ لیتا ہوں۔ لیکن میرے آنکھیں بند کر لینے سے کیا حقیقت بھی بدل جاتی ہے؟ کیا ان پتلون بشرٹ پہننے والے درندوں کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھائے گا؟ اگر استاد کے نام پر ان بے شرم داغ دھبوں کی حرکتوں پر میں خاموش رہوں گا تو پھر مجھے یہ مان لینا چاہئیے کہ مجھ میں اور ان میں کوئی فرق نہیں اور میں بھی انہی کی طرح کا ایک درندہ ہوں جو اپنی خاموشی کی وجہ سے ان کے جرم میں برابر کا شریک ہوں اور اگر کبھی جو موقع ملے تو میں بھی کسی سے کم نہ کروں۔
اور رہی بات میرے مولویوں کو دوش دینے کی، تو مجھے آج اس بات کا بھی اعتراف کرنا ہے کہ مجھ میں اور ان میں بھی کوئی خاص فرق نہیں کہ ایک جید عالم اور مدرسے کے مہتمم کی ناک تلے کسی معصوم پر جنسی تشدد ہو رہا ہوتا ہے اور وہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی مصلحت کا شکار ہو جاتا ہے اور گناہ کو چھپانے کے لئے شرم ناک قسم کی خاموشی اختیار کر لیتا ہے۔ تو میں بھی تو خاموش رہنے کا مرتکب ہوا ہوں۔
آج میرا کالم لکھنے کا بالکل یہ مقصد نہیں کہ ہمیں ان جنسی مریضوں کے خلاف آواز اٹھانی چاہئیے بلکہ یہی پیغام دینا ہے کہ میری طرح آپ بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کریں۔ کیوں کہ اسی سے ہمارا بھرم قائم رہے گا۔ بھلا کیا فرق پڑتا ہے اگر عزت بچانے کے لئے کسی کی عزت داؤ پر لگا دی جائے۔ بلکہ کسی عزت دار بیٹی کی عزت کا جنازہ نکالنے کی وجہ سے ہی تو یہ سارا تماشا برپا ہوا ہے تو پھر ہم خواہمخواہ اپنی عزتیں خراب کرتے پھریں۔ اور ویسے بھی ان کے حق میں آواز اٹھانے کا کیا فائدہ؟ جانے اور کتنی حوا کی معصوم بیٹیاں اپنے نام نہاد روحانی باپ کی درندگی کا شکار ہو رہی ہیں؟
اور میں کبھی یہ مطالبہ نہیں کروں گا کہ ان درندوں کو سخت سزا دی جائے یا ان کے خلاف ایکشن لیا جائے بلکہ ہنوز خاموشی اختیار کی جائے تا کہ کل کو میری اور آپ کی بیٹی کی باری بھی آ سکے۔ بات تو بڑی سخت ہے لیکن ہمیں کیا پتا، ماضی میں کبھی ہماری بیٹی بھی کسی خاموشی کی بھینٹ چڑھی ہو۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply