• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سلسلہ ہائے اہلِ بیت رسول اللہﷺ/ہماری مائیں/حضرت خدیجہ رض (7،آخری قسط)۔۔محمد جمیل آصف

سلسلہ ہائے اہلِ بیت رسول اللہﷺ/ہماری مائیں/حضرت خدیجہ رض (7،آخری قسط)۔۔محمد جمیل آصف

امہات المومنین کو ایک وصف اور خصوصیت یہ بھی حاصل تھی کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کو زوجہ کہہ کر پکارا
صاحبان تفسیر کہتے ہیں زوجہ وہ ہوتی ھہے جو شریک حیات بھی ہو اور شریک نظریات بھی ہو ۔
نوح علیہ السلام کی بیوی کو زوجہ نہی کیا گیا امرتہ کہا گیا جس کا مطلب ھے کہ شریک حیات تو ہو مگر شریک نظریات نا ہو ، جیسے امرتہ لوط، امرتہ فرعون وغیرہ وغیرہ ۔
زوجہ کی تعریف پر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا اور دیگر امہات المومنین رضی اللہ تعالٰی عنہما کو دیکھا جائے تو مکمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیالات اور نظریات کے ساتھ متفق تو تھیں ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کار نبوت میں مددگار اور معاون بھی تھیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر فرمایا کرتے تھے اللہ نے خدیجہ کی محبت میرے وجود میں ایسے ڈالی ہے جیسے پانی رگوں کو سیراب کرتا ہوا آدمی کو تروتازہ کرتا ہے ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی وفاؤں کو یاد کرتے تھے ۔ کثرت سے انکا ذکر فرماتے ۔
آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو یہ بھی فضیلت ہے امت میں اس روح زمین پر سب سے پہلے جس نے کلمہ پڑھا اور نماز ادا کی وہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا ہیں ۔
حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے علاوہ اللہ نے 6 بچے عطا کیے ۔
دو بیٹے قاسم رضی اللہ تعالٰی عنہ و عبداللہ جن کا لقب طیب طاہر تھا رضی اللہ تعالی عنہ آپ رضی اللہ تعالی  عنہا کے سامنے وفات پا گے ۔ دو بیٹیوں حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت رقیہ رضی اللہ تعالی عنہ کی شادی اپنے سامنے کی ۔ حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہم اس وقت چھوٹی تھیں ۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی  عنہا انکی محبت کو اس انداز سے بیان کرتی ہیں ۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کی ایک بہن ہالہ بنت خویلد رضی اللہ تعالی عنہا کی آواز حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مشابہ تھی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے مدینہ آئیں اور گھر داخل ہوتے وقت اجازت طلب کی ۔آگے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں۔
انکی آواز سنتے ہی بے ساختہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا یاد آ گئیں، اور وہی زمانہ آنکھوں کے سامنے پھر گیا جب وہ زندہ تھیں ۔ اور ایک عجیب کیفیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر طاری ہو گئی ۔ وہ اندر آئیں تو انہیں دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے ساختہ فرمانے لگے “یہ تو ہالہ ہیں ”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم انکی سہیلیوں کو جب بھی جانور ذبح ہوتا ڈھونڈ ڈھونڈ کر گوشت پہنچاتے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ان سے منسوب ہر فرد اور چیز سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قلبی لگاؤ اور اپنائیت تھی
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی  عنہا روایت کرتی ہیں ۔
“ہمارے گھر ایک معمر خاتون آئیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہوئے اور دیر تک کمال التفات اور محبت و شفقت سے محو گفتگو رہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکی اور انکے گھر والوں کی خیریت دریافت کی اور پوچھا جب ہم مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ چلے آئے تو آپ کن کن حالات سے دوچار ہوئے اور کیا کیا واقعات پیش آئے ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی  عنہا فرماتی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنی چاہت اور اپنائیت سے کرید کرید کے سوال پوچھتے رہے کہ مجھے اس بڑھیا پر رشک آنے لگا ۔
جب وہ چلی گی تو میں نے پوچھا “آقا! وہ کون تھی؟” تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “وہ خدیجہ کی سہیلی تھی” ۔ جب ہم مکہ میں رہتے تھے تو وہ اکثر ہمارے گھر آیا کرتی تھی خدیجہ اس سے بہت پیار کرتی تھی ”
ابن ہشام میں ایک واقعے سے آپ صلی اللہ علیہ کی والہانہ محبت کا پتا چلتا ہے جب انکے داماد بدر میں قیدی ( ابو العاص اس وقت تک اعتقادی کافر تھے) کی حیثیت سے آئے اور ان کے فدیہ کے طور پر حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالی عنہا کا ہار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی نے بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رنجیدہ ہو گئے ۔
روبینہ کوثر نے آپ رضی اللہ تعالی عنہا کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا
“اللہ کے محبوب کو محبوب ہے سب سے
لاریب تیری ذات تیرا نام خدیجہ
ہے خانہ محبوب خدا تجھ سے معطر
تو باغ رسالت کی گلفام خدیجہ
لاریب معیت میں کڑے وقت کی ساتھی
لاریب تو ہے محسن اسلام خدیجہ
آرزدہ ہوا کبھی بھی دل میرے نبی کا
باحسن ادب تو نے لیا تھام خدیجہ
تاحشر! خوشا! سرور کونین کے ہمراہ
زندہ ہے ہر اک آن تیرا نام خدیجہ
اسلام کو طاقت تیرے ایثار نے بخشی ہے
خوب تیری خدمت اسلام خدیجہ ”
رضی اللہ عنہ و رضو عنہ

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply