مصطفی کمال غدار بن جائینگے

مصطفی کمال غدار بن جائینگے
عمران احمد راجپوت
ماضی بعید کے دو قوم پرست ماضی قریب 3مارچ 2016 کو وطن پرست بن کر پاکستان آتے ہیں اور ایک دھماکے دار پریس کانفرنس کرکے کراچی کی سیاست میں بھونچال پیدا کردیتے ہیں۔ دو سے تین ،تین سے چار ،چار سے پانچ اور پھر پانچ سے چھ کا ہندسہ عبور کرلیتے ہیں 23 مارچ 2016 کو کراچی کی تیس سالہ سیاسی تاریخ کو بدلنے کا بیڑا اٹھاتے ہیں۔ ٹھیک ایک ماہ بعد 24 اپریل 2016 کو کراچی کے عوام کو جناح گراؤنڈ میں جمع کرکے انھیں قوم پرستی سے نکال کر وطن پرستی کا درس دیتے ہیں. جہاں نوجوانوں سے ہتھیار پھینکنے اور قلم اٹھانے کی بات کی جاتی ہے یونٹ اور سیکٹر کی جگہ یونیورسٹیوں میں نام لکھانے کی منتیں کی جاتی ہیں ۔رہنما کی جگہ منزل دکھائی جاتی ہے جوان نسلوں کو واپس بوڑھے ماں باپ کے پاس جانے کی تلقین فرمائی جاتی ہے.
کارواں بڑھنے لگتا ہے حالات کے ستائے ہوئے برسوں سے اکتائے ہوئے لوگوں کو فلسفئہ وطن پرستی پر یقین ہونے لگتا ہے۔ وطن پرستی کی یہ تبلیغ پھیلتے پھیلتے کراچی کے جناح گراؤنڈ سے نکل کر حیدرآباد کے قلعہ گراؤنڈ پہنچ جاتی ہے وہاں بھی حالات کے ستائے برسوں سے اکتائے عوام خود کو وطن پرستی میں ڈھالنے کی غرض سے پنڈال میں جمع ہوتے ہیں ۔لیکن یہ کیا اسٹیج پر کھڑے عوام سے مخاطب وطن پرست اچانک پنڈال میں موجود عوام کے سامنے قوم پرست بن جاتے ہیں ۔نظریہ وطن پر ستی کو فروغ دینے کےلیے قوم پرستی کا سہارہ لیتے ہیں۔ اسٹیج پر کھڑے مہاجروں کے قصیدے سناکر ان پر یادِ ماضی کے نشتر چلائے جاتے ہیں۔ عوام کو محرومیوں کا بالکل اسی طرح احساس دلایا جاتا ہے، جیسے تیس سال پہلے ایک قوم پرست کی جانب سے دلایا گیا تھا، پنڈال میں موجود عوام کو کیڑے مکوڑوں سے تشبیہہ دیکر انکے جذبات کو بالکل اُسی طرح ابھارا جاتا ہے جیسے تیس سال پہلے ابھارا گیا تھا۔
وطن پرست بھی کیڑے مکوڑے سمجھنے والوں کو بالکل اسی طرح للکارتے ہیں جیسے تیس سال پہلے ایک قوم پرست نے للکارہ تھا. اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کی بالکل اسی طرح بات کی جاتی ہے جیسے آج سے تیس سال پہلے خواہش کی گئی تھی۔ ملک سے آمرانہ غاصبانہ طرزِ سیاست کا خاتمہ اور اقتدار ملک کے 2 فیصد مراعات یافتہ طبقے سے چھین کر 98 فیصد غریب و مظلوم عوام کے ہاتھوں میں دینے کا بالکل اسی طرح اعادہ کیا جاتا ہے جیسے تیس سال پہلے کیا گیا تھا۔ وطن پرست بھی آج اسی نعرہ حق پرستی کو بلند رکھنا چاہتے ہیں جو نعرہ تیس سال پہلے ایک قوم پرست نے لگایاتھا۔
کمال صاحب ہم جانتے ہیں آپ قوم کے ساتھ مخلص ہیں آپ کی نیک نیتی پر کسی کو شک نہیں ،لیکن خدارا یہیں رک جائیے آگے مت جائیے کیونکہ جس رستے پر آپ جارہے رہیں یہ آپ کو غداری کی جانب لیجائے گا ۔جیسے ایک قوم پرست کو لے جایا جاچکا ہے۔خدارا آگے مت جائیے قوم حقوق کی پاداش میں پہلے ہی اپنا ایک بہترین رہنما کھوچکی ہے اب آپ کو کھونا نہیں چاہتی۔ قوم نہیں چاہتی ریاست آپ کو حقوق کی پاداش میں اس نہج پر پہنچا دے کہ آپ ذہنی اذیت میں مبتلا ہوکر غداری کے مرتکب ٹھہر جائیں ۔جسکےبعد آپ کے اندر سے ایک اور مصطفیٰ کمال کو ہمارے سامنے لاکھڑا کریں جو کراچی کے جناح گراؤنڈ سے وطن پرستی کا نعرہ لیکر اٹھے اور حیدرآباد کے قلعہ گراؤنڈ میں یکایک قوم پرستی کے فلگ شگاف نعروں میں تبدیل کرکے مہاجر قوم کے جذبات کو پھر سے ابھارے اور قوم مزید تیس سال کےلیے اپنی مظلومیت کا رونا روتے ہوئے پھر سے ایک نئے سفر پر گامزن ہوجائے /جبکہ بانیانِ پاکستان کی اولادیں ہونے کے باوجود پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگواکر بھی لوگ قوم کی حب الوطنی پر شک کرتے پھریں۔
خدارا مت کیجئیے وہ باتیں جس کی پاداش میں قوم پہلے ہی اپنے پیاروں کو بھگتائے بیٹھی ہے. یاد رکھیں نظریہ ضرورت کے تحت جس تیزی سے جو لوگ آپ کو آگے لارہے ہیں بعد میں اُتنی ہی تیزی سے آپ کو پیچھے دھکیل دینگے ۔ہم جانتے ہیں آپ قوم کے ساتھ مخلص ہیں ۔آپ کی نیک نیتی پر کسی کو شک نہیں لیکن وہ بھی مخلص تھے جو آج سے تیس سال پہلے یہی جذبہ لیکر میدان میں اترے تھے ۔سب کا انجام آپ نے دیکھ لیا۔لہٰذا تاریخ مت دہرائیے.آپ مہاجر نوجوانوں کو اپنے ماں باپ کے پاس لوٹ جانے کی تلقین کرتے رہےہیں ،ہم بھی آپ سے اپنے ماں باپ اپنے بیوی بچوں کے پاس لوٹ جانے کی درخواست کرتے ہیں ۔خدارا لوٹ جائیے واپس لوٹ جانا غداری کا سرٹیفکٹ لینے سے بہتر ہے. ہمیں پانامہ والا نواز شریف، سرے محل والا زرداری اور مشرف کو باہر بھیجنے والا راحیل شریف قبول ہےلیکن اپنے آباؤ اجداد کی قبریں چھوڑ کر اپنی ماؤں بہنوں بیٹیوں کی عزتیں لٹا کر اپنے بڑوں کے سر کٹواکر حاصل کیے جانے والے ملکِ خدا داد کا غدار کہلوانا قبول نہیں ہے.

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply