مذہبی معاشرہ اور لبرل ازم۔۔عمار خان ناصر

لبرل ازم کی اصطلاح ہمارے ہاں عموماً‌ سماجی آزادیوں کے تناظر میں استعمال ہوتی ہے اور اس سے مراد انفرادی آزادیوں پر ایسی قدغنوں کو رد کرنا لیا جاتا ہے جو سماج، مذہب یا ریاست کی طرف سے عائد کی جائیں۔ اس مفہوم میں مذہبی معاشرے اور لبرل ازم میں بنیادی تضاد ہے۔ مذہبی معاشرہ سماجی حدود وقیود، مذہبی احکام اور ان پر مبنی تہذیبی روایات سے اخذ کرتا ہے۔ لبرل ازم کا فکری منبع اور عملی آئیڈیل جدید مغربی معاشرے ہیں جو عقلیت اور روشن خیالی کو راہ نما مانتے ہیں۔ اس سیاق میں پاکستان جیسے مذہبی معاشرے میں لبرل ازم کی بحث کے حوالے سے کچھ فکری اور کچھ عملی سوالات گذشتہ دو دہائیوں میں مزید اجاگر ہوئے ہیں اور سنجیدہ گفتگو کے متقاضی ہیں۔

سب سے بنیادی اور اہم سوال یہ ہے کہ لبرل ازم کا بیانیہ مذہبی معاشرے کے بیانیوں، تصورات اور ثقافتی روایات کے ساتھ کوئی مکالمہ کرنا اور عقلی وانسانی بنیادوں پر معاشرے کی کوئی ہمدردانہ راہنمائی کرنا چاہتا ہے یا ایک بالادست پوزیشن سے کلام کرتے ہوئے مذہبی معاشرے کے تصورات اور آئیڈیلز پر یک طرفہ حکم لگانا چاہتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ لبرل ازم کے تمام تر اظہارات ان میں سے دوسرے رویے کی نشان دہی کرتے ہیں اور اس کے نمائندہ طبقات اس حوالے سے ایک التباس پیدا کر کے مذہب اور مذہبی تصورات پر یک طرفہ حکم لگانا چاہتے ہیں۔ یہ التباس نظریات اور عقائد کے ایک معروضی تقابل کی بحث میں سیاسی طاقت یا تہذیبی غلبے سے پھوٹنے والی ججمنٹس کو شامل کرنا اور ان ججمنٹس کو ایسے انداز میں پیش کرنا ہے جیسے وہ کسی معروضی حقیقت کا بیان ہیں۔ یہ التباس خاص طور پر شریعت اور اسلامی تاریخ کے باب میں زیادہ نمایاں ہوتا ہے، کیونکہ اخلاقی نوعیت کے ججمنٹس صادر کرنے کا موقع اور میدان یہی ہے۔

نظریات وعقائد اور اعمال ورسوم کے معروضی تقابل میں کوئی ایسی نیوٹرل پوزیشن نہیں ہو سکتی جس پر کھڑا ہو کر کوئی شخص ایک ایسا حکم لگا سکے جو سب کے لیے قابل قبول ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اخلاقی احکام کچھ بنیادی عقائد سے پھوٹتے اور ان پر مبنی ہوتے ہیں۔ مثلاً‌ کسی جرم پر سزائے موت دینا اخلاقی ہے یا غیراخلاقی؟ اس سوال کا کوئی بھی جواب ممکن نہیں جب تک کہ اس سے پہلے انسانی زندگی سے متعلق کچھ بنیادی مفروضات نہ مانے جائیں۔ جب مفروضات مختلف ہوں گے تو لازماً‌ سوال کا جواب بھی مختلف ہوگا۔ اب معروضی تقابل میں بس اتنا کہا جا سکتا ہے کہ اس سوال کے جواب میں یہ دو یا تین پوزیشنیں ہیں جو باہم مختلف ہیں۔ ظاہر ہے، ہر ایک پوزیشن کی دوسری پوزیشن کے متعلق ججمنٹ یہی ہوگی کہ وہ غیر اخلاقی ہے، لیکن یہ بیان محض اس پوزیشن کے ایک منطقی نتیجے کا بیان ہوگا اور اس میں یہ بات تسلیم شدہ ہوگی کہ مخالف پوزیشن بھی جواب میں یہی ججمنٹ دینے کی مجاز ہے اور اس کا حق رکھتی ہے۔

اس سے آگے بڑھ کر اگر کوئی پوزیشن دوسری پوزیشن سے متعلق یہ کہے کہ اخلاقیات کے دائرے میں اس کا کوئی جواز ہی نہیں یا یہ کہ وہ ایک جوابی ججمنٹ کا حق نہیں رکھتی یا یہ کہ اس کو معاملات زندگی سے متعلق اپنے عقائد کے مطابق اخلاقی احکام وضع کرنے یا انھیں روبہ عمل کرنے کا حق نہیں تو اب یہ گفتگو معروضی تقابل کے دائرے میں نہیں رہتی۔ یہ تبھی ممکن ہوتی ہے جب ایک پوزیشن کو سیاسی طاقت اور تہذیبی غلبہ حاصل ہو اور وہ طاقت کے بل بوتے پر یہ مطالبہ کرے کہ مخالف پوزیشنیں اپنے اس حق سے دستبردار ہو جائیں کہ وہ اخلاقی احکام کو اپنی اعتقادی اساسات پر استوار کریں گی۔

اسی طرح مثال کے طور پر ہم جنس پرستی کے متعلق جدید تہذیبی نقطہ نظر، مذہبی موقف کے بالکل متضاد ہے۔ اسلامی شریعت کی نظر میں ہم جنس پرستی فطرت کا بگاڑ ہے۔ لوگ کسی بھی معاشرے میں اس میں مبتلا ہو سکتے ہیں اور ایسے لوگوں کی اصلاح اور اگر علت، بیماری بن گئی ہو تو ان کے جسمانی ونفسیاتی علاج کا بندوبست کرنا معاشرے کی ذمہ داری ہے۔ مذہبی معاشرے میں حسب ضرورت اس پر تادیبی وتعزیری اقدامات بھی کیے جائیں گے اور اس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے سد ذریعہ کا اصول بھی عمل میں لایا جائے گا۔

تاہم جدید دور میں اس حوالے سے ہمدردانہ رویے کا یا ایسے افراد کو بہ نظر مذمت نہ دیکھنے کا مطالبہ اس کو بیماری سمجھنے پر مبنی نہیں، بلکہ اس کو ایک فطری رجحان سمجھنے اور انسانی حق کے طور پر تسلیم کرنے پر مبنی ہے۔ اس زاویہ نظر سے ہم جنس پرستی قابل مذمت نہیں، بلکہ اس کی اخلاقی مذمت کرنا انسانی حقوق کے منافی اور ناروا امتیاز کا مظہر ہے۔ اس مطالبے کو قبول کرنا، ظاہر ہے، مسلمانوں کے لیے ممکن نہیں۔ ہم جنس پرستی ایک منکر ہے اور منکر کو منکر کی حیثیت سے بیان کرنا نیز منکرات میں مبتلا اور خاص طور پر اباحیت کے قائل طبقوں یا افراد کے ساتھ ایسے تعامل سے اجتناب کرنا جس سے ان کے موقف کی تائید ہوتی ہو، مسلمانوں سے دین کا لازمی تقاضا ہے۔

غالب تہذیب اپنی مادی قوت کے زیر اثر مغلوب معاشروں میں کیسے اپنے فلسفوں اور افکار کے لیے پذیرائی کا ماحول پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، اس حوالے سے ایک خاص فرق کو نوٹس کرنا اہم ہے۔ غالب تہذیب چونکہ ذہنی مقلدین کی نہیں بلکہ زندہ دماغوں کی ہوتی ہے، اس لیے وہ انھی افکار واقدار کو فروغ دینے کا کشٹ اٹھاتی ہے جن پر وہ اپنا باقاعدہ موقف طے کر چکی ہو اور اس کی پوری تہذیبی فکر ان کے پیچھے کھڑی ہو۔ موجودہ غالب تہذیب کے تناظر میں انسانی حقوق، جنسی آزادی وغیرہ کے مسائل کی یہی نوعیت ہے۔ لیکن جو افکار ابھی یہ درجہ حاصل نہ کر پائے ہوں، غالب تہذیب پوری سمجھ داری سے ان کی تہذیبی وکالت کی ذمہ داری نہیں اٹھاتی۔ مغلوب معاشروں میں یہ فرق ملحوظ نہیں رکھا جاتا، بلکہ مقامی تہذیبی روایات سے برسرپیکار ہونے اور انھیں منہدم کرنے کے شوق میں جو اینٹ پتھر مل جائے، اسے بصد شکریہ قبول کر کے آزمانا شروع کر دیا جاتا ہے۔

اس کی ایک مثال جانوروں سے متعلق انسان کی اخلاقی ذمہ داری کی بحث ہے جو ہمارے ہاں بہت سے لبرل اہل دانش کو قربانی کی عید کے موقع پر یاد آ جاتی ہے۔ جانوروں کے غذائی استعمال سے متعلق یہ موقف برصغیر میں صدیوں سے بلکہ اسلام سے بھی پہلے سے موجود ہے، تاہم اس کے حاملین اسے اپنے خاص مذہبی یا اخلاقی موقف کے طور پر پیش کرتے ہیں، ایسے ہی جیسے مسلمان سور کے گوشت کو حرام سمجھتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، وہ اسے ایک واحد اخلاقی پوزیشن کے طور پر بیان نہیں کرتے، بلکہ صرف ایک مقابل موقف کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔ موجودہ غالب تہذیب کا خمیر چونکہ عقلی واخلاقی حکم لگانے کی اہلیت پر کلی اجارہ داری کے تصور سے اٹھایا گیا ہے، اس لیے مغلوب معاشروں میں اس کے متاثرین ان ناپختہ فلسفوں کو بھی اسی عزم وایقان سے پیش کرنے لگتے ہیں جن پر ابھی غالب تہذیب نے بھی کوئی حتمی پوزیشن نہیں لی۔

جانوروں سے ہمدردی ایک فطری جذبہ ہے اور اس کے زیر اثر یہ احساس پیدا ہونا کہ انسانوں کو اپنی خوراک کے لیے جانوروں کو قتل نہیں کرنا چاہیے، ایک قابل فہم نفسیاتی واقعہ ہے۔ تاہم اسے ایک یونیورسل اخلاقی اصول میں کیسے بدلا جائے، یہ ایک مشکل فلسفیانہ سوال ہے جس کی کچھ پیچیدگیاں اس بک ریویو میں دیکھی جا سکتی ہیں جو 2018 میں شائع ہونے والی اس موضوع کی تازہ ترین کتاب Fellow Creatures پر لکھا گیا ہے: The place of animals in Kantian ethics | SpringerLink

خلاصہ یہ کہ دور جدید کی غالب تہذیبی قوت، ماضی کی تہذیبوں کے برعکس، دنیا سے یہ مطالبہ رکھتی ہے وہ اس کی سیاسی طاقت کے مطالبات کو ایسی ججمنٹس کی حیثیت سے قبول کرے جو آفاقی اور معروضی صداقت پر مبنی ہیں اور ہمارے ہاں کی لبرل دانش اس مطالبے پر لبیک کہتے ہوئے طاقت کے مطالبات کو معروضی حقیقتوں کے التباس میں جواز بہم پہنچانے کی کوشش میں لگ جاتی ہے۔

لبرل بیانیوں سے متعلق ایک دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی نمائندگی یا ترجمانی کرنے والوں میں معدودے چند حضرات یقیناً‌ ایسے ہیں  جوفکری بنیادوں پر لبرل ہیں اور لبرل ازم کی فکری بنیادوں سے علمی طور پر بھی واقف ہیں۔ تاہم اکثریت کا مسئلہ نفسیاتی ہے جو مقامی معاشرے کے ماضی وحال اور ماضی وحال کی نمائندہ شخصیات کے بارے میں سخت تنفر اور بے زاری کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہ صورت حال، اصلاً‌ استعماری جدیدیت کی پیدا کردہ ہے جو اپنے اثرات ومظاہر میں اصل اور معیاری جدیدیت سے کافی مختلف ہے۔ ماضی سے الگ اور مختلف ہونا، جدیدیت کی شناخت کا ایک بنیادی عنصر ہے، تاہم معیاری جدیدیت کا عمومی رویہ خود اپنی روایت کے متعلق تنفر، بے زاری اور استہزا کا نہیں ہے۔ اس کی وجہ وہ اعتماد ہے جو ایک نئی دنیا کی تشکیل میں کامیابی سے پیدا ہوتا ہے۔ استعماری جدیدیت کو متعارف کرانے والی سیاسی طاقت چونکہ مقامی معاشروں کی نئی تشکیل مکمل کیے بغیر یہاں سے رخصت ہو گئی، اس لیے مقامی دانش کا ایک حصہ شدید اضطراب کی کیفیت سے دوچار ہے۔ اس کی تمناوں کی منزل ایسا معاشرہ ہے جو جدیدیت کا کامل مظہر ہو، لیکن سردست یہ ممکن نہیں۔ اس شدید ذہنی دباو کا اظہار مقامی معاشرے، اس کی تاریخ، نمائندہ قومی شخصیات اور ثقافت وغیرہ سے اظہار نفرت اور تحقیر کی صورت میں ہوتا ہے۔

معاشرے کی نئی تعمیر کا جذبہ، مثبت ہوتا ہے اور ہمدردانہ تنقید کی صورت میں سامنے آتا ہے جس میں شرط اولین معاشرے کے ساتھ ایک وابستگی اور تعلق کو قبول کرنا ہوتا ہے۔ لبرل دوستوں کا یہ طبقہ چونکہ یہ توازن پیدا کرنے سے قاصر ہے، اس لیے اس کے نزدیک اپنی شناخت کے اظہار کا واحد طریقہ تحقیر، تمسخر اور اظہار نفرت رہ جاتا ہے۔ ایسا کوئی بھی طبقہ معاشرے کی تعمیر میں کیا مثبت کردار ادا کر سکتا ہے، یہ مخفی نہیں اور اسی حقیقت کے ادراک سے ان حضرات کی نفسیاتی کیفیت میں مزید شدت پیدا ہو جاتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ واضح رہنا چاہیے کہ اظہار نفرت کا یہ رویہ ایک خاص طبقے میں زیادہ مقبول ہے اور ایسا نہیں کہ مذہبی معاشرے کی اقدار اور تصورات سے اختلاف رکھنے والے سبھی لوگ اس کا شکار ہیں۔ لبرل ازم یا سیکولرزم پر یقین رکھنے والے بہت سے سنجیدہ اور باوقار حضرات بھی موجود ہیں جو نظری اختلاف رکھتے ہوئے بھی معاشرے کی مجموعی بہبود کے لیے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایسی ہی بعض شخصیات کی وفات پر دیکھنے میں آتا ہے کہ بہت سے مذہبی لوگ بھی اظہار تعزیت کرتے اور دعائے مغفرت کرتے ہیں۔ محترمہ عاصمہ جہانگیر، محترم آئی اے رحمان اور پروفیسر مہدی حسن کی وفات پر ایسا ہی ہوا۔ ایسی شخصیات اور بھی ہیں جو ابھی بقید حیات ہیں اور یقیناً‌ ان کے حوالے سے بھی اس روایت کا تسلسل قائم رہے گا۔

Facebook Comments

عمار خان ناصر
مدیر ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply