خواجہ سرا کے نام جوابی خط۔۔۔فیصل وقاص

ہم معزرت خواہ ہیں کہ تمہارا خط جو تم نے اپنی ماں کے نام لکھا تھا ،تمہاری ماں تک نہ پہنچ پایا۔تمہارے خط پر تمہاری ماں کا پتہ ہی موجود نہ تھا۔ ہم نے وہ خط تمہاری گمنام ماں تک پہنچانے کی بہت کوشس کی پر ہم کامیاب نہ ہوسکے۔ ہم نے آخری چارے کے طور پر وہ خط سوشل میڈیا پر ڈالا۔لیکن کوئی بھی ایسی عورت سامنے نہ آئی جو یی دعوی کر لیتی کہ “ہاں یہ میری اولاد ہے اور یہ میرے نام کا خط ہے”.

ہم نے تمہارے خط کو چاے کے ڈھابوں پر،ریل گاڑیوں کی تنگ بوگیوں میں، آلودہ شاہراہوں کے کنارے بوسیدہ بینچوں پر، عمر رسیدہ عمارتوں کی اندھیری کوٹھریوں میں، یونیورسٹیوں کے کیفوں میں، نیز ہر جگہ مرکز گفتگو بناے رکھا، ہم نے تمہارے خط کو ایک لاکھ لوگوں تک پہنچایا، ہم تمہارے خط کو کروڑوں ماوں تک پہنچا رہے ہیں۔ لیکن ہمیں ابھی تک وہ ماں نہ ملی جو تمہیں جنم دینے کا اقرار کرے۔

کبھی کبھی تو ہمیں شک گزرتا ہے کہیں تم بن ماں باپ کے تو پیدا نہیں ہوئی ؟ اور کبھی یہ گمان ہوتا ہے کہ جو کچھ تم نے سہا وہ ایک انسان کیسے سہہ لیتا ہوگا ، کہیں تم دیوی دیوتا تو نہیں؟

تمہارا خط پرھنےکے بعد ہم میں ایک چیز پیدا ہوئی جسے احساس کہا جاتا ہے ، اسی احساس نے ہمیں پہلی بار سینے میں دھڑکتے دل کی آواز سنائی ۔ ہم نے محسوس کیا کہ ہم اجنبی ضرور ہیں پر انسان تو ہے ، ہم روے ، اور ہم نے ٹھانی کہ تمہارا خط تمہاری ماں کو دینے کے بعد واپس لے کر سنبھال کے رکھیں گے۔ تمہارا مقدمہ لڑیں گے، لیکن ہم ایسے مقدمے کا وکیل نہیں ڈھونڈ سکے۔ کیسے ڈھونڈتے وکیل بھی ایک باپ ہوتا ہے۔وہ بھی ایسے ہی سوچتا ، ایسے ہی کرتا ، ایسی ہی سماج کے طعنوں کا بدلہ تم سے لیتا۔ ہمیں قاضی نہ مل سکا جس پر اعتبار کر لیتے کہ وہ تمہیں انصاف دے سکے۔

ہم کو ہر باپ میں تمہارا باپ نظر آیا ۔ ہم کو ہر ماں میں تمہاری دبی ہوئی خاموش ماں نظر آئی۔جو پردے کے پیچھے کھڑی ہو کر اپنے جگر کے ٹکڑے کو صحن میں مٹی پر گھسیٹتے ہوے دیکھ کر بھی آگے نہ بڑھ سکے، ہاتھ نہ روک سکے، اس انسان کا جس کی عزت کو تم جیسی معصوم زندہ لاش سے خطرہ ہو۔ ہم نے خود کو کچھ وقت کے لئے تمہاری جگہ رکھا اور اپنے باپ کو تمہارے باپ کی جگہ ، تو صورتحال ایک جیسی ہی نکلی ، ہمیں اپنے باپ کی محبت کی بنیاد بھی ہمارا کسی ایک جنس سے تعلق ہونا نظر آیا۔ ہم پر خوف طاری ہوا۔ ہم لرز گئے یہ سوچتے وقت کہ کیا ہوتا اگر خدا نے ہمیں خواجہ سرا بنایا ہوتا۔ ہم پر اپنے رشتے کھلتے گئے۔ہمیں احساس ہوا کہ ہم معاشرے کو قبول اسی وجہ سے ہیں کہ ہم صاحب جنس ہیں ۔ ہم معاشرے کے بقول خدا کی غلطی نہیں ہے۔

ہمارا مشورہ تمہیں یہی ہے کہ تم جہاں بھی ہو اس وقت خدا کے لئے اپنا مقدمہ انسانوں کی عدالتوں میں پیش نہ کرو۔ تم جہاں بھی ہو وہاں تم قابل قبول ہو۔ یہاں خط لکھ کر سوال مت اٹھایا کرو، یہاں خط لکھ کر ہمیں رشتوں کی سچائی جاننے پر مجبور نہ کرو۔ ہم کس منہ سے اپنے والدین سے یہ سوال کریں کہ اگر ہم خواجہ سرا ہوتے تو ہمارا مقدر کیا ہوتا ؟؟ اور کس حوصلے سے انہیں جواب دینے کے قابل سمجھیں۔تم جہاں بھی ہو اس وقت ہمیں امید ہے وہاں تمہارے کسی فارم پر جنس کا آپشن نہیں ہوگا۔

تم جہاں بھی ہو اس وقت تم وہاں کی عدالت میں اپنا مقدمہ درج کرو۔ ہم جانتے ہیں وہاں کا قاضی باپ نہیں ہے۔ وہ کہتا ہے میں ستر ماوں سے زیادہ پیار کرتا ہوں اپنے بناے گئے بندوں سے۔ ہم جانتےہیں وہ قاضی تمہارے حق میں فیصلہ دے گا۔ کیونکہ اس نے محبت کے پیمانے کو ماں کی محبت سے ضرب دی ہے ۔ اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ قاضی انسانوں کی طرح تم سے اپنے رشتے پر نادم نہیں۔ اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے ۔ وہی تمہارا سب سے بڑا حامی ہے۔

خدا خافظ

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک اجنبی انسان

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply