اسلامی ٹچ۔۔چوہدری عامر عباس

تقریر کے دوران قاسم سوری نے عمران خان کو “اسلامی ٹچ” دینے کا مشورہ دیا۔ آج کل پاکستان میں اس “اسلامی ٹچ” کی بہت بحث چل رہی ہے۔ کیوں ناں اسی پر بغیر کسی لگی لپٹی کے بات ہو جائے۔

میں نے جب تقریر کا یہ حصہ سنا تو مجھے بہت معیوب لگا کہ سیاسی جلسوں میں ایسا نہیں ہونا چاہیئے۔ ہم ہر چیز میں دین کا تڑکا لگاتے ہیں مگر دین پر عمل نہیں کرتے۔ مگر میں نے جب اس موضوع پر مطالعہ کیا تو میں اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور ہوا۔ بحیثیت مسلمان “اسلامی ٹچ” ہماری روزمرہ روٹین کا حصہ ہے۔ ہم چاہے جتنا بھی فارورڈ ہو جائیں کہیں نہ کہیں دن میں متعدد بار ہم “اسلامی ٹچ” کرتے ہیں۔

اسلامی ٹچ تو ہماری رگ رگ میں سمایا ہوا ہے۔ مثلاً آپ ایک فیشن ایبل لڑکی کو دیکھیں دوپٹہ اس کے گلے میں ہوتا ہے۔ جیسے ہی آزان کی آواز اس کے کانوں میں پڑتی ہے وہ بے ساختہ اپنا دوپٹہ سر پر لے لیتی ہے۔ یہی “اسلامی ٹچ” ہے۔ غرض یہ کہ بہت سے معاملات میں ہم نہ چاہتے ہوئے عدم توجہی میں بھی “اسلامی ٹچ” دے جاتے ہیں۔

تحریک پاکستان کی بنیاد بھی “اسلامی ٹچ” پر رکھی گئی جب قائداعظم نے کہا کہ مسلمانوں کیلئے الگ خطہ چاہئیے جہاں وہ اپنے طور طریقے کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔ اسی چیز نے مسلمانوں کے اندر ولولہ اور جوش بھر دیا اور عوامی طاقت سے قائداعظم ایک الگ وطن لینے میں کامیاب ہوئے۔ قائداعظم جنہیں بعض لوگ سیکولر کا لیبل بھی لگاتے ہیں ان کی تمام تقاریر میں “اسلامی ٹچ” بھی موجود ہوتا تھا جب وہ دو قومی نظریہ کی بات کرتے تھے۔

اسلام ہی دیگر مذاہب سے محبت اور رواداری کا سبق دیتا ہے۔ جب ہماری بنیاد ہی اسلام پر رکھی گئی ہے تو پھر ہم “اسلامی ٹچ” سے جدا کیسے ہو سکتے ہیں؟ دو قومی نظریہ کی بنیاد بھی اسلامی ٹچ پر ہی رکھی گئی جب قائد اعظم نے اپنی تقاریر میں کہا کہ ہندوستان میں دو قومیں ہیں ایک ہندو اور ایک مسلمان۔ یہ اسلامی ٹچ نہیں تو اور کیا تھا؟ اگر سوچا جائے تو اسی نظریے کی بنیاد پر پاکستان معرضِ وجود میں آیا تھا۔

پاکستان کا مطلب کیا “لاالہ الا اللہ”۔ یہ کیا ہے؟ یہ بھی اسلامی ٹچ ہے۔ گویا پاکستان کی بنیاد ہی اسلامی ٹچ پر رکھی گئی ہے۔ ہمارا قومی ترانہ پڑھ کر دیکھ لیجئے سب سے پہلے اسلامی ٹچ ہی دیا گیا ہے۔ آئین پاکستان کے ابتدائیہ میں بھی یہ کہا گیا ہے کہ اقتدار اعلیٰ صرف اللہ کی ذات ہے۔ گویا آئین پاکستان کو ابتداء میں ہی اسلامی ٹچ دے دیا گیا۔ زرا آگے چلیں۔ آئین کے تحت پاکستان کا پورا نام “اسلامی جمہوریہ پاکستان” ہے۔ کیا یہاں “اسلامی ٹچ” موجود نہیں ہے کہ اسلام کے بغیر پاکستان کا نام ہی مکمل نہیں ہوتا؟

آئین کے تحت مملکت خداداد میں اسلام سے متصادم کوئی بھی قانون سازی نہیں کی جا سکتی۔ لفظ “پاکستان” پر غور کیجئے جو دو الفاظ سے مل کر بنا ہے “پاک” اور “ستان”۔ پاک اور ناپاک کا تصور بھی اسلام نے ہی دیا ہے تو کیا پاکستان کے نام میں ہی” اسلامی ٹچ” موجود نہیں ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر ہم کیونکر اسلام سے الگ ہو کر سوچ سکتے ہیں؟

ہمارے پرچم کا بڑا حصہ سبز رنگ پر مشتمل ہے جو مسلمانوں کی اکثریت کو ظاہر کرتا ہے۔ کیا یہ “اسلامی ٹچ” نہیں ہے؟ اسلام دیگر مذاہب کیساتھ محبت، حسن سلوک اور رواداری کا درس دیتا ہے اسی وجہ سے جھنڈے میں سفید رنگ بھی رکھا گیا کہ اس پاکستان میں غیر مسلموں کا بھی حصہ ہے۔

کہتے ہیں کہ عمران خان اپنی سیاسی پبلسٹی کیلئے “اسلامی ٹچ” دے رہے ہیں۔ بھئی عمران خان تو پندرہ سال سے کہہ رہا ہے کہ افغانستان مسئلہ کا حل جنگ کے بجائے مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر ہونا ہے۔ ہم کفار کی جنگ میں کود کر اپنی عوام کو ناحق مروا رہے ہیں ہمیں امریکی جنگ سے الگ ہونا ہے، افغانی بھی مسلمان ہیں یہ جنگ بند کر کے مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ہو گا۔ اسلام دشمن لوگ عمران خان کو طالبان خان کہنے لگے، پھر سب نے دیکھا کہ بالآخر کس طرح عمران خان پر “اسلامی ٹچ” کا ٹھپہ تو پندرہ سال سے لگا ہوا ہے۔

عمران خان نے اپنے دور حکومت میں اسلام کا مقدمہ دنیا بھر میں لڑا۔ توہین آمیز خاکوں کے خلاف عالمی فورمز پر اسلام بارے غیر مسلموں کے رویہ کی نفی کی، اسلام کا روش چہرہ دکھایا۔ رائے عامہ ہموار کی، غیر مسلموں کو کہا کہ جیسے تمہارے مذہبی جذبات ہیں ویسے ہی ہمارے بھی مذہبی جذبات ہیں۔ یہ عمران خان ہی ہے جس نے اسلامو فوبیا پر ایک عالمی قرار داد پاس کرائی جس میں کہا گیا کہ کسی بھی مذہب کی توہین نہیں کی جائے گی۔
تقریر کے دوران قاسم سوری نے عمران خان کو “اسلامی ٹچ” دینے کا مشورہ دیا۔ آج کل پاکستان میں اس “اسلامی ٹچ” کی بہت بحث چل رہی ہے۔ کیوں ناں اسی پر بغیر کسی لگی لپٹی کے بات ہو جائے۔

میں نے جب تقریر کا یہ حصہ سنا تو مجھے بہت معیوب لگا کہ سیاسی جلسوں میں ایسا نہیں ہونا چاہیئے۔ ہم ہر چیز میں دین کا تڑکا لگاتے ہیں مگر دین پر عمل نہیں کرتے۔ مگر میں نے جب اس موضوع پر مطالعہ کیا تو میں اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور ہوا۔ بحیثیت مسلمان “اسلامی ٹچ” ہماری روزمرہ روٹین کا حصہ ہے۔ ہم چاہے جتنا بھی فارورڈ ہو جائیں کہیں نہ کہیں دن میں متعدد بار ہم “اسلامی ٹچ” کرتے ہیں۔

اسلامی ٹچ تو ہماری رگ رگ میں سمایا ہوا ہے۔ مثلاً آپ ایک فیشن ایبل لڑکی کو دیکھیں دوپٹہ اس کے گلے میں ہوتا ہے۔ جیسے ہی آزان کی آواز اس کے کانوں میں پڑتی ہے وہ بے ساختہ اپنا دوپٹہ سر پر لے لیتی ہے۔ یہی “اسلامی ٹچ” ہے۔ غرض یہ کہ بہت سے معاملات میں ہم نہ چاہتے ہوئے عدم توجہی میں بھی “اسلامی ٹچ” دے جاتے ہیں۔

تحریک پاکستان کی بنیاد بھی “اسلامی ٹچ” پر رکھی گئی جب قائداعظم نے کہا کہ مسلمانوں کیلئے الگ خطہ چاہئیے جہاں وہ اپنے طور طریقے کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔ اسی چیز نے مسلمانوں کے اندر ولولہ اور جوش بھر دیا اور عوامی طاقت سے قائداعظم ایک الگ وطن لینے میں کامیاب ہوئے۔ قائداعظم جنہیں بعض لوگ سیکولر کا لیبل بھی لگاتے ہیں ان کی تمام تقاریر میں “اسلامی ٹچ” بھی موجود ہوتا تھا جب وہ دو قومی نظریہ کی بات کرتے تھے۔

اسلام ہی دیگر مذاہب سے محبت اور رواداری کا سبق دیتا ہے۔ جب ہماری بنیاد ہی اسلام پر رکھی گئی ہے تو پھر ہم “اسلامی ٹچ” سے جدا کیسے ہو سکتے ہیں؟ دو قومی نظریہ کی بنیاد بھی اسلامی ٹچ پر ہی رکھی گئی جب قائد اعظم نے اپنی تقاریر میں کہا کہ ہندوستان میں دو قومیں ہیں ایک ہندو اور ایک مسلمان۔ یہ اسلامی ٹچ نہیں تو اور کیا تھا؟ اگر سوچا جائے تو اسی نظریے کی بنیاد پر پاکستان معرضِ وجود میں آیا تھا۔

پاکستان کا مطلب کیا “لاالہ الا اللہ”۔ یہ کیا ہے؟ یہ بھی اسلامی ٹچ ہے۔ گویا پاکستان کی بنیاد ہی اسلامی ٹچ پر رکھی گئی ہے۔ ہمارا قومی ترانہ پڑھ کر دیکھ لیجئے سب سے پہلے اسلامی ٹچ ہی دیا گیا ہے۔ آئین پاکستان کے ابتدائیہ میں بھی یہ کہا گیا ہے کہ اقتدار اعلیٰ صرف اللہ کی ذات ہے۔ گویا آئین پاکستان کو ابتداء میں ہی اسلامی ٹچ دے دیا گیا۔ زرا آگے چلیں۔ آئین کے تحت پاکستان کا پورا نام “اسلامی جمہوریہ پاکستان” ہے۔ کیا یہاں “اسلامی ٹچ” موجود نہیں ہے کہ اسلام کے بغیر پاکستان کا نام ہی مکمل نہیں ہوتا؟

آئین کے تحت مملکت خداداد میں اسلام سے متصادم کوئی بھی قانون سازی نہیں کی جا سکتی۔ لفظ “پاکستان” پر غور کیجئے جو دو الفاظ سے مل کر بنا ہے “پاک” اور “ستان”۔ پاک اور ناپاک کا تصور بھی اسلام نے ہی دیا ہے تو کیا پاکستان کے نام میں ہی” اسلامی ٹچ” موجود نہیں ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر ہم کیونکر اسلام سے الگ ہو کر سوچ سکتے ہیں؟

ہمارے پرچم کا بڑا حصہ سبز رنگ پر مشتمل ہے جو مسلمانوں کی اکثریت کو ظاہر کرتا ہے۔ کیا یہ “اسلامی ٹچ” نہیں ہے؟ اسلام دیگر مذاہب کیساتھ محبت، حسن سلوک اور رواداری کا درس دیتا ہے اسی وجہ سے جھنڈے میں سفید رنگ بھی رکھا گیا کہ اس پاکستان میں غیر مسلموں کا بھی حصہ ہے۔

کہتے ہیں کہ عمران خان اپنی سیاسی پبلسٹی کیلئے “اسلامی ٹچ” دے رہے ہیں۔ بھئی عمران خان تو پندرہ سال سے کہہ رہا ہے کہ افغانستان مسئلہ کا حل جنگ کے بجائے مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر ہونا ہے۔ ہم کفار کی جنگ میں کود کر اپنی عوام کو ناحق مروا رہے ہیں ہمیں امریکی جنگ سے الگ ہونا ہے، افغانی بھی مسلمان ہیں یہ جنگ بند کر کے مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ہو گا۔ اسلام دشمن لوگ عمران خان کو طالبان خان کہنے لگے، پھر سب نے دیکھا کہ بالآخر کس طرح عمران خان پر “اسلامی ٹچ” کا ٹھپہ تو پندرہ سال سے لگا ہوا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عمران خان نے اپنے دور حکومت میں اسلام کا مقدمہ دنیا بھر میں لڑا۔ توہین آمیز خاکوں کے خلاف عالمی فورمز پر اسلام بارے غیر مسلموں کے رویہ کی نفی کی، اسلام کا روش چہرہ دکھایا۔ رائے عامہ ہموار کی، غیر مسلموں کو کہا کہ جیسے تمہارے مذہبی جذبات ہیں ویسے ہی ہمارے بھی مذہبی جذبات ہیں۔ یہ عمران خان ہی ہے جس نے اسلامو فوبیا پر ایک عالمی قرار داد پاس کرائی جس میں کہا گیا کہ کسی بھی مذہب کی توہین نہیں کی جائے گی۔

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply