شاباش حکومت پاکستان۔۔چوہدری عامر عباس ایڈووکیٹ

یہ بات درست ہے کہ موجودہ حکومت میں کئی خامیاں ہیں جن کی ہم گزشتہ ایک سال سے نشاندہی بھی کرتے آئے ہیں اور تنقید بھی کر رہے ہیں۔ خاکسار نے اس پر کالم بھی لکھے۔ پاکستان تحریک انصاف نے اپنے حالیہ تین سالہ دور حکومت کے دوران بہت غلطیاں کیں، مہنگائی، گورننس اور لا اینڈ آرڈر کے مسائل بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔ لیکن کچھ بہترین اور منفرد کاموں کا کریڈٹ بھی صرف موجودہ حکومت کو ہی جاتا ہے۔ کسی بھی ریاست کے شہریوں کے بنیادی مسائل تعلیم اور صحت ہیں۔ اس حکومت نے ان دو مسائل کو فوکس کرکے اب تک بہترین اقدامات کئے ہیں جو قابل ستائش ہیں۔ صحت کے شعبے میں سب سے بڑا منصوبہ یونیورسل ہیلتھ انشورنس ہے۔

گزشتہ برس ملک کے غریب طبقے کو ہیلتھ انشورنس کی سہولت دی جس کے تحت مہنگے ترین پرائیویٹ ہسپتالوں میں غریب فیملیز مفت علاج کی سہولت سے استفادہ کر سکتی ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا منصوبہ ہے جو عموماً ترقی یافتہ اور امیر ممالک میں ہی میسر ہوتا ہے۔ اگرچہ کچھ لوگوں کو اس کے استعمال کے سلسلے میں شکایات بھی دیکھنے میں آئیں۔ اس کی ایک اہم وجوہات اس ہیلتھ انشورنس کو استعمال کے طریقے کے متعلق آگاہی کا نہ ہونا اور پالیسی معاملات ہو سکتے ہیں۔ ہیلتھ انشورنس بہت بہترین منصوبہ ہے جس میں وقت کیساتھ انشاءاللہ بہتری بھی آئے گی اور اس میں موجود نقائص بھی دور ہوں گے۔ مجموعی طور پر یونیورسل ہیلتھ انشورنس پاکستان جیسے ملک میں ایک انقلابی قدم ہے۔ کچھ لوگ تنقید کر رہے ہیں کہ انشورنس کے بجائے سرکاری ہسپتالوں کی حالت بہتر بنائی جائے۔ ان کا نقطہ نظر بھی درست ہے۔ اس پر بھی کام جاری ہے۔ سرکاری ہسپتال مریضوں سے بھرے پڑے ہیں جس وجہ سے نہ صرف نئے ہسپتال بنائے جا رہے ہیں بلکہ پہلے سے موجود ہسپتالوں میں بیڈز کی تعداد بھی بڑھائی جا رہی ہے۔ ہیلتھ انشورنس سے ایک فائدہ یہ ہو گا کہ سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کے بوجھ میں کمی آئے گی۔ مجھے بڑی حیرت ہوتی ہے جب کچھ لوگ یہ تنقید کرتے ہیں کہ ملک کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ ہیلتھ انشورنس کی مد میں جا رہا ہے۔ بھئی صحت اور تعلیم ہی وہ سیکٹر ہیں کہ جس پر خرچ ہونا چاہیے اور بیش بہا خرچ ہونا چاہیے۔ دراصل فلاحی ریاست کا تصور ہی  یہی ہے۔ وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جنہوں نے عوام کی صحت اور تعلیم کو فوکس کیا۔ پورے صوبہ خیبر پختون خوا کے عوام کو یہ سہولت دے دی گئی ہے۔ اس سال دسمبر تک ہیلتھ انشورنس کا دائرہ کار صوبہ پنجاب کی تمام آبادی تک بڑھا دیا جائے گا۔

اس حکومت کا دوسرا سب سے اہم کارنامہ ملک کے اندر سنگل نیشنل کریکولم متعارف کروانا ہے۔ اس پر کام مکمل ہو چکا ہے اور رواں سال سے پرائمری کلاسز تک سنگل نیشنل کریکولم نافذ کر دیا گیا ہے۔ اگلے سال اس کا دائرہ کار مڈل اور بعد ازاں ہائی گریڈز تک بڑھا دیا جائے گا۔ قابل ترین ملکی و غیر ملکی ماہرین تعلیم کی خدمات حاصل کرکے نصاب کو ازسر نو ترتیب دے کر جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا گیا ہے۔ جدید دنیا کا مقابلہ کرنے کیلئے نصاب کو عالمی معیار کے مطابق ڈیزائن کیا گیا ہے جس میں ہماری معاشرتی، مذہبی اور سماجی اقدار کو بالخصوص مدنظر رکھا گیا ہے۔ اس نصاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کو مرتب کرنے میں تمام سٹیک ہولڈرز اور پرائیویٹ سیکٹر کے تعلیمی اداروں کی تجاویز کو بطور خاص اہمیت دی گئی ہے۔ گویا اب سرکاری سکولوں میں بھی پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی طرز کا نصاب پڑھایا جائے گا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا سلیبس ہے جس میں بہترین تعلیم کیساتھ ساتھ عملی طور پر بچوں کی کردار سازی پر بھی خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ یہ سنگل نیشنل کریکولم انتہائی مشکل کام بلکہ بہت بڑا سنگ میل ہے۔ اگرچہ اس میں کچھ صوبوں کو تحفظات ہیں وہ بھی قوی امکان ہے کہ جلد دور کر دیے جائیں گے اور عنقریب تمام صوبوں میں رائج ہو جائے گا۔
صوبہ پنجاب میں ایک ضلع ایک یونیورسٹی کے ویژن پر نہ صرف منصوبہ بندی کی گئی بلکہ اس پر بہت تیزی سے عملدرآمد بھی جاری ہے۔ گزشتہ ڈھائی سال کے دوران بارہ اضلاع میں یونیورسٹیوں کا اعلان ہوا ہے جن میں سے چھ یونیورسٹیوں کی تعمیر اختتامی مراحل میں ہے۔ کچھ اضلاع کیلئے زمین ایکوائر کر لی گئی ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب تمام اضلاع کے دورے کر رہے ہیں اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کیساتھ ساتھ ہر ضلع میں ایک ایک یونیورسٹی کی تعمیر کا اعلان بھی کر رہے ہیں۔ حکومت پنجاب کے منصوبے کے مطابق 2023 تک پنجاب کے ہر ضلع میں کم از کم ایک یونیورسٹی بنا دی جائے گی۔ اس طرح بڑے شہروں کے کالجز اور یونیورسٹیوں پر بوجھ میں کمی آئے گی اور عوام کو معیاری تعلیم انکی دہلیز پر میسر ہو گی۔ یہ ایک ایسا لانگ ٹرم منصوبہ ہے جس کے ثمرات کچھ عرصہ بعد حاصل ہوں گے۔ بہرحال اس انقلابی منصوبہ سے صوبہ پنجاب کے پسماندہ اضلاع میں تعمیر و ترقی کے نئے دور کا آغاز ہو گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

موجودہ حکومت میں کسان بہت خوشحال ہوا ہے۔ اگرچہ میں خود کسان نہیں ہوں لیکن ایک کسان کا بیٹا ہوں۔ مجھ سے زیادہ کسانوں کے مسائل کون سمجھ سکتا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے کسانوں کی حالت زار دیکھ کر رونا آتا تھا۔ لیکن اب گزشتہ دو سال سے کسانوں کو انکی فصل کا ریٹ ٹھیک مل رہا ہے جس سے خوشحالی آئی ہے۔ گزشتہ دنوں کسانوں کے ایک وفد کو وزیراعظم ہاؤس میں مدعو کیا گیا۔ وزیراعظم نے ان سے ملاقات کی اور انکے مسائل سنے۔ اسی وفد کے ایک رکن کا کہنا ہے کہ یہ پہلا وزیر اعظم ہے جس نے خود کسانوں کو بلا کر انکی عزت و تکریم کی اور نہ صرف انکے مسائل سنے بلکہ جلد از جلد حل کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
حکومت کیلئے اس وقت سب سے بڑے چیلنج بیڈ گورننس، مہنگائی اور لا اینڈ آرڈر کی ناگفتہ بہ صورتحال ہے۔ چیک اینڈ بیلنس دور دور تک نظر نہیں آ رہا۔ حکومت کو ان مسائل کے حل پر بھی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ انھی مسائل نے حکومت کے تمام اچھے کارناموں پر بھی پانی پھیر دیا ہے۔ اگر ان مسائل کو حل نہ کیا گیا تو اگلے عام انتخابات کے نتائج حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج سے مختلف نہ ہوں گے۔

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply