اوریا مقبول جان صاحب کا “درس روس”

ہم ایسی قوم اور ایسی امت ہیں کہ اللہ کے فضل و کرم سے جب جب جس نے ہمیں بتقاضائے شریعت الو بنانا چاہا، مشیت ایزدی سے وہ کامیاب رہا۔ ہر دور میں سیاست کے ایوانوں سے منبر و محراب تک ہمارے ساتھ وہ وہ شغل ہوئے ہیں کہ اگر ہم اسکی تاریخ مرتب کریں تو قہقہہ مار کر روپڑیں۔ میری رب العالمین سے دعا ہے کہ ہمیں پھر کوئی نسیم حجازی عطاکر کہ ایک بار پھر تاریخ کا زہر نسل نو کی نسوں میں میٹھے مشروب کی صورت میں اتارا جاسکے۔
آپ خائف تو ہوں گے لیکن آپ کو یاد نہیں ہونگے مارگریٹ تھیچر کے وہ ایمان افروز نعرے جو” خلیفہ اول” ضیاء الحق دامت برکاتہم کے دور میں لگائے گئے۔ یہ وہ سنہری دور تھا جب ہم امریکہ کی بانہوں میں بانہیں دئیے محو رقص تھے۔ اس وقت امریکہ وہ محبوب طوائف تھی جس نے اپنے ہاتھوں سے شراب طہور کے جام ہمارے حلق میں انڈیلے۔ تھوڑا وقت ہی گذرا اور یہ طوائف اپنے مفادات کی خاطر کسی اور کی جھولی میں جا بیٹھی۔ ہمارا نشہ اترا تو ہم نے پوری توانائی سے دوڑ لگائی اور ادلہ اربعہ سے اس طوائف کے وجود کو غیر شرعی ثابت کیا تو جان میں جان آئی۔
حرف راز میں خلیفتہ المسلین حضرت علامہ مولانا اوریا مقبول جان صاحب دامت برکاتہم عالیہ کی روس اور سی پیک کے تناظر میں ایمان افروز گفتگو جاری تھی، دورانِ گفتگو جو بات میرے سیکھنے کی تھی وہ یہ کہ روس پاکستان پر حملہ اسلئے نہیں کرے گا کیونکہ جے-ایف تھنڈر طیارے کا انجن روس سے براستہ چین آ رہا ہے۔ اور روس اب نظریاتی مملکت نہیں رہ گئی۔
اس سب سے ہٹ کر روس سے متعلق قرآن میں جو چیزیں مذکور ہیں ان کو اوریا صاحب نے اپنے انٹرویو میں بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے۔روس کے فضائل بیان کرتے وقت آپ نے جو دلائل دئیے وہ امت مسلمہ نے سن لئے ہونگے اسلئے انکا اعادہ کرنا لایعنی ہے۔ ہم ذرا خلیفۃ المسلمین کے “درس روس”سے متعلق چند اور باتوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ کہ آخر اتنی بدیہی اور قطعی باتوں کو دہرانے کی ضرورت حضرت صاحب کو کیوں پیش آئی؟
کسی بھی ملک میں کوئی بڑا اقدام اٹھانے کے لئے رائے عامہ ہموار کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ پاکستان سی پیک کے بعد ایک بڑی ڈویلپمنٹ کرے گا اور وہ روس کو سی پیک میں دعوت دے گا۔کیونکہ ہم نے ایک جنگ روس کے خلاف امریکہ کا اتحادی بن کر لڑی ہے۔ تو اب اگر ہم روس کو اس الائنس میں دعوت دیتے ہیں یا حصہ بناتے ہیں تو پڑھا لکھا طبقہ (عصری تعلیم سے متعلق) تو شائد اتنا شور نہ کرے لیکن مذہبی طبقہ تو آسمان سر پر اٹھا لے گا۔ تو بہت ضروری تھا کہ آنے والے وقت کے لئے پہلے سے سبیل کرلی جاوے اور قرآن و حدیث کا نام لے کر اور وہی ٹوپی جو افغان جہاد کے وقت قوم کو پہنائی گئی تھی اب الٹا کر پہنا دی جائے۔ اوریا صاحب کا یہ انٹرویو اسی کوشش کا ایک حصہ تھا۔ اور ایسی کوشش غیر سرکاری نہیں ہوا کرتی، الحمدللہ۔
اس سارے انٹرویو کے دوران میں اوریا صاحب کی مہارت کی داد دئیے بغیر نہیں رہ سکا۔ آپ نے روس، چائنہ اور پاکستان کے الائنس میں سے افغانستان کو مکھن سے بال کی مانند اس خوبصورتی سے نکالا ہے کہ کسی کو اندازہ ہی نہیں ہوا کہ کہانی چلی کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں “پاکستان روس اور چائنہ اتحادی بن رہے ہیں اور جیسے ہی امریکہ افغانستان سے گیا اور طالبان کی حکومت آئی یہ سارا خطہ ایک ہو جائے گا”۔ اس پورے انٹرویو کو اگر بغور سن لیا جائے تو سارے انٹرویو کے دو مقاصد تھے۔ ایک امریکہ سے بددلی ،اور دوسرا روس کی محبت۔اب جیسے ہی روس، چائنہ اور پاکستان کا الائنس بنے گا تو ایک عمومی رائے ہوگی کہ اس سارے خطے میں مسائل کی وجہ امریکہ ہے۔ امریکہ چلا بھی جائے تو وہ افغان جس نے روس کے خلاف جان دی ہے وہ تو آپکو کبھی ٹکنے نہیں دے گا۔ اوریا صاحب کو چاہیے تھا یہ بات ملا عبدالسلام ضعیف کے سامنے کرتے۔
اوریا صاحب نے ایک تقریر میں فرمایا کہ میڈیا آپ کو بیچے گا۔ اسکی وضاحت کے لئے آپ نے مثال دی کہ دیکھا نہیں کیسے انہوں نے سروے کیا اور دو دن میں حجاب شیمپو مارکیٹ میں آ گیا (یہ تقریر خلیفۃ المسلمین نے جامعۃ الرشید میں فرمائی تھی)۔ساتھ ہی انہوں نے فرمایا کہ اسے پراڈکٹ بیچنا ہے۔ میرے ذہن میں ایک جملہ بار بار آ رہا ہے، ” کہ پائن تسی وی ایہو کج ای کیتا جے”۔ (سر آپ نے بھی یہی کچھ کیا ہے، یعنی آپ نے بھی قرآن کے پیچھے چھپ کر اپنی پراڈکٹ ہی بیچی ہے۔)
عابی مکھنوی یاد آ گئے:
ویسے تو بِک رہی تھیں وہاں سب حقیقتیں
تھوڑی گُھما کے ہم نے کہانی بھی بیچ دی

Facebook Comments

محمد حسنین اشرف
ایک طالب علم کا تعارف کیا ہوسکتا ہے؟

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”اوریا مقبول جان صاحب کا “درس روس”

Leave a Reply