قتیل اس سا منافق نہیں کوئی

رات کے نو بجے اس کے والد پر بلڈ پریشر کا شدید حملہ ہوا۔ وہ گاؤں کے واحد ’’ہٹی نما‘‘ میڈیکل سٹور پر پہنچا، چند گولیاں لیں اورواپس آ کر والد کو دے دیں۔ ان کی طبیعت مسلسل خراب ہو رہی تھی۔ ان گولیوں سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ ان کی کنپٹیاں سوج چکی تھیں، سانس چڑھ گیا تھا اور ان کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔اس نے فوراً گاؤں کے بنیادی مرکز صحت کے اکلوتے ڈاکٹر سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ کئی ماہ سے ڈسپنسری نہیں آیا اور اس کی جگہ دور دراز سے آنے والا ڈسپنسر کبھی کبھار ڈاکٹر کے فرائض سر انجام دیتا ہے۔وہ پریشانی کے اس عالم میں والد کو لے کرگھر سے نکلا۔رات کے اس پہر گاڑی کا ملنا خاصا مشکل کام ہوتا ہے، بہرحال اسے ایک ٹیکسی ڈرائیورکے من مانے ریٹ پر بکنگ کے لئے مل ہی گئی۔ انہو ں نے قریبی قصبے کا رخ کیا جہاں تحصیل ہیڈکواٹر ہسپتال کی سہولت موجود تھی۔ راستے میں اس کے والد کی حالت خراب ہوتی گئی۔انہوں نے راستہ پہچانا اور نہ ہی یہ احساس کر پائے کہ وہ گاڑی میں ہیں۔ قصبے کے ہسپتال کے دروازے پر تالا دیکھ کر اس کے رہے سہے اوسان بھی خطا ہو گئے۔ اس کی بانہوں میں والد کا تڑپتا سر تھا اور سامنے کئی گھنٹے کی ڈرائیو پر شہر کا ہسپتال۔ اب اس کی آخری امید یہی تھی کہ ہسپتال پہنچا جائے تاکہ والد کی تکلیف میں کمی ہو۔ نم آنکھوں کے ساتھ انہوں نے شہر کا رخ کیا۔ چند کلو میٹر کا سفر ہی طے کیا تھا کہ اس کے والد کی شریانیں اکڑنا شروع ہو گئیں۔ ان پر برین ہیمرج کا جان لیوا حملہ ہو چکا تھا۔ بیٹا تڑپتے،سسکتے اور آہیں بھرتے والد کو سینے سے لگائے ان کی زندگی کے لئے ڈگمگاتی زبان سے دعائیں کر رہا تھا۔ جوں جوں شہر کا فاصلہ کم ہوتا گیا سانسوں کی ڈور بھی توٹتی رہی۔ بالآخر ایک زور دار جھٹکے نے اس کے والد کو دنیا کے تمام دکھوں سے آزاد کر دیا اوروہ بیٹے کے سینے سے لگے اپنے خالق حقیقی کے پاس پہنچ گئے۔

میرا بہت گہرا دوست اپنے والد محترم کی تعزیت کے لئے آنے والے مہمانوں سے فارغ ہوا تو میرے ساتھ بیٹھ کر یہ درد ناک منظر کشی کرنے لگا۔ اس کے ساتھ ساتھ میری آنکھیں بھی چھلک اٹھیں۔ اس نے پانی کا ایک گلاس پیا، ایک لمبی آہ بھری اور کرسی سے ٹیک لگا دی۔ اسے افسوس تھا کہ وہ اپنے والد کی جان نہیں بچا سکا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ اس میں اس کا قصور نہیں تھا۔ اس نے تو اپنی طرف سے پوری کوشش کی تھی۔ یہ تو قبضہ قدرت میں ہے کہ کس کو کس وقت اللہ کی طرف لوٹ جانا ہے۔ وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ کچھ دیر سوگوار ماحول کی خاموشی کے بعد وہ کچھ سنبھل گیا تو بولا، میں اس گاؤں کی ڈسپنسری کو آگ لگا دوں گا، بلکہ تحصیل ہیڈ کواٹر ہسپتال کو بھی اپنے ہاتھوں سے مسمار کر دوں گا اور ان ڈاکٹروں سے بھی اپنے والد کی موت کا بدلہ ضرور لوں گا جن کی عدم موجودگی کی وجہ سے آج میرے والد اس دنیا میں نہیں۔

میں اس کے سامنے بیٹھا سوچ میں گم ہوگیا کہ ایک طرف دور دراز کے گاؤں کا یہ نوجوان ہے جو اپنی لاکھ کوشش کے باوجود اپنے والد کو نہ بچا سکا اور دوسری طرف اس غریب ریاست کے وہ حکمران ہیں، جن کے ایک وزیر کے بیرون ملک علاج پر کروڑوں خرچ ہوتے ہیں۔ میں کبھی اس کی طرف دیکھتا اور کبھی خیال ہی خیال میں امریکہ،یورپ اور سنٹرل ایشیا کے ہسپتالوں کا تصور کرتا۔ جہاں ہمارے وزراء کا اکثر چیک اپ حکومتی اخراجات پر کیا جاتا ہے۔

اس دن میرا دوست اور اس کے گھر والے حکمرانوں سے صرف ایک ہی فریاد کر رہے تھے ’’کہ آپ لوگ صرف ہمارے والد کو واپس لا دیں،ہم آپ کے یورپ،امریکہ اور دبئی میں علاج کرانے پر کوئی گلہ نہیں کریں گے۔‘‘

میں نے فاتحہ کے بعد اجازت چاہی اور سوچوں کے ایک لامتناہی سلسلے کے ساتھ اسلام آباد کا رخ کیا۔میں مسلسل اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا کہ آخر میرے اس دوست کے والد کی موت کا ذمہ دار کون ہے۔ یہ نوجوان جس نے اپنی آخری کوشش کی کہ والد کی جان بچائی جا سکے؟ وہ گاؤں کا واحد ڈاکٹر جس نے کئی ماہ سے ہسپتال کا رخ تک نہیں کیا اور اس کی وجہ کئی مریض تڑپتے رہے ہونگے؟ قصبے کے ہسپتال کا عملہ کہ جنہیں اپنے سکون سے غرض ہے ؟ یا پھر وہ لوگ جو خود تو بیرون ملک علاج کراتے ہیں مگر عوام کے ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں؟

سڑک کنارے ایک ہوٹل پر درختوں کی چھاؤں میں رکھی کرسی پر بیٹھ کر میں نے چائے کا آرڈر کیا اور ارد گرد کے نظارے دیکھنے میں محو ہو گیا۔ہلکی ہلکی ہوا نے خوشگوار احساس مہیا کیا۔اس لمحے میرے ذہن میں قتیل شفائی کا یہ شعر گونجنے لگا۔
دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا

مجھے میرے سارے سوالوں کے جواب مل گئے۔میرے دوست کی موت کا ذمہ دار وہ خود بھی ہے،معاشرہ بھی ہے ،ہسپتال عملہ بھی ہے اور اس ریاست کے حکمران بھی ہیں۔وہ خود اور معاشرہ اس لئے ذمہ دار ہیں کہ انہوں نے آج تک نہ تو ڈاکٹر کے غائب ہونے پر احتجاج کیا اور نہ ہے عملے کے بروقت ہسپتالوں میں عدم موجودگی پر کوئی ردعمل دکھایا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر اور عملہ اپنی غلطیوں پر بہادری سے کاربند رہنے لگے،انہیں احساس تھا کہ عوام کی طرف سے کوئی ری ایکشن نہیں ہے جس وجہ سے انہوں نے ڈیوٹی سے کوتاہی کی۔ ڈاکٹر اور سٹاف نے اللہ کی عطا کردہ نعمت سے غداری کی،انہوں نے خدمت خلق کا ایک بہترین چانس ضائع کیا اور اپنے لئے اللہ کا غضب پسند کیا۔حکمرانوں کی دنیا میں نظر دوڑائی جائے تو ہر طرف وحشت ہی وحشت ہے۔لوگ مایوس ہو چکے ہیں۔ امید کا کوئی چراغ نہیں مل رہا۔ یہ لوگ اپنی دنیامیں مست ہیں،انہیں غرض ہے تو اپنے ووٹوں سے۔عوام،عوام کے مسائل سے انہیں غرض نہیں۔

میں اسلام آباد پہنچتے ہی اپنے دوست کی روداد لکھنے بیٹھ گیا۔یہ سوچ کر کہ شاید میرے ان الفاظ کو اللہ اپنی بارگاہ میں قبول کر لے۔ زیادہ نہ سہی دو چار لوگ ہی اگر اپنے حقوق کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے تو معاشرہ ایک مثبت سوچ کی طرف چل نکلے گا۔ لوگ اگر محلے،گاؤں اور قصبے کی سطح پر کمیٹیاں قائم کر لیں اور از خود اداروں، افراد اور نمائندوں کے احتساب کا عمل شروع کر لیں تو نہ ڈاکٹر کی جرات ہو گی کہ وہ ہسپتال سے بلا وجہ چھٹی کر سکے، نہ کسی ادارے کے عملے کو ہمت ہو گی کہ وہ ڈیوٹی پر موجود نہ رہے۔
اب وقت کی ضرورت ہے کہ کوئی چراغ جلایا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تبدیلی بڑے بڑے جلسوں سے نہیں آئے گی بلکہ اس کیلئے معاشرے کو بدلنا ضروری ہے۔اپنے آنے والی نسلوں کے روشن مستقبل کے لئے اپنے آج کو بدلنا ہم میں سے ہر اس شخص کی ذمہ داری ہے جو اس معاشرے میں اپنی زندگی کے شب و روز گزار رہا ہے۔یہ ہماری سب سے بڑی منافقت ہے کہ ہم ظلم تو سہتے ہیں مگر بغاوت نہیں کرتے۔ہمیں آنے والے الیکشن میں ایسے لوگوں کو ووٹ کے ذریعے منتخب کرنا چاہئے جو ان بنیادی مسائل سے واقفیت رکھتے ہوں اور حل کے لئے سنجیدہ ہوں۔

Facebook Comments

حماد گیلانی
یکم اپریل 1991 ء میں پیدائش ہوئی۔2008ء سے کالم لکھنے شروع کیے ۔آجکل روزنامہ جموں کشمیر کے علاوہ سٹیٹ ویوز ویب سائٹ کے لیے بھی لکھ رہا ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply