جمیعت کے بارے کچھ یادداشتیں ۔۔۔ داؤد ظفر ندیم

مضمون شروع کرنے سے پہلے یہ واضح کردوں کہ یہ کوئی جمیعت کی فکری اور نظریاتی تفہیم کے جواب میں لکھا گیا مضمون نہیں، نہ ہی اس حوالے سے جمیعت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ 89 کے پنجاب یونی ورسٹی کے الیکشن کے حوالے سے ایک تاثراتی روداد ہے جس کو اپنے حافظے کی مدد سے قلمبند کیا گیا ہے. 

جمیعت کے ساتھ تنظیمی طور پر میرا کبھی دوستانہ تعلق نہیں رہا مگر جمیعت سے وابستہ بعض لوگوں سے نہایت قریبی دوستی رہی اور بعض کے ساتھ ابھی تک دوستی اور محبت کا یہ رشتہ استوار ہے۔ میں 88 میں یونیورسٹی پہنچا اور 89 کے الیکشن میں مجھے جمیعت کے خلاف الیکشن میں سرگرم حصہ لینے کا موقع ملا۔ اس لئے میں جمیعت کے سیاسی رویوں اور بعض اوقات پر تشدد ہتھکنڈوں کا ایک عینی شاہد ہوں۔

پہلی بات پر تشدد رویوں کی ہے تو جمیعت کا یہ رویہ اس کی کسی بنیادی پالیسی کا حصہ نہیں بلکہ یہ ہمارے سیاسی رویوں کا ایک عمومی مظہر ہے۔ میں سیالکوٹ سے اے ٹی آئی، پی ایس ایف اور ایم ایس ایف کے طالب علم لیڈروں سے ایک گہرے تعلق کے بعد یونیورسٹی پہنچا تھا اور اس بات سے بخوبی واقف تھا کہ تشدد اور مارکٹائی اور دوسروں سے عدم برداشت ہماری طلبہ سیاست کا ایک عمومی رحجان تھا۔ پاکستان میں طلبہ تنظیمیں کسی جمہوری اصول کے تحت کام نہیں کرتین بلکہ کالجوں اور یونیورسٹی پر قبضے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے مخالفین کو ان کے زیر قبضہ علاقے پر کوئی گنجائش نہ ملے اس لئے وہ ہر سیاسی حربے کو جائز خیال کرتی ہیں۔ ایک تنظیم جو کسی دوسری جگہ پر سیاسی جدوجہد میں مصروف ہو، وہ وہاں تو جمہوریت اور برداشت کی دہائی دیتی ہے مگر جہاں ان کا قبضہ ہو وہاں جمہوریت اور برداشت کے معنی بھی خود متعین کرتی ہے۔

یونیورسٹی میں چونکہ جمیعت کا قبضہ تھا، اس لئے وہ جمہوریت کے نام پر کسی دوسری تنظیم کو گنجائش دینے کے لئے تیار نہیں تھی۔ جمیعت کے لوگوں سے رابطہ شروع ہوا تو معلوم ہوا کہ دوسری طلبہ تنظیموں کی طرح جمیعت کے لوگ بھی تین قسم کی درجہ بندی میں بانٹے جا سکتے ہیں، ایک تو وہ لوگ ہیں جو شہری علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں، یہ لوگ بالعموم پڑھے لکھے اور برداشت والے لوگ ہوتے تھے۔ ان سے بات کرنے میں لطف آتا تھا۔ یہ فکری اختلاف کو برداشت کرتے تھے اور ان میں سے کئی دوستوں سے تبادلہ خیال رہتا تھا مگر ان کو یونیورسٹی میں سیاسی کمان میں اہم پوزیشن حاصل نہیں ہوتی تھی۔ دوسرے درجے پر وہ لوگ تھے جو مضافاتی علاقوں سے آتے تھے، ان لوگوں کو جمیعت کے انتظام میں نہایت اہم پوزیشن حاصل ہوتی تھی۔ یہ لوگ نہایت جذباتی ہوتے تھے۔ ان کو یونورسٹی آکر اختیار ملتا تھا۔ یہ شہری لڑکوں کی توہین میں لطف اٹھاتے تھے۔ لڑکیوں سے بات کرنے کو ہی گناہ خیال کرتےتھے اور کسی بھی لڑکے کو رنگے ہاتھ پکڑنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ اکیلے بیٹھ کر کسی ایک یا زیادہ لڑکیوں سے بات کرنے میں مصروف تھا۔ اس امر کا خاص اہتمام رکھا جاتا کہ اس لڑکے کا جمیعت  سے کوئی تعلق نہ ہو وگرنہ لینے کے دینے پڑ سکتے تھے، اختیار کو چھینا جا سکتا تھا۔

تیسری قسم کے لوگ وہ تھے جو کسی سیاسی وابستگی یا نظریاتی ہم آہنگی کی وجہ سے جمیعت میں نہیں آئے تھے بلکہ یونیورسٹی میں اپنے مخصوص فوائد کی وجہ سے جمیعت میں شامل ہوئے تھے۔ ان لوگوں کو لڑکیوں سے بات کرنے کی اجازت مل جاتی تھی۔ بعض کو وقت کے بعد بھی یونیورسٹی میں رہنے کی اجازت مل جاتی تھی۔ ان کو ہاسٹل میں بہتر کمرہ مل جاتا تھا، بعض کو ایک شعبے کے بعد دوسرے شعبے میں داخلہ مل جاتا تھا اور بعض کو یونیورسٹی میں کوئی چھوٹی موٹی ملازمت بھی مل جاتی تھی۔ مگر سب سے زیادہ خطرناک بات ان کو یونیورسٹی میں اختیار میں حصہ ملنا تھا۔ یہ لوگ سازشی، مفاداتی اور موقع پرست ہوتے تھے چالاک اور فائدہ اٹھانے والے بھی، اپنے نمبر بنانے کے لئے کچھ بھی کر سکتے تھے۔

تاہم انہی مفاد پرستوں میں کچھ اچھے لوگ بھی مل جاتے تھے جو اپنے اختیار سے جمیعت کے مخالفین کو فائدہ پہنچا دیتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ میرے ہاسٹل میں جب جمیعت کے لٹھ برداروں نے مجھے نشانہ بنانا تھا تو اس رات مجھے ایک ڈیپارٹمنٹ کے ناظم نے اطلاع دی کہ میں رات کو اپنے کمرے میں نہ پایا جائوں، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں تو بچ گیا مگر میری کچھ قیمتی چیزیں اور ٹیپ ریکارڈر وغیرہ غائب ہوگئے۔ وہ رات میں نے اپنے ہوسٹل میں جمیعت ہی کے ایک شعبہ کے ناظم کے کمرے میں گزاری۔ جمیعت کے لٹھ بردار یہ سوچ نہیں سکتے تھے کہ میں جمیعت کے کسی شعبہ جاتی ناظم کے کمرے میں سوسکتا ہوں۔ اس کے بعد دلچسپ واقعہ یہ پیش آیا کہ ہوسٹل کے ناظم نے میرے کمرے کا جائزہ لیا۔ اس نے مجھے سے حیرت سے پوچھا کہ یہ سرخ رنگ کس لئے ہے میں نے مسکرا کر جواب دیا یہ شہدا کے خون کا رنگ ہے اس لئے مجھے پسند ہے۔ اس نے میرے کمرے میں لگی کارل مارکس کی تصویر کے بارے پوچھا کہ یہ کون حضرت ہیں میں نے بتلایا کہ یہ ہمارے بزرگ ہیں۔ وہ بہت متاثر ہوا اور بولا بہت نورانی چہرہ ہے۔ میں مسکرا دیا۔ جبکہ ڈیپارٹمنٹ کا ناظم خوف زدہ تھا کہ اگر اس کو کارل مارکس کا علم ہوا تو پھر معاملہ گھمبیر ہو سکتا ہے مگر یہاں تو الٹ اثر ہوا۔ ہاسٹل کا ناظم اصل میں پیر پرست تھا۔ وہ یونیورسٹی کی ضروریات کی وجہ سے جمیعت میں تھا وگرنہ جمیعت سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا اب اس واردات کے بعد اس نے مجھے بہت تحفظ فراہم کیا، اس کا خیال تھا کہ میں بھی جمیعت کے وہابی ازم کی وجہ سے جمیعت کا سیاسی مخالف ہوں۔

میرے کمرے میں جمیعت کے کئی نمایاں مخالف آتے جاتے تھے۔ جمیعت کے خلاف یونیورسٹی میں صدارتی الیکشن لڑنے والا میر شاہجہان کھیتران میرا کلاس فیلو اور گہرا دوست تھا۔ شیخ رشید پیپلز پارٹی والے کا پوتا رضا اشفاق میرا گہرا دوست تھا جبکہ حامد میر کے چھوٹے بھائی فیصل میر سے میری بہت دوستی تھی۔ اس کے علاوہ میں مخالف تنظیم کا بیج لگا کر گھومتا تھا، کیفے ٹیریا میں، ہاسٹل کنٹین میں لڑکے مجھے دیکھنے جمع ہوتے تھے کہ میں جمیعت کی مخالف تنظیم کا بیج لگا کر گھوم رہا ہوں مگر اس کے باوجود مجھے کبھی نہیں روکا گیا۔ الیکشن والے دن میں نے لال جھنڈا اٹھا کر اپنے ڈیپارٹمنٹ کے لان میں بھنگڑا ڈالا۔

الیکشن کے دنوں میں تو یونیورسٹی کا ماحول ہی بدل گیا تھا لڑکے لڑکیاں آزادی سے بات کر سکتے تھے بلکہ کیفے ٹیریا میں بھی چائے پی سکتے تھے۔ جب ہم ریلی لے کر لڑکیوں کے ہاسٹل سے گزرے تو لڑکیوں نے رقص کرکے نعرہ لگایا، دما دم مست قلندر، سارے سرخے نہر دے اندر۔ میرے دوست شہزاد یوسف نے کہا خدا کی قسم اگر جمیعت کا یہی چہرہ اصل چہرہ ہو تو میں کبھی کسی دوسری تنظیم میں جانے کا نہ سوچوں۔ الیکشن سے پہلے آخری دفعہ جمیعت کے کچھ لوگ ہمیں سمجھانے آئے انھوں نے ہمیں آفر دی کہ ہمارا پورا پینل ڈیپارٹمنٹ میں جمیعت کی طرف سے الیکشن لڑے، انھیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ ہم نے یہ پیش کش رد کردی جبکہ فلسفے والوں نے یہ پیش کش قبول کرلی۔ اس کا نتیجہ اس وقت نکلا جب کاغان ناران کے وزٹ کے وقت فلسفے کی لڑکیوں کو اجازت دی گئی اور ان کو ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے ٹور کے لئے کافی رقم بھی دی گئی۔ ہمیں لڑکیوں کو ساتھ لے جانے کی اجازت نہ دی گئی اور ڈیپارٹمنٹ نے فنڈ دینے سے بھی معذوری ظاہر کی۔

مگر اصل نشانہ شاہجہان کو بنایا گیا۔ اس کے ہاسٹل کے کمرے پر پولیس چھاپا ڈلوایا گیا۔ ہم تمام دوست اس بات کے گواہ تھے کہ شاہجہان سادہ سگریٹ بھی نہیں پیتا۔ مگر اس کے روم میٹ شیر علی جو کہ گلگت سے تھا، کے پاس ستو تھے، ان ستو کو ہیروہن بنا کر شاہجہان کو گرفتار کر لیا گیا۔ بعد میں میر باز خاں کھیتران اور نواز شریف کے درمیان کسی سیاسی سمجھوتے کی وجہ سے اس کی رہائی عمل میں آئی۔

جمیعت کی پاکبازی کو وڈیروں اور سیاست دانوں کے وہ لڑکے داغدار کرتے تھے جو سیاسی فائدے کی وجہ سے جمیعت میں شامل ہوتے تھے۔ میرا ایک دوست جس کا والد راولپنڈی میں کوئی سیاسی راہنما تھا، اپنے کمرے میں وہسکی کی بوتلیں رکھتا تھا اور جمیعت اور جمیعت کے مخالف وہاں وہسکی پیتے پاتے جاتے تھے۔ اس نے بعد میں جمیعت کی طرف سے کسی سیٹ کا الیکشن بھی لڑا۔۔ اور ایک ایسے ناظم بھی تھے جو بلیو فلموں کا بندوبست کرتے تھے۔ ان لوگوں کو پکڑنے والا کوئی نہیں تھا کیونکہ وہ یونیورسٹی میں جمیعت کے فعال لوگ تھے۔ تاہم یہ اپنے فعل کے خود ذمہ دار تھے جمیعت کی قیادت کا قصور یہی تھا کہ وہ اپنے مخالفین کی جس طرح کھوج لگاتے تھے، اپنے لوگوں کو اس کے برعکس چھوٹ اور آزادی دیتے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

تاہم جمیعت کے بارے اصل تجزیہ یہی تھا کہ اسے ایک فکری جماعت کے طور پر رہنا چاہیئے تھا۔ ایک سیاسی قوت ہونے کی وجہ سے اسے وہ تمام کام کرنے پڑتے تھے جو اس وقت کی سیاست کی ضرورت تھے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply