شعراء کی اقسام۔۔تنویر حسین

نوٹ: تحریر کا مقصد کسی مخصوص طبقے کو “ٹارگٹ” کرنا ہرگزنہیں بلکہ صرف اور صرف مزاح کا عنصر پیدا کرنا ہے۔ سو تحریر کو دل پر ہرگز نہ لیں اگر لے لیتے ہیں تو آپ “واقعی شاعر” ہیں۔اس تحریر سے اتفاق و اختلاف کرنا آپ کا ذاتی مسئلہ ہے۔

جیسے سانپوں اور مولویوں کی مختلف اقسام ہوتی ہیں اسی طرح شعراء حضرات کی بھی مختلف اقسام اس کرّہ ارض پر موجود ہیں۔

ان کی حتمی اقسام کے بارے روایات میں بہت سارے اختلافات پائے جاتے ہیں مگر میرے لحاظ سے ان کے لیے چھ اقسام پر قناعت کرنا ہی بہتر رہے گا۔

پہلی قسم میں وہ شاعر شامل ہیں جن سے پوچھیے کہ آپ کیا کرتے ہیں تو ان کے پاس ایک بہت ہی مطمئن جواب موجود ہوتا ہے

“جی میں شاعر ہوں”۔

دوسری قسم کے شاعر بڑے ہی دلچسپ ہوتے ہیں انہیں میں موسمی یا برساتی شاعر کہتا ہوں یہ دیکھتے ہیں کہ شعر لکھنے کے لیے کوئی اثر انگیز واقعہ تو ہوا  نہیں سو یہ شعر لکھنے کے لیے منصوبے بنانا شروع کردیتے ہیں۔ ان میں سے چند تو بہت ہی زیادہ دکھی اور پرانے گانے سن کر اپنے آپ پر رانجھا، مجنوں اور رومیو سب سوار کر کے شعر کہنا شروع کردیتے ہیں اور جو بچ جاتے ہیں وہ  اپنے دوستوں کے “بریک اپ” کے قصے یا ہمسایوں کے طلاق کے واقعات یاد کر کے شعر لکھنے لگتے ہیں اور کچھ کے دماغ میں تو کہیں یہ خیال بھی بیٹھا ہوا ہوتا ہے کہ بڑے بال رکھنے سے ہاتھوں میں چوڑیاں پہننے سے اور بھنگیوں جیسی شکل بنا کر بڑے شعرا کے شعروں میں قینچیاں لگانے سے ان کے خیال میں ردوبدل کرنے سے وہ ضرور شاعر بن سکتے ہیں۔ ایسا کرنے سے وہ شاعر بن بھی جاتے ہیں اور اچھے خاصے مشہور بھی ہوجاتے ہیں مگر ساری زندگی اس بات پر ہائے ہائے کرتے گزار دیتے ہیں کہ انہیں تمغہ امتیاز نہیں ملا(آپ کے ذہن میں جو جو حضرت آرہے ہیں میں ان کی بات نہیں کررہا)۔ ان سب سے اگر خدانخواستہ آپ کا کہیں سامنا  ہو  بھی جاتا ہے اور آپ ان سے ان کے کام کی نوعیت کے بارے میں غلطی سے سوال کر بیٹھتے ہیں تو یہ فوراً گرما گرم جواب آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں۔۔

“جی میں بھی شاعر ہوں”

تیسری قسم کے شعرا کو میں وکھری قسم کے شعراء کہتا ہوں یہ اگر اردو میں شعر لکھتے ہیں تو ان پر واجب ہوجاتا ہے کہ اردو کے نیچے شعر کا رومن اردو ورژن بھی داغ دیں۔ یہ شعراء کا نچلا طبقہ ہوتا ہے جو اس دشت میں ہاتھ پاؤں مارنا اور چلانا سیکھ رہا ہوتا ہے۔ پھر آتا ہے شعراء کا اوپر والا طبقہ جو اپنے اردو نستعلیق میں لکھے گئے شعر کے نیچے اس کو ہندی رسم الخط میں جب تک نہ  لکھ لے تو اس کو یہ احساس محرومی کچوکے لگاتا رہتا ہے کہ ہندی قارئین اس کی اس عظیم تخلیق سے مرحوم ہوکر فاقوں اور ڈپریشن سے مر جائیں گے۔مارکیٹ میں قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں گی۔ حکومت اپنے دورانیہ حکومت سے پہلے استعفیٰ دے دے گی۔ انڈیا پاکستان پر ایٹمی حملہ کردے گا (کچھ زیادہ نہیں ہوگیا) ان سے اگر ان کے کام کی نوعیت کے بارے میں پوچھا جائے تو یہ جواب ہی نہیں دیتے۔

چوتھی قسم کے شاعر ایمرجنسی بنیادوں پر تیار ہوتے ہیں یہ زیادہ تر لاہور میں بیٹھی دوشیزاؤں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے کےلیے سانس لینے اور بچے پیدا کرنے سے زیادہ شعر کہنے پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ بارش کے ایام میں بھی اپنی سروس بحال رکھتے ہیں۔ یہ عقدہ میں آج تک نہیں حل کر سکا کہ بارش کے بعد زمین سے نکلنے والے مینڈک تعداد میں زیادہ ہوتے ہیں یا شاعر؟

پانچویں قسم کے شاعر وہ متشاعر حضرات ہوتے ہیں جو ہر طرح کے متشاعرے میں موجود ہوتے ہیں وہ اپنے دور کے تمام مقبول شعراء کے ساتھ رابطے استوار رکھتے ہیں اور گاہے بگاہے ان کی خدمت کے لیے اپنی (سروس) پیش کرتے رہتے ہیں اور کچھ عرصے بعد یہ ایک مشہور شاعر کے طور پر ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ یہ معجزہ کیسے رونما ہوتا ہے یہ تو خدا ہی جانے!

Advertisements
julia rana solicitors london

چھٹی قسم کے شاعر حقیقت میں شاعر ہوتے ہیں یہ قینچیاں نہیں لگاتے ان کا اپنا اسلوب ہوتا ہے۔ ان کے اشعار کو کسی بھی حالت میں پڑھیں تو شعر کی شعریت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ اردو کے اکثر الفاظ کی طرح یہ بھی متروک ہوتے جارہے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply