خبر اور ہمارے روئیے

خبر اور ہمارے روئیے

Advertisements
julia rana solicitors

میں نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ میں ایک طالبعلم ہوں پر کبھی کبھار قلم اُٹھانا مجبوری بن جاتی ہے سو لکھنے کے ہنر سے لاعلم ہوکر بھی لکھتا ہوں، ایسے ہی جیسے تیراکی سیکھے بغیر دریا میں کودنا، سوچتا ہوں جب مقصد پیغام پہنچانا ہو تو پھر کوشش کرنےمیں حرج ہی کیا ہے۔ ہر انسان کے دل و دماغ کئی قسم کی خواہشات اور خیالات کی آماجگاہ ہوتےہیں، کچھ لوگ ان خیالات اور احساسات کو الفاظ کا جامہ اتنی خوبصورتی سے پہناتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے اور لکھنے والے پر ایک سحر طاری ہوجاتا ہے جو اُسے دیر تک یاد رہتا ہے، پر اُن میں سے اکثر مضامین ہماری روزمرہ کی معاشرتی برائیوں اور روئیوں کے بارے میں نہیں ہوتے اور اس زمین پر سیاست، کھیل اور شو بز کی دُنیا کی خبروں کی چادر تن جاتی ہے جس میں معاشرتی مسائل دب جاتے ہیں۔
کل کسی دوست نے ایک ویڈیو شیئر کی جس میں ایک عورت باتھ روم میں بے جان پڑی ہوئی ہے ، ایک ہاتھ پر پلاسٹر چڑھا ہوا ہے، چہرہ سوجا ہوا اور تشدد کے نشان نمایاں ہیں، ایک آدمی نے اسکی گردن پر پاؤں رکھا ہوا ہے۔ ہم سب اکثر کسی نہ کسی طرح پاکستان کی دو تین زبانوں سے واقف ہوتے ہیں پر یہ ایک حقیقت ہے کہ مادری زبان میں کوئی بات کررہا ہوں تو لہجوں سے جذبات کا اندازہ ہوجاتا ہے، عورت کی گردن پر پیر رکھنے والا وڈیو بنانے والے سے پشتو میں کہتا ہے کہ "سانس (جان) نہیں نکل رہی" – میں خود کو پتھر دل کہتا ہوں پر یہ الفاظ دل کو چھیر گئے، اس طرح کسی بھی انسان، وہ بھی کسی کی ماں، بہن، بیٹی کو اس حال میں دیکھ کر اور دو مردوں کو مردانگی دکھاتے ہوئے دیکھا تو ابنِ آدم کی تباہ حالی پر بہت افسوس ہوا، دل میں درد اُٹھا اور چہرے پر مایوسی سی چھاگئی، سوچتا رہا کہ کون ہے یہ کمبخت، کیا جرم کیا ہوگا، ایسا کیاکِیا ہے جو ان مردوں کو آخر اُس کے گلے میں اُسی کی چادر کا پھندہ بنا کر اُسے مارنے پر مجبور ہوگئے؟ اور قاتل کون ہوں اور کیوں قتل کیا ہوگا اس عورت کو؟
ذہن میں کئی طرح کے سوال اُٹھنے لگے تو اسی تجسس میں وڈیو پوسٹ دیکھا تو ذہن کسی اور ہی جانب چلا گیا، وڈیو پر ٹوٹل 2 لائک تھے اور 14 ہزار کے اوپر شئیر، سوچا کسی نے تو کچھ لکھ کر شئیر کی ہوگی پر افسوس ہوا کہ وڈیو لنک دھڑا دھڑ شئیر کرنے والوں نے شائد جلدی میں وڈیو پر کچھ لکھا ہی نہیں (یا ضروری ہی نہیں سمجھا ہوگا)، نہ قاتل کی تلاش کی کوشش اور نہ ہی حاکم وقت سے دہائی اور مجھے ایسے ہی لگا جیسے ٹی وی چینل جب کسی خبر کو ناظرین تک پہنچانے میں پہل کرنے کی سعی کرتے ہیں اور پھر ببانگِ دہل اعلان بھی کرتے ہیں کہ آپ تک یہ خبر پہلے ہم نے پہنچائی، ہم بھی ٹھیک انہی چینلز کی طرح ہی ہوگئے، بے حِس پر سنسنی پھیلانے میں سبقت لے جانے کیلئے ہر دم تیار، سوچتا رہ گیا کہ کیا ہم بھی اُن بے حس قاتلوں کی کہیں مدد تو نہیں کررہے، کیوں کہ ہم نے عادت سی بنالی سنسنی خیز خبروں کو پھیلانے کی، اور ردعمل میں صرف افسوس کے دو تین لفظ؟ کچھ لوگ اور اُن کے روئیے دیکھ کر تو کبھی کبھی واقعی لگتا ہے ڈارون ٹھیک ہی ہوگا، یہ ہمیں کیا ہوگیا ہے جو ہم جانوروں سا رویہ اپنائے خود کو انسان کہلانے پر مصر ہیں؟

Facebook Comments

عبدالبصیر خان
فاٹا کے حالات پر گہری نظر رکھنے والا، اُردو، اُردو سے جڑے لوگوں کی محبت دل میں لئے، دوبئی میں حصولِ رزق کی خاطر صحراؤں کی خاک چاننے والا ایک ادنیٰ سا طالبعلم۔۔۔ غزل، سگریٹ اور کتابوں کو ہی زندگی کہنے والا، اندر سے درویش۔۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply