حاجی چاچا

ان کا اصل نام تو حاجی وہاب تھا مگر اہل علاقہ انہیں حاجی چاچا کے نام نامی سے یاد کرتے تھے۔حاجی چاچا ہمہ گیرخوبیوں اورخامیوں کا مرقع تھے۔جہاں جاتے بقول فراز داستاں چھوڑآتے۔دوستیاں تو ان گنت تھی ہیں دشمن بھی بے شمار پیدا کئے اور ہمیشہ اس وصف پر اترایاکرتے۔دوست بھی ان کے ایسے تھے جیسے اپنے چچا غالب کے تھے۔
دوست دارِ دشمن ہے اعتماد دل معلوم
آہ بے اثر دیکھی نالہ نارسا پایا
اس لئے ہمیشہ دوستوں کے تذکرہ پر دشمنوں کے ’’ذکرخیر‘‘ کو ترجیح دیتے۔کہتے مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ جن کا کیا دھرا مجھے ہی ہمیشہ بھگتنا پڑتا ہے۔ان نادان دوستوں کی وجہ سے آئے روز کسی مصیبت کا منہ دیکھتے مگر دوستی کا بھرم قائم رکھتے۔گو ان کی غیرموجودی میں دل اور بٹن کھول کر ان کی غیبت کرتے،لیکن آنکھ کی حیا کا پاس تھا کہ پرانی وضع داری تھی تعلق توڑتے نہیں تھے۔
چچا کی ہمہ گیر اور ہمہ جہت خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ تھی کہ جب سے چچا نے ہوش سنبھالا خود کو گھٹنوں کے درد میں مبتلا پایا۔کہتے یہ درد مجھے ورثہ میں ملا ہے۔روئے زمین پر بسنے والے شاید وہ واحد حیوانِ ناطق ہیں جنہیں گھٹنوں کا درد ورثہ میں ملا تھا۔ان کی گفتگو اگر ایران عراق جنگ پر بھی ہوتی تو ’’دردِ گھٹنہ‘‘کے بغیر نامکمل ہوتی۔یار لوگ تو چچا کو طعنے دینے شروع ہوگئے تھے کہ چچا دوائیوں کی قیمتوں میں اضافہ آپ ہی کے مرہون منت ہے۔اگر آپ مسلسل خریداری سے طلب اور رسد پر یوں بری طرح اثرانداز نہ ہوتے تو شاید دوائیوں کی قیمت میں ہوش ربا اضافہ نہ ہوتا۔چچا اس پراپگینڈہ کو یکے از سازشِ یہودوہنود شمار کرتے۔
چچا گھنٹوں کسی بھی موضوع پر بلا تکان بلا رکے بول سکتے تھے اور درمیان میں کوئی ٹوکتا تو بزرگی کا فائدہ اٹھا کر اسے ’’سلیس‘‘ اردو میں وہ بے نقط سناتے کہ دوسروں کو بھی کان ہوجاتے۔چچا کی طبیعت میں عجیب خداداد خوداعتمادی تھی۔سفید جھوٹ بھی اس اعتماد سے بولتے کہ سننے والے کو یقین کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہتا۔یار لوگ مروتاً واحتیاطاً خاموش رہتے اور چچا اسے اپنی ’’اخلاقی فتح‘‘ قراردے کر بولتے رہتے۔کسی حاسد نے تو بے پر کی اڑا رکھی تھی کہ چچا کو چونکہ گھر میں کوئی گھاس نہیں ڈالتا تو چچا اس کا انتقام باہر کے احباب سے لیتے ہیں۔سنا ہے درون خانہ اس روایت کی تصدیق بارہا ہوئی مگر چچا اپنی کج بحثی اور چرب زبانی سے اس پوائنٹ کو بھی اپنے حق میں استعمال کرتے۔
چچا اپنے ریڈیو کی وجہ سے بھی بہت مشہور ہوئے۔گاؤں میں چونکہ انہی کے پاس ریڈیو تھا اس لئے انہی کی ہر مصدقہ وغیر مصدقہ اطلاع پر اعتبار کرنا پڑتا۔ان کے دعووں کی قلعی تو بعد میں کھلی جب ریڈیو ہر کس وناکس کے ہاتھوں میں پہنچا،تب عقدہ کھلا کہ چچا سنی گئی خبروں میں بارہ مصالحوں کا تڑکا لگانے کے بعد انہیں پبلک میں عام کرتے۔مثلاً اگر یہ خبر ہوتی کہ آئندہ چند دنوں میں ہلکی بارش کا امکان ہے تو چچا گلی گلی گھوم کر اعلان کرتے کہ محکمہ موسمیات والوں نے شدید بارشوں کی پیشگوئی کی ہے اس لئے ابھی سے احتیاطی تدابیر شروع کردیں۔یار لوگ کچے گھروں کی خبرگیری میں مصروف ہوجاتے اور شدید بارش پورے سیزن میں نہ ہوتی۔چچا نے اپنی اسی عادت کے طفیل متعدد دفعہ ہندوستان پاکستان کی جنگیں بھی کروائیں لیکن صد شکر کہ یہ افواہ سازی ہی ہوتی۔جب ریڈیو عام ہوا تو چچا غالب کے اس شعر کی تشریح بنے گھوما کرتے
ہر ابوالہوس نے حسن پرستی اختیار کی
اب آبروئے شیوہ اہل نظر گئی
کہتے یہ کل کے لونڈے ریڈیو بارے کیا جانیں۔ریڈیو سننے اور سمجھنے کو فنون کثیفہ میں شمار کرتے،بچوں کو کرکٹ کمینٹری سننے سے بھی منع کرتے اور وجہ اخلاقی بتاتے تھے،لیکن پھر یہ خبر بھی عام ہوگئی کہ چچا آنکھ بچا کر اپنی کٹیا میں ’’ریڈیو آکاشوانی‘‘ سے ہندوستانی گانے سنتے ہیں۔یوں چچا کو دفاعی پوزیشن میں آنا پڑا اور ریڈیو پر ان کی اجارہ داری ختم ہوئی۔
چچا کے بارے میں حاسدین نے یہ خبر بھی مشہور کی ہوئی تھی کہ موصوف ۱۹۷۱ کی جنگ میں جبراً ہندوستانی سرحد کے آس پاس تعینات کئے گئے تھے،مگر رات میں جونہی ایک طیارے کی آواز سنی تو دوڑ لگا دی۔تین سو کلومیٹر کا فاصلہ چند گھنٹوں میں پیدل طے کرکے گاوں واپس آئے اور آتے ہی ڈینگیں مارنی شروع کردیں کہ ہندوستان کے متعدد سپاہیوں کو جہنم واصل کرکے آیا ہوں۔یہ بنیا اب ہم اہل ایمان سے لڑائی کرے گا۔اس کی ایسی تیسی،مگر جونہی ایک دل جلے نے چچا کو بھاگنے کا طعنہ دیا تو چچا آپے سے باہر ہوگئے۔سلیس اردو میں وہ مغلظات سنائیں ،اگلے کئی دن خود بھی گھر سے باہر تشریف نہ لاسکے کہ ایک گونہ شرم شاید دل کے کسی نہاں خانے میں جاگ گئی تھی،لیکن جونہی باہر تشریف لائے پھر سے اسی فصل گل کی تصویر بنے نظر آئے جس کے لئے مشہور تھے۔
چچا کی بحر بے کراں شخصیت کا احاطہ کرنے کے لئے تو سفینہ درکار ہے مگر زیرنظر مضمون میں جس خوبی پر ہم اختتام کررہے ہیں وہ چچا کی نسواری طبعیت تھی۔کہتے میری زندگی کے جملہ مقاصد میں سے ایک مقصد نسوار کو قومی تشخص دلانا ہے۔اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ چچا کا تعلق کسی’’ خاص قوم‘‘ سے تھا۔ ۔ہرگزایسا نہیں تھا،سندھی النسل تھے مگر نسوار کی محبت میں سراپا سرشار تھے۔اسے دل وجگر کے لئے مقوی بتلاتے ہی تھےساتھ ہی کسی دل جلے نے یہ مشہور کر رکھا تھا کہ چچا نے نسوار سے ایک مقوی باہ نسخہ بھی تیار کیا تھا جسے خود پر آزمانے کے بعد اپنے چند ایک دوستوں کر بھی تحفہ میں دیا۔یہ وہ دوست تھے جن کی طرف ان کا ادھار رہتا تھا۔روایت ہے کہ وہ دوست ایک لمبا عرصہ حکیموں کے چکر لگاتے رہے کہ خدارا ہم پر رحم کریں۔ہماری کھوئی ہوئی ’’صحت‘‘ ہی بحال کردیں۔چچا اپنی اس انتقامی کاروائی کی کامیابی کو یوں چسکے لیکر بیان کرتے کہ شادہی شدہ اور ختم شدہ حضرات بھی کانوں کو ہاتھ لگاتے۔غرض چچا نہارمنہ نسوار منہ میں رکھتے تو رات گئے تک اسے دیس نکالا نہ دیتے۔کہتے یہ مردانگی کے خلاف ہے کہ یوں ایک بے زبان سے بے وفائی کی جائے۔روزہ رکھتے تب بھی نسوار منہ میں ہوتی۔یہ بتانے کی کوئی خاص ضرورت تو نہیں مگر ہم جہاں اتنی باتیں بتا چکے وہاں یہ بھی بتلائے دیتے ہیں کہ افطاری تو کرتے ہی نسوار سے تھے۔
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی

Facebook Comments

راشداحمد
صحرا نشیں فقیر۔ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply