• صفحہ اول
  • /
  • اداریہ
  • /
  • سات مسلم ممالک کے شہریوں پر امریکہ داخلے پر پابندی اور عدالت کا فیصلہ

سات مسلم ممالک کے شہریوں پر امریکہ داخلے پر پابندی اور عدالت کا فیصلہ

سات مسلم ممالک کے شہریوں پر امریکہ داخلے پر پابندی اور امریکی عدالت کا فیصلہ
طاہر یاسین طاہر
یہ امر واضح ہے کہ دنیا اب پہلے جیسی نہیں رہے گی بلکہ ٹرمپ کے ہیجان انگیز اقدامات دنیا کو مزید کئی اکائیوں میں تقسیم کرتے نظر آ رہے ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی سنسنی خیز انتخابی مہم کے دوران میں اپنے ووٹرز سے کئی ایسے وعدے بھی کیے تھے جو بادی النظر میں قابل عمل نہیں تھے،تجزیہ کار انھیں مقبولیت حاصل کرنے کا ایک فن قرار دے رہے تھے،مگر واقعات جس طرح وقوع پذیر ہو رہے ہیں،ایسا لگتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ وہی کرنے کی ٹھان چکے ہیں جو انھوں نے انتخابات میں کہا تھا۔امریکہ کئی ریاستوں کا ایک ایسا مجموعہ ہے جس کا باہمی اتحاد قابل رشک ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ دوسروں کی حفاظت اور ان کی بہبود کے لیے امریکی پیسہ کیوں خرچ کریں؟ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ مسلم دہشت گردی کا نام و نشان تک مٹا دیں گے۔یہ بات قابل بحث ہے کہ مسلم دہشت گردی سے ٹرمپ کی مراد کیا ہے؟ کیا وہ ہر مسلمان کودہشت گرد سمجھتے ہیں یا اس سے ان کی مراد وہ دہشت گرد تنظیمیں ہیں جو اسلام کے نام پر مسلم ممالک سمیت دنیا بھر میں خوف کی علامت ہیں۔ جیسے القاعدہ،داعش،اور ان کے فکری ہمنوا وغیرہ۔البتہ ٹرمپ کے اقدامات عالم اسلام کے لیے بالخصوص اور عالمی برادی کے لیے بالعموم فکر انگیز ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سات مسلم ممالک کے شہریوں پر امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کر دی ہے،اگرچہ ان ممالک میں پاکستان شامل نہیں ہے مگر پاکستانی شہریوں کو بھی امریکہ میں داخلے کے لیے نگرانی اور سیکیورٹی کے ایک کڑے نظام سے گزرنا ہو گا۔تازہ ترین خبروں کے مطابقامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 7 مسلم ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخل ہونے پر لگائی جانے والی پابندی کا اطلاق ‘گرین کارڈرکھنے والوں پر بھی ہوگا۔امریکی محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی کی ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں وضاحت کی گئی ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے جاری کیے جانے والے انتظامی حکم کا اطلاق گرین کارڈ ہولڈرز پر بھی ہوگا۔جبکہ برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق محکمہ داخلی سیکیورٹی کی قائم مقام ترجمان گیلیان کرسٹینسن نے بذریعہ ای میل یہ بات واضح کی کہ ‘وہ افراد جن کے پاس امریکا کا گرین کارڈ موجود ہے وہ بھی اس پابندی کی زد میں آئیں گے۔یاد رہے کہ گرین کارڈ کا حامل شخص امریکا کا مستقل قانونی رہائشی ہوتا ہے تاہم اب یہ بیان سامنے آنے کے بعد اس حوالے سے مزید خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نئے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کرکے امریکا میں تارکین وطن کے داخلے کے پروگرام کو معطل کرتے ہوئے 7 مسلم ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔ ایگزیکٹو آرڈر کے تحت امریکا میں تارکین وطن کے داخلے کے پروگرام کو 120 دن (یعنی 4 ماہ) کے لیے معطل کردیا گیا۔دوسری جانب 7 مسلمان ممالک ایران، عراق، لیبیا، صومالیہ، سوڈان، شام اور یمن کے شہریوں کو 90 دن (یعنی 3 ماہ) تک امریکا کے ویزے جاری نہیں کیے جائیں گے۔جبکہ نئے آرڈر کے تحت شامی مہاجرین کے امریکا میں داخلے پر تاحکم ثانی پابندی عائد کردی گئی۔اب یہ بات بھی سامنے آگئی ہے کہ مذکورہ ممالک سے تعلق رکھنے والے وہ شہری جن کے پاس گرین کارڈ موجود ہے اور وہ امریکا سے باہر ہیں انہیں بھی امریکا میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔خیال رہے کہ ٹرمپ کی جانب سے پابندیوں سے متعلق انتظامی حکم جاری کرنے کے بعد مصر سے نیویارک جانے والی پرواز سے 5 عراقیوں اور ایک یمنی شہری کو اتار لیا گیا تھا جبکہ ایران نے امریکی اقدامات پر شدید ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے امریکی شہریوں کے ایران میں داخلے پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔
یہ امر بھی واقعی ہے کہ امریکہ کے شہر نیویارک کی ایک عدالت نے صدر ٹرمپ کے اس حکم نامے پر عبوری طور پر عمل درآمد روک دیا ہے جس کے تحت سات مسلمان اکثریتی ممالک سے پناہ گزینوں کی امریکی آمد پر پابندی لگا دی گئی تھی۔امریکی شہری آزادی کی تنظیم اے سی ایل یو نے ہفتے کے روز صدر کے حکم نامے کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا۔اے سی ایل یو نے کہا کہ جج کے سٹے آرڈر سے ان لوگوں کی ملک بدری رک گئی ہے جو اس حکم نامے کی ‘زدمیں آ گئے تھے۔تنظیم کا اندازہ ہے کہ ایک سو سے دو سو تک لوگوں کو ہوائی اڈوں پر روک دیا گیا تھا۔اس دوران سینکڑوں لوگوں نے مختلف امریکی ریاستوں میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امیگریشن کے بارے میں حکم نامے کے خلاف احتجاج کیا ہے۔اس حکم نامے کے تحت، جس پر انھوں نے جمعے کو دستخط کیے تھے، امریکہ کا پناہ گزینوں کا پروگرام معطل کر دیا گیا تھا اور عراق، ایران، شام، لیبیا، صومالیہ، سوڈان، اور یمن کے شہریوں کی امریکہ آمد پر 90 دن کی پابندی لگا دی تھی۔وہ لوگ جو اس دوران سفر کر رہے تھے، انھیں امریکہ آمد پر حراست میں لے لیا گیا تھا، چاہے ان کے پاس جائز ویزا اور دوسری دستاویزات ہی کیوں نہ ہوں۔جج این ڈونیلی کے فیصلے کے بعد ان لوگوں کی ملک بدری رک گئی ہے جن کے پاس پناہ گزینی کی منظور شدہ درخواستیں، منظور شدہ ویزا، یا امریکہ میں داخلے کے لیے درکار دوسری قانونی دستاویزات موجود تھیں۔امیگرینٹس کے حقوق کی تنظیم آئی آر پروجیکٹ کے ڈپٹی لیگل ڈائریکٹر نے کہا کہ عدالت کے باہر جمع ایک ہجوم نے نعرے لگا کر اس فیصلے کا خیرمقدم کیا۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے جیتنے،حلف اٹھانے اور وائٹ ہاوس میں آنے کے دوران میں امریکی شہریوں کی ایک بڑی تعداد ڈونلڈ ٹرمپ کے متعصبانہ رویے اور ان کی جارحیت مزاجی کے خلاف مظاہرے کر رہی ہے۔بے شک امریکی سینیٹ میں بھی قابل ذکر امریکی سیاست دانوں اور واشنگٹن کے پالیسی سازوں کو ٹرمپ کے ذہنی رویوں پر تشویش ہو گی۔ امریکی عدالت کی جانب سے ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کے خلاف حکم امتناعی بھی آرڈر کے متنازع اور قابل نفرت ہونے کی دلیل ہے۔ آئندہ دنوں میں ہم میکسیکو کی سرحد پر تعمیر ہونے والی دیوار کے حوالے سے بھی امریکی شہریوں کے تحفظات اور عدالتی کارروائی کو ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ مقبولیت حاصل کرنے کے لیے ایسے اقدامات کرنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں جن کا بہ ظاہر تعلق امریکی شہریوں کی آزادی اور تحفظ سے ہے مگر یہ اقدامات دنیا میں امریکہ اور اس کے شہریوں کے لیے نفرت کا سبب بنیں گے۔ دنیا ایک گاوں میں بدل چکی ہے، امریکہ گاوں کی نمبرداری کرنے کے بجائے اس گاوں کے سارے افراد کی بہتری کے لیے دوسروں کے ساتھ مل کر انسان دوست اقدامات اٹھائے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply