فوج،سیاستدان اور آئین/ڈاکٹر ابرار ماجد

موجودہ سیاسی حالات کا اگر جائزہ لیں تو ایک بات واضح نظر آتی ہے کہ فوج اپنے آپ کو غیر جانبدار رکھنے کا فیصلہ کر چکی ہے اور کل کی ڈی جی، آئی ایس آئی اور آئی ایس پی آر نے ایک غیر معمولی پریس کانفرنس کر کے تمام باتیں واضح کر دی ہیں۔ اور یہ پاکستان کی تاریخ میں کسی ڈی جی، آئی ایس آئی کی پہلی کانفرنس ہے جو انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کے دوران کی ہو۔

جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات کی نزاکت کا بخوبی اندازہ ہے اور انہوں نے وہ تمام امور اس پریس کانفرنس میں زیر بحث لائے جن پر آج کل پاکستان کے سیاسی حلقوں میں خدشات، تحفظات اور الزامات پائے جا رہے تھے۔ انہوں نے اپنی غیر جانبداری میں نیوٹریلٹی، جانوروں سے تشبیہ، میر جعفر و میر صادق کے القابات اور چوکیدار کی غداری تک کے اپنے اوپر اٹھنے والے تمام الزامات کا جواب دیا اور یہ باور کروایا کہ اس کی وجہ ان کا کوئی غیر آئینی قدم نہیں بلکہ اس کی بنیاد غیر آئینی اقدامات پر مدد نہ کرنا ہے۔

اسی طرح انہوں نے سائفر پر بھی وضاحتی بیانیہ سامنے رکھا اور اس کی حقیقت سے پردہ چاک کیا کہ کب کب کیا کیا باتیں ہوئیں جو کہ پریس کانفرنس کا حصہ ہے جن کو یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں۔ اور عمران خان کے بیانیوں کو واضح طور پر جھوٹ کہہ دیا۔ ان پر صحافیوں کی طرف سے سخت سوال اٹھائے گئے جن میں ان کی دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں مداخلت تک پوچھا گیا اور انہوں نے اس کے رد عمل میں اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے واضح کیا کہ انہوں نے فوج کے کمانڈروں کا اجلاس بلایا۔

فوج کے کردار کو زیر بحث لا کر اجتماعی طور پر یہ فیصلہ کیا کہ فوج کو اپنے آئینی اختیارات تک محدود ہو جانا چاہیے اسی میں ملک و قوم کی بہتری ہے۔ اور دو ہزار اکیس کے بعد سے انہوں نے خواہ وہ ضمنی الیکشن ہوں، بلدیاتی الیکشن ہوں یا عدم اعتماد کی تحریک کسی بھی قسم کی کوئی مداخلت نہیں کی۔ اور ان کی اس بات کی شہادتیں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے آ چکی ہیں۔ جن میں تحریک انصاف کی فوج کی ٹرولنگ بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ انہوں نے فوج کی نیوٹریلٹی کو بنیاد بنا کر ان پر تنقید کی انتہا کر دی جو ان کو اپنے دو ہزار اٹھارہ کی مداخلت کی قیمت کے طور پر ادا کرنا پڑی۔

اور اس ٹرولنگ کی برداشت پر دوسری جماعتوں کے قائدیں فوج پر انگلی بھی اٹھا رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے قائدیں کے ساتھ اب بھی لاڈلوں والا سلوک کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ ماضی میں اگر کوئی فوج پر معمولی سی بات بھی کرتا تو اس انتہائی سخت رد عمل کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ تو اس سے بھی یہ اندازہ ہوتا ہے کہ عمران خان کے ساتھ یہ لاڈ نہیں بلکہ اپنی نیوٹریلٹی کو ثابت کرنے کی کوشش ہے اور وہ اپنی سابقہ غلطیوں کی قیمت چکا کر بھی اپنے کردار کو آئینی حدود میں رکھنا چاہتے ہیں۔

ایک صحافی کے سوال پر کہ آپ نے عمران خان کے ساتھ جو آپ کا شفقت بھرا رویہ ہے یہ کسی اور کے ساتھ تو نہیں رہا جس پر انہوں نے یہ کہا کہ اگر کوئی پاکستان کے کسی ادارے پر الزامات لگاتا ہے تو آئینی طور پر حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس پر ایکشن لے اور ان کا یہ مؤقف سو فیصد ٹھیک تھا۔ یہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اداروں کے آئینی اقدامات پر ان کو مکمل تحفظ اور بے جا اٹھنے والے الزامات پر قانونی ایکشن لے۔

ارشد شریف کی شہادت پر ان کے خلاف جو الزامات کا سلسلہ جاری تھا اس پر بھی انہوں نے معلوم حقائق کی روشنی میں وضاحت پیش کی اور بتایا کہ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس پر غیر جانبدارانہ تحقیق کر کے حقائق قوم کے سامنے لائیں اور اس تحقیق میں سے اپنے آئی ایس آئی کے نمائندے کو بھی صرف اس لئے ہٹا لیا ہے کہ غیر جانبداری پر کوئی انگلی نہ اٹھ سکے۔

اب اس پریس کانفرنس کے بعد جس جس نے بھی اس طرح کے الزامات لگائے ہیں ان کی ساکھ پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ابھر آیا ہے۔ جس میں وہ تمام صحافی، سیاستدان شامل ہیں جنہوں نے اس طرح کے آزادی اظہار رائے کے حقوق کا استعمال کرتے ہوئے الزامات لگائے ہیں اور ان کی وضاحت دینا بھی ان کا ہی فرض ہے۔

فوج کی پریس کانفرنس میں زیادہ تر اشارے تحریک انصاف کے موجودہ سیاسی پس منظر میں کردار کی طرف جاتے ہیں۔ اور اگر ماضی کی تاریخ کے حوالوں سے دیکھا جائے تو صرف فوج کو ہی ریاست میں مداخلت کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا بلکہ اس میں سیاستدانوں کا بھی حصہ ہے جو اس کھیل میں شامل رہے ہیں اور آج بھی دہرائے جا رہے ہیں اس طرح عدلیہ کے فیصلے بھی نظر انداز نہیں کئے جا سکتے۔

تو اس سارے منظر نامے کو سامنے رکھ کر دیکھیں تو آج یہ بات واضح ہو کر سامنے آ رہی ہے کہ جب فوج اپنے آپ کو غیر جانبدار رکھنے کی کوشش کر رہی ہے تو سیاستدانوں کا ایک گروہ ان کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ اپنے کردار کو جاری رکھیں۔ دوسرے لفظوں میں ان کو بلیک میل کیا جا رہا ہے کہ اگر انہوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا تو پھر ان کی سابقہ غلطیوں کے حوالوں سے نشانہ بنایا جاتا رہے گا۔

آئینی حدود اور اختیارات تو اپنی جگہ مگر ہماری صورتحال سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارا مسئلہ محض سیاسی یا آئینی نہیں رہا بلکہ اخلاقی بن چکا ہے۔ کہ ہم خود نمائی کی اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ جہاں ہمیں انفرادی طور پر اپنے آپ کے سوا کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا۔ صرف اپنا قول و فعل ہی سچائی کے قریب لگتا ہے اور اسی کو ہم میعار سمجھتے ہیں جو انتہائی خطرناک صورتحال ہے۔

ہماری سوچ پر ہمارے اس عمل کی اس قدر دھاک بیٹھ چکی ہے اور معاشرے نے اس رواج کو اس طرح اپنا لیا ہے کہ اب اس خود غرضی کو برا بھی نہیں سمجھا جاتا۔ تو اس سوچ کا شاخسانہ جہاں بھی نمودار ہوتا ہے وہ اپنا رنگ دکھا کر ملک و قوم کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ ہم سب اسی دھرتی کے سپوت ہیں مگر درج بالا سوچ کے حامل جب کسی عہدہ، اختیار یا طاقت پر پہنچتے ہیں تو وہاں ان کی سوچ کے عمل سے خرابی شروع ہو جاتی ہے۔

اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے ہمیں ہمارے معاشرتی ماحول کو اخلاقی تربیت سے آراستہ کر کے بدلنے کی ضرورت ہے۔ اب سوچنے کی ضرورت یہ ہے کہ ہمیں اب ماضی کی غلطیوں کو تھوڑی دیر کے لئے بھلا کر اگر سب سٹیک ہولڈرز واقعی ملک میں آئین کی پاسداری کو یقینی بنانے کے بارے مخلص ہیں تو پھر سب سر جوڑ کر بیٹھیں اور مستقبل میں غیر آئینی اقدامات کی خدشات کو ختم کرنے کے لئے کوئی لائحہ عمل بنا کر اس کو عمل میں لانے کا آغاز کریں۔

جب فوج اس بات کا اظہار کرتی ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو آئینی حدود میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے تو یہ بات بذات خود ایک اعتراف ہے اور کوئی بھی اس حقیقت سے انکاری نہیں اور دوسری طرف عدلیہ اور سیاستدان بذات خود بھی اپنے آپ کو اس سارے غیر آئینی عمل سے بری الزمہ کرار نہیں دے سکتے تو پھر اس اعادے کے بعد بار بار باتوں کو دہرانے کی بجائے اُس غیر آئینی سوچ کے دہرائے جانے کے خدشات پر قدغن لگانے کی ضرورت ہے۔

ہم جس جمہوریت کے سفر پر رواں ہیں اس کے ابھی ہم نے کئی مراحل طے کرنے ہیں۔ اور سب سے مشکل دورانیے کا آغاز ہو چکا ہے۔ جب غیر ذمہ دار معاشرے کو یکدم آزادی اور آزادی اظہار رائے کا حق مل جائے اور اخلاقیات نام کی کوئی چیز نہ ہو تو پھر ایسے معاشروں کا شر ہی بہت بڑا چیلنج بن جاتا ہے جس کا آج کل ہم سامنا بھی کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس آزادی اظہار رائے نے جو گل کھلائے ہوئے ہیں اس سے شائد شیطان بھی پناہ مانگ رہا ہو۔

جب ہم پارلیمانی نظام سے مستفید ہونے کی بات کرتے ہیں تو پھر ہمیں اس پارلیمانی نظام کی کامیاب مثال برطانیہ میں ملتی ہے جہاں پچھلے ایک ماہ میں تین وزیراعظم بدل گئے ہیں مگر کوئی غیر اخلاقی بات نہیں ہوئی، کسی بھی عالمی طاقت یا کسی دوسری ریاست پر الزام نہیں لگایا گیا، کسی نے کسی ادارے کی مداخلت کا ذکر تک نہیں کیا۔ آپ ان کے پارلیمنٹ ہاؤس میں ان کے بحث مباحثے کو دیکھیں تو کتنے تحمل، تدبر اور شائستگی کے ساتھ وہ باری باری ایک دوسرے کو کتنے دھیان سے سن رہے ہوتے ہیں اور چند قطاروں میں آگے پیچھے بیٹھ کر اپنے مسائل کو زیر بحث بھی لا رہے ہوتے ہیں۔

اعتراضات بھی اٹھ رہے ہوتے ہیں، جواب بھی دئے جا رہے ہوتے ہیں اور ان پر عمل درآمد بھی کروایا جا رہا ہوتا ہے۔ اور جو بات انتہائی دلچسپ ہے وہ یہ ہے کہ ان کا آئین کسی کتابی شکل میں نہیں ہے اور انہوں نے پھر بھی اس کو ایک رواج کے طور پر اپنایا ہوا ہے۔ اب اس سارے ماحول کو اپنے پارلیمنٹیرین سے موازنہ کر کے دیکھیں تو رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے کہ ہمارے شاہانہ نما پارلیمنٹ میں خودنمائی کے دلدادہ ہمارے نمائندگان کیا کیا گل کھلاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

کسی بھی ادارے کی عزت و تکریم اس میں موجود لوگوں کے اعمال اور کردار سے جڑی ہوئی ہوتی ہے، انہوں نے خود ہی اپنے نظام کی کامیابی کو ممکن بنانا ہوتا ہے اور اگر وہ خود ہی اپنے مسائل کو وہاں سے اٹھا کر چوک چوراہوں میں پہنچ جائیں اور پھر دوسروں پر انگلیاں اٹھانی شروع کر دیں کہ وہ ان کا تماشہ کیوں دیکھ رہے ہیں تو پھر زمانہ محو حیرت تو ہو گا اور پھر ستم کی بات یہ ہے کہ اپنی غلطیوں سے نظریں ہٹانے کے لئے نظام کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کر دیتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply