جانیوالا چلا گیا۔۔تنویر احمد

جانیوالا چلا گیا لیکن ایک سوچ اور ایک مشن دیکر گیا ہے۔  یہ نظام قدرت ہے، اللہ پاک اس کے اگلے مراحل آسان فرمائے، اسے راحت و سکون عطا کرے، خان صاحب نیک کاموں سے زیادہ بہت سے نیک جذبات قوم کو دے کر گئے۔ آپ نے ہمیشہ ایک خود دار قوم بننے کا درس دیا۔ فرنگیوں سے صحیح معنوں  میں آزادی کا خواب دکھایا۔ سینے میں ریاست ِ مدینہ کی خواہش بیدار کی۔ کفر کے ایوانوں میں ناموس رسالت پر دو ٹوک موقف اپنا کر امت مسلمہ کی ترجمانی کا حق ادا کیا۔ امت مسلمہ کی خود داری اور نشأۃ ثانیہ کے حق میں اپنی آواز بلند کی۔ اور وطن عزیز کو چوروں، لٹیروں اور ڈاکوؤں سے آزاد کرانے کو مقصد ِاقتدار بنایا۔

باوجودیکہ ذاتی زندگی اور تعلیمی و تربیتی پس منظر اتنا اچھا نہیں تھا، بچپن اور جوانی کھیل کود اور غفلت کے ماحول میں گزری، لیکن یکدم سے سوچ کی بلندی اور عقل کی پختگی آجانا کمال بلکہ کرامت تھی۔ اپنے ہر خطاب کا آغاز کلام مقدس کی آیت “ایاک نعبد وایاک نستعین” سے کرنا اور اپنے خطابات میں جا بجا نوجوانوں کو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو رول ماڈل بنانے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی تلقین کرنا، یہ تمام وہ منفرد صفات و خیالات ہیں، جو ایک مسلم لیڈر میں ہونے چاہئیں اور بلاشبہ خان صاحب اس بلند وبالا سوچ و فکر کے حامل لیڈر تھے ، موجودہ سیاسی شخصیات میں شاید ہی کسی میں یہ سارے اوصاف جمع ہوں۔

ان کی باتوں اور خیالات کی بلندی کی وجہ سے پاکستانی قوم کو امید کی ایک کرن نظر آئی تھی کہ شاید یہی وہ مسیحا ہے، جس کے ذریعے اولاً  وطن عزیز اور پھر امت مسلمہ ایک دفعہ پھر دنیا میں ایک باوقار اور خوددار قوم بن کر کفریہ سپر پاور کے سامنے سینہ تان کے کھڑی ہوسکے گی۔

لیکن بدقسمتی سے عملی میدان میں وہ اپنے  بہت سے  بلند و بانگ دعوؤں سے بالکل لا تعلق اور کوسوں دور نظر آیا۔ اپنےدور اقتدار میں بدترین گستاخ رسول فرانس کے سفیر کی بے دخلی کے معاملے میں کفریہ طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی بجائے امت مسلمہ کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہوگیا۔ توہین رسالت کی ملزمہ کو آزاد کرانے کا سہرا اپنے سر لینے میں فخر محسوس کرتا نظر آیا۔ پڑوسی ملک سے امریکی غاصب، ظالم اور قاتل افواج کے  انخلاء کے موقع پر وطن عزیز کو ان کے لئے مہمان خانہ بناکر ان کے ساتھ عزت وتکریم سے پیش آیا۔ عالمی مظلوم سرزمین کشمیر   ،ہندو بنیوں کو بآسانی ہضم ہونے دی۔ ایک طرف سکھوں اور بت پرستوں کے لئے عبادت خانے تیار کرکے دینے میں پیش پیش تو دوسری طرف تجاوزات کے عنوان پر بے شمار مساجد کو منہدم کرنے پر چپ سادھ لی تھی۔ تقریباً ساڑھے تین سال مسند اقتدار پر براجمان ہونے کے باوجود بظاہر کوئی ایک کام بھی ریاست مدینہ کی طرز پر نہ ہوسکا، جس کی وجہ سے ان کے مخالفین کو یہ لگتا تھا کہ اس کے نزدیک “ریاست مدینہ” کی حیثیت ایک سیاسی نعرے اور مذہبی کارڈ سے زیادہ کچھ نہیں تھی (واللہ اعلم بالنیات)۔

جنہیں بزبان خود پنجاب کا بڑا ڈاکو اور کراچی کے دہشت گرد بھتہ خور قرار دیا، پھر انہی لوگوں کو اپنی ٹیم میں نہ صرف شامل کیا بلکہ بڑے کلیدی مناصب اور وزارتوں پر فائز کیا۔ بلاشبہ وقت کے فرعونوں اور سرمایہ داروں سے ٹکر لے کر اپنا چین و سکون بلکہ اپنی زندگی بھی داؤ پر لگا رکھی تھی، لیکن دوسری طرف اپنی ہی ٹیم میں کرپشن اور بدعنوانی کے واقعات علم میں آنے کے باوجود کبوتر کی مانند آنکھیں بند کیے رکھیں۔ غربت و افلاس کی ستائی ہوئی قوم کو لازوال (اور بظاہر دائمی) مہنگائی کا تحفہ دیکر لوگوں کی خوب بد دعائیں وصول کیں۔

اپنے سیاسی حریفوں کے ساتھ حکمت وبصیرت، فہم و تدبر اور اخلاقی برتری کی بجائے، الزام تراشی، طعنہ بازی، غیر سنجیدہ انداز تخاطب، اور بداخلاقی پر مشتمل رویوں کی وجہ سے اپنے چاہنے والوں   پر بھی ایک گہرا نقش چھوڑ گئے۔ یوں اپنے قول و فعل میں تضاد اور اپنی باتوں اور قوم سے کئے گئے وعدوں میں “یوٹرن” لینا ان کی شناخت بن کر رہ گئی تھی۔

الغرض جانے والا چلا گیا، (لہا ماکسبت ولکم ماکسبتم ) یہ نظام قدرت ہے، یہاں کسی کو دوام نہیں ہے، خالق کے علاوہ ہر چیز کو فنا ہے، لیکن بلاشبہ وہ ایک سوچ اور ایک وژن ضرور دیکر گیا ہے، سیکھنے اور اپنانے کی غرض سے خان صاحب کی ذاتی اور سیاسی زندگی سے بہت سے ہیرے اور موتی چنے جاسکتے ہیں، جوکہ موجودہ سیاسی شخصیات میں خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ یہ ہیرے اور موتی خان صاحب کے وہ قولی ارشادات ہیں، جو انہوں نے مختلف مواقع پر بظاہر درد دل سے قوم کے سامنے رکھے اور تلقین کرتے رہے، (جو کہ مضمون کے پہلے پیراگراف میں اجمالا ً بیان کئے گئے ہیں) اگرچہ خان صاحب کو خود ان باتوں پر عمل کرنے کا موقع اور مہلت یا توفیق (کہنا چاہیے) نہیں ملی، (بلاشبہ ان کے سامنےاس کی کئی وجوہات ہونگیں، راقم کو ان کی نیت پر شک کرنے کا کوئی حق نہیں، اور نہ ہی راقم ان کو غیر کا آلہ کار/ایجنٹ قرار دینے والے موقف کو درست تسلیم کرتا ہے)۔

Advertisements
julia rana solicitors

لیکن اگر کوئی آج کا لیڈر ان کے   بلند و بالاخیالات اور ارشادات کو لائحہ عمل کے طور پر سامنے رکھے، اور اسی جذبے اور جنون کو لیکر اس نامکمل مشن کو عملی تکمیل تک پہنچادے، تو بلا شبہ یہ اس قوم پر احسان عظیم ہوگا۔ وما ذالک علی اللہ بعزیز۔

Facebook Comments

تنویر احمد
سچامسلمان بننے کی کوشش کررہا ہوں اسلئےسچائی کا ساتھ دینا پسند ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply