ضمیر کی آواز۔۔ علی انوار بنگڑ

ضمیر کی آواز۔۔ علی انوار بنگڑ/ماضی قریب میں ایمپائر کی مدد سے حکومت گرانے والے آج اسی ایمپائر کے گروپ بدلنے پر سیخ پا ہیں اور تب جو حکومت گرانے کو جمہوریت کشی قرار دے رہے تھے، آج حکومت گرانے کو نیک عمل قرار دے رہے ہیں۔
اگر غور کیا جائے تو وطن عزیز کی سیاست اسی طرح کے منجدھار میں اپنےقیام کے وقت سے پھنسی ہوئی ہے۔ جیسے نظام شمسی میں محور سورج ہے، سارے سیارے اس کے گرد گھومتے ہیں۔ ایسے ہی کچھ حالات ہماری سیاست کے ہیں۔ یہاں بھی ایک سورج ہیں۔ جس کے گرد سارے سیاست دان طواف کرتے ہیں۔ یہاں فرق اتنا ہے، ادھر کا سورج ایک سیاست دان کو چن لیتا ہے جسے اس کی مرضی کے موسم دیے جاتے ہیں، یوں کہہ لیں وہ لاڈلہ ہوتا ہے۔ جب لاڈلے کو یقین ہوجائے کہ اس کی ہر بات مانی جائیں گی اور وہ من مرضی کرنے لگ جائیں۔ تب سورج صاحب اپنی تپش سے اس پر سے سدا بہار رہنے والا بہار کا موسم ختم کردیتے ہیں۔ پھر کسی دوسرے پر وہی شفقت فرما دیتے ہیں اور یوں یہ چکر چلتا رہتا ہے۔

ایک وقت تھا جب ن لیگ، پیپلزپارٹی یا دوسری جماعتوں کا کوئی ایم پی اے، ایم این اے یا سینیٹر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرتا تھا۔ تو تحریک انصاف کی جانب سے خوشیوں کے شادیانے بجائے جاتے تھے۔ اور اگر کوئی پوچھتا یہ تو ہارس ٹریڈنگ ہے تو جواب دیا جاتا نہیں یہ اراکین اپنے ضمیر کی آواز پر آرہے ہیں۔ تب تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے ایمپائر کے ان کے حق میں ہونے کے حوالے سے کھلم کھلا بتایا جاتا۔ اقتدار حاصل کرنے کے بعد بتایا جاتا رہا کہ سر اور ہم ایک پیج پر ہیں۔ سر کی طرف سے دخل اندازی پر کوئی بولتا تو غداری کا تمغہ تحریک انصاف کے کارکنان کی جانب سے اس بندے کو دیا جاتا ہے۔ اب سر کی دخل اندازی خان کو نکالنے کے حوالے سے ہے۔ تو غداری کے فتوے دینے والے اب سر کو گالیاں دے رہے ہیں۔ لیکن ماضی میں اپنے کردار پر رجوع کرنے کو تیار نہیں۔

اور آج کچھ ویسی ہی ضمیر کی آوازوں کا خان صاحب اور ان کی جماعت تحریک انصاف والوں کو سامنا ہے۔ یہی کچھ حالات ماضی میں باقی جماعتوں کے رہے ہیں۔ جب جب جسے گرین سگنل ملا اقتدار کا تب تب اس جماعت کے بیانات بدل جاتے ہیں۔ پہلے جو نکالے جانے پر جمہوریت کی بحالی کے راگ الاپ رہا تھا آج وہ اسے نیک عمل بنا رہے ہیں۔ اور جو پہلے سر کی مدد سے تخت نشین ہورہے تھے۔ آج جانور نیوٹرل ہوتا ہے کہ طعنے دے رہے ہیں۔

اگر پاکستان میں جمہوریت کی بات کی جائے تو ایسی چند ضمیر کی آوازوں کی باز گشت ہر تین سے چار سال بعد سنائی دیتی ہے۔ جو برسر اقتدار جماعت کو چھوڑ کر اُس جماعت کی طرف بھاگ رہے ہوتے ہیں، جنہیں ڈائریکٹر صاحبان کی طرف سے نئے بادشاہ سلامت بننے کا رول ملا ہوتا ہے۔ اور یہ چکر چلتا رہتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ہم اس چکر میں پھنس گئے ہیں۔ بس بس بیچ بیچ میں کبھی ڈائریکٹر صاحب خود ہیرو بن جاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جو بھی صاحب بہادر کے دست شفقت سے محروم ہوا، تب تب اسے جمہوریت اور پارلیمان کی عزت یاد آئی۔ لیکن ایسے وقت میں کبھی کسی میں ہمت نہیں ہوئی کہ وہ عوام سے اپنے پرانے کردار پر معافی مانگے۔ سیاست دانوں کی ایسی حرکات کی وجہ سے جمہوریت پاکستان میں بدنام ہوئی۔ لیکن جن کے کہنے پر وہ یہ سب کرتے رہے، وہ آج بھی معتبر ہیں۔ کیا کبھی اپنے اقتدار کی لالچ کو ایک طرف رکھ کر اس پارلیمنٹ کی عزت کو بحال کرنے کے لیے اکٹھے ہوں  گے؟ کیا کبھی یہ ان کے خلاف اکٹھے ہوگے، جو انہیں کٹھ پتلی بناتے ہیں؟ کیا کبھی یہ ان ماتحت افسران کو ان کی حدود میں رکھنے کے لیے مل کر جستجو کریں گے؟ یا ہر بار ماتحت آفیسر کے آشیرباد سے ایک دوسرے کے خلاف بیہودہ قسم کی سازشیں کرکے ایوان کی عزت کو مزید پامال ہی کریں گے؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply