انسان کا اپنے اردگرد کی دنیا کے ساتھ تعلق کچھ یوں استوار ہے کہ انفرادی یا اجتماعی سطح پر کچھ بھی اچھا برا اس پہ مسلط کر دیا جائے تو وقت کے ساتھ یہ تسلط ایک معمول میں بدل جاتا ہے ۔ تسلط کے معمول بننے کا سفر بڑا ہموار ہے اسی لئے یہ کچھ وقت بھی لیتا ہے۔
حقیقت یا واقعیت مسلسل اپنا روپ بدلتی رہتی ہے ایسے ہی جیسے بادل آسمان پہ اپنی شکل اور جگہ تبدیل کرتے ہیں، لیکن تبدیلی کی یہ رفتار اس قدر سست ہے کہ مادی سطح پر اسے فوراً محسوس نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی بھی نیا تعلق، انقلاب، تبدیلی اور خوشگوار و ناخوشگوار واقعہ شروع میں خاص احساسات کو جنم دے سکتا ہے، لیکن یہ خاص احساس آہستہ آہستہ معمول بنتا جاتا ہے، جذبات سرد پڑ جاتے ہیں اور پھر وہی بوریت ، بوریت معمول ہی کا دوسرا نام ہے۔
ضمنی سوال یہ بھی ہے کہ بوریت کیا ہے ؟
اس کا جواب دینا قدرے مشکل ہے، شاید تنوع کی غیر موجودگی ،یکاھنگی اور جمود کو ہم بوریت کہہ سکتے ہیں، اس کیفیت کو انسان خود پہ مستقل طاری نہیں رکھ سکتا ، بالخصوص مشرقی انسان کے خون میں پلٹنے جھپٹنے کا شوق بدرجہ اتم موجود ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم کامل یکسوئی سے محروم ہیں۔ اب بوریت کی اس کیفیت سے نکلنے کیلئے فرد کا ذہن اور لاشعور مل کر نئے کھیل اور کھلونے ایجاد کرتے ہیں، تاکہ کسی انوکھے اور غیر معمولی تاثر کو محسوس کیا جا سکے۔ کھلونا بوریت سے بچنے کا بہترین ذریعہ ہے، اور کھیل اس سے بھی ایک قدم آگے ہے، پیچیدگی جس قدر زیادہ ہوگی لطف اتنا ہی دوبالا ہوگا۔
بچوں کے کھیل چھپن چھپائی اور بھاگ دوڑ تک محدود رہتے ہیں، بالغ آدمی تفریح اور کھیل کود کے نئے طریقے دریافت کرنے چل پڑتا ہے کہ پیچیدگی درکار ہے، ان نئے طریقوں میں سب سے تفریح بخش طریقہ کسی مجازی حقیقت کا تخلیق کرنا ہے۔ فرد کسی بھی پروفیشن سے تعلق رکھتا ہو، ذرا سا غور کرنے پر معلوم ہوگا کہ اس کے کام کو بآسانی کھیل کا نام دیا جا سکتا ہے، بس اس فرق کے ساتھ کہ ہر کھیل کے قوانین اور شرائط مختلف ہیں۔
بچے کی کسی بھی مصروفیت کو ہم کھیل کا نام دیتے ہیں، اور بالغ شخص اپنی مصروفیت کو کچھ اہم دکھانے کی غرض سے اسے کام کا نام دیتا ہے، حالانکہ بچہ اور بالغ دونوں اپنی اپنی مصروفیات کو پوری سنجیدگی سے لیتے ہیں، بلکہ شاید بچہ اپنے کام میں زیادہ زمہ دار دکھائی دیتا ہے ۔
ہمیں کسی بھی کھیل یا کھلونے کی مستقل ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے؟
کیا اس کا مقصد بوریت سے بچنا ہے؟
یہ سوال اتنا ہی قدیم ہے جتنا قدیم حضرتِ انسان ہے۔ کھیل کھلونے کا مطالبہ کسی طور بقا، تحفظ کی جبلت یا تولید سے نہیں جڑا جیسا کہ عام طور پہ سمجھا جاتا ہے ۔
زندگی کو اپنے ڈھب اور اپنی مرضی سے آزادانہ طور پر گزارنے کی خواہش ہی کھیل اور کھلونے کے مطالبے کی اصل وجہ ہے، باقی تمام جبلتیں اسی قانون کے تابع ہیں، دوسرے الفاظ میں ہر جاندار کی منزل اور مقصد اپنے اردگرد موجود حقیقت کی لگام کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کی جدوجہد ہے۔
لیکن یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ فرد اس حقیقت پہ قابو پا سکے جس کے وجود کا انحصار فرد پر نہیں، اور پھر ایسی جدوجہد چونکہ ہر طرف سے جاری ہے ، تر نوالہ کسے پسند نہیں؟ پرسکون رہائش بھی ہر ایک کا خواب ہے، ایسے میں حقیقت پہ قابو پانے کے امکانات کم تر ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ امکان جتنا کم ہوگا، حقیقت پر قابو پانے کی خواہش اتنی شدید ہوگی۔
یہ پیش رفت کچھ حیران کن ہو سکتی ہے کہ بقا اور جنس کی جبلتیں اصل میں حقیقت پہ قابو پانے کی خواہش کا منطقی نتیجہ ہیں، لیکن یہ سب پہلی نظر میں عجیب لگ سکتا ہے، غور کرنے پر معلوم ہوگا کہ ہمارے تمام ارادوں اور افعال کی جڑ اسی خواہش میں پنہاں ہے کہ کسی بھی طرح حقیقت/واقعیت پر قابو پایا جا سکے۔
مصروف رہنے سے ایک سچا یا جھوٹا تاثر جنم لیتا ہے جس سے فرد حقیقت کو اپنے جزوی کنٹرول میں محسوس کرتا ہے، غیر فعالیت کا نقصان یہ ہے کہ فرد اس تاثر سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، اسی لئے کسی نہ کسی کھیل میں فرد ہر وقت ملوث رہتا ہے، کیونکہ کھیل ہی وہ سراب ہے جس سے حقیقت کی لگام اپنے ہاتھ میں محسوس ہوتی ہے۔
پرندوں کو دیکھیے کہ گھاس پھوس اور درختوں کے بیجوں اور پھلوں کے ساتھ ناز نخرا کرتے رہتے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ اس کھیل کی مدد سے وہ ماحول کو اپنے قابو میں رکھے ہوئے ہیں، اس کھیل سے تھک جائیں تو پرندے چہچہانا شروع کر دیتے ہیں، نغمے گاتے ہیں، جمالیات کو جنم دیتے ہیں۔
حضرتِ انسان روزمرہ کی روٹین ، کام کاج یعنی کھیل کھلونے کو اسی سراب کیلئے استعمال کرتا ہے کہ ماحول کو گویا اپنے قابو میں رکھے ہوئے ہے، یہ چیز معمول بن جائے تو تنوع کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، پھر وہ پرندوں کی طرف پرواز کو اٹھتا ہے، ذہن اور لاشعور مل کر پروں کا کام دیتے ہیں اور وہ مجازی حقیقت کو تخلیق کرنے نکل پڑتا ہے۔ موسیقی، فلسفہ، سائنس، ادب اور دیگر تمام تخلیقی شاہکار اسی کا نتیجہ ہیں کہ فرد حقیقت پہ قابو پانے کی خواہش میں نئے نئے کھیل ایجاد کرتا جا رہا ہے، کھیل میں پیچیدگی جتنی زیادہ ہوگی وہ اتنا ہی پرلطف ہوگا، پرواز جتنی بلند ہوگی، تخلیق اتنی ہی شاندار اور دیرپا ہوگی، یہاں بقا اور تولید ثانوی حیثیت میں چلے جاتے ہیں۔
حقیقت پہ قابو پانے کا شوق نیند میں بھی جاری رہتا ہے، خواب میں یہ سخت حقیقت اس حد تک نرم پڑ جاتی ہے کہ اشارہ ابرو سے اسے، جس سمت چاہیں، موڑا جا سکتا ہے۔
حقیقت پر ظاہری کنٹرول کا سراب اگر ہاتھ سے چھوٹ جائے تو فرد اپنے تخیل میں شطرنج سجا لیتا ہے، وہاں ایک دوسری بازی شروع ہو جاتی ہے جس کا بیرونی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، ہم میں سے کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو اپنے خیالوں میں کئی کئی زندگیاں گزار رہے ہیں جس کی بھنک بھی کسی کو نہیں پڑتی، بیرونی دنیا میں شکستیں جس قدر زیادہ ہوں گی، خیالاتی دنیا میں اتنی ہی وسیع بازی بچھی ہوگی، اس تخیلاتی حقیقت کو تخلیق کرنے کے پیچھے کسی بھی صورت حقیقت پر قابو پانے کی خواہش ہے، بس محسوس ہونا چاہیے کہ حقیقت قابو میں ہے چاہے یہ کوئی من گھڑت حقیقت ہی کیوں نہ ہو ، یہیں سے انٹروورٹس اور ایکسٹروورٹس کی شخصیت کا موازنہ کیا جا سکتا ہے۔
اصلی حقیقت تلخ اس لئے ہے کہ وہ قابو میں نہیں اور قابو میں اس لئے نہیں کہ وہ ” شہ رگ” سے بھی زیادہ قریب ہے، مصنوعی یا من گھڑت حقیقت چونکہ ہاتھ کے فاصلے پر ہے اس لئے وہ قابو میں ہے اور اسی لئے پرکشش اور من بھاؤنی بھی، فرد اسی مصنوعی حقیقت میں خود کو زیادہ مطمئن محسوس کرتا ہے ، گویا کہ سب کچھ کنٹرول میں ہے۔
اصل حقیقت قابو میں کیوں نہیں؟
اس سوال کا جواب دنیا کا ہر ذی شعور انسان جاننا چاہتا ہے لیکن جواب ندارد ، بس زیادہ سے زیادہ اتنا کہا جا سکتا ہے کہ اصل حقیقت کو قابو کرنے کا ایک ہی طریقہ ہم جانتے ہیں، اور وہ طریقہ ہے ،
مجھے چاہیے،
مجھے دے دو،
میرے حوالے کر دو۔۔۔
اب ہر اس مطالبے کے سامنے ایک بڑا، نہیں اور کیوں ، موجود ہے ، جیسا کہ
نہیں دیتا
کیوں دے دوں۔۔۔۔وغیرہ
ہمارا یہ طریقۂ واردات حقیقت کی پہلی صف، جہاں آہنی منجنیق نصب ہے، پہ سیدھا سیدھا حملہ ہے، نتیجے میں ہم اپنا سر پھڑوا بیٹھتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حقیقت کو قابو میں لانے کی انسان کی اس دیرینہ خواہش کے نئے طریقے دریافت کئے جائیں، جو دوستانہ ہوں۔
لیکن وہ دوستانہ طریقے کیا ہو سکتے ہیں ؟
اسی دریافت سے نئی دنیاؤں کا بند دروازہ کھولا جا سکتا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں