لاشوں کو نوچنے والے گِدھ۔۔نعیم احمد باجوہ

اشرف نام رکھا گیا تھا۔ نیک تفاؤل یہی تھا کہ معاشرے میں شرف پا سکے گا۔ عزت و قار سے جئے گا۔ اشرف نے شرف قائم رکھا اور غربت کے باوجود کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے ، چوری اور ڈاکہ ڈالنے کے بجائے مزدوری کو ترجیح دی۔لیکن کیا خبر تھی کہ یہی غربت اس کا قصور بن جائے گی۔ سینکڑوں لوگوں کے بیچ مارا جائے گا لیکن کوئی پرسان حال نہ ہوگا۔ اس ہجوم میں کوئی رجل رشید نہیں ہوگا جو ظالموں کا ہاتھ روک سکے۔ شک کی بنا پر شغل ہی شغل میں ایک انسانی جان چلی گئی۔ لیکن ان انسان کہلانے والوں میں انسانیت کی اتنی سی رمق بھی باقی نہیں تھی ایک مزدور کو قتل کرنے کے بعد اس کی ننگی لاش کو ڈھانپ سکتے۔ پتوکی میں شادی کے موقع پر باراتیوں کے ہاتھوں مرنے والے ایک پاپڑ فروش مزدور اشرف کی لاش معاشرے کا ننگ ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے۔ لش پش کرتے جوڑے پہنے ، خوش گپیوں میں مصروف لاش کی موجودگی میں کھانے سے لطف اندوز ہونے والےسینکڑوں افراد کا مجمع کسی صورت انسان کہلانے کا حق دار تو نہیں ہا ں انہیں نعشوں کو نوچنے والے گدھ ہیں ضرور کہا جا سکتا ہے۔دنیا میں کتنے ہی انسان ایسے ہیں جن کے تن پر لباس نہیں ہوتا اور کتنے لباس ایسے ہیں جن کےاندر انسان نہیں ہوتا۔ بدقسمتی سے اس معاشرے میں ایسے لباس بڑھتے جا رہے ہیں جن کے اندر انسان نام کی کوئی مخلوق موجودنہیں ہوتی۔اشرف کے چہرے پر بھنبھناتی مکھیاں دراصل اس معاشرے کے چہرے پر بھنبھناتی جہالت، کم ظرفی، تذلیل اور بے شرمی کی مکھیاں ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ مکھیاں روز بروز بڑھتی جاتی ہیں۔ اور کوئی اس کو روکنے والا نہیں۔ ریاست مدینہ کے نام پر کاروبار سیاست چمکانے والے بے حس اور جذبات سے عاری روبوٹ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ریاست مدینہ کی بنیادی اینٹ ہی شرف انسانی کے قیام کی تھی۔ جہاں معاملہ بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کا ہو یا غلاموں کی تذلیل کا، بات گھریلو تشدد کی ہو یا عورتوں کی کمتری کی۔ریاست مدینہ کے بنیادی اصول شرف انسانی قائم کرتے گئے اور ایک فلاحی ریاست مستحکم ہوتی چلی گئی۔
صد حیف کہ معاشرے میں تشدد کے رویے کو ایک منظم طریق پر پروان چڑھایا گیا ہے ۔ مذہب کے نام پر تقسیم در تقسیم کے عمل کو جاری کرکے عدم برداشت اور عدم رواداری کو بڑھاوا دیا گیا۔ صرف عقیدے کی بنیاد پر سینکڑوں معصوموں کی جان لی گئی لیکن کوئی اسے روکنے والا نہیں تھااور سلسلہ ابھی بھی تھما نہیں ۔ بلکہ روز بروز اس میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب جس تیزی کے ساتھ اجتماعی قتل کے واقعات بڑھ رہے ہیں اس سے یہی لگتا ہے کہ پورا معاشرہ ایک خونخوار درندے کی شکل اختیار کرتا چلا جارہا ہے جہاں کسی کو قتل کرنا اس کی نعش کی بے حرمتی کرنا ، گھسیٹنا، جلانا مُردوں پر تشد د کرنا ، نعش کو درخت سے لٹکا دینا ، پور پور کو توڑ دینا ، جب تک جسم کی آخری ہڈی سلامت رہے تشدد کرتے چلے جانا۔ عام ہوتا جاتا ہے۔ جیسے ہر کسی کو یہ اجازت نامہ تھما دیا گیا ہو کہ جہاں مرضی ا سے استعمال کرتا پھرے کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی
آج دنیا بھر میں نظر دوڑا کر دیکھ لیں کہ اجتماعی قتل کے جتنے واقعات پاکستانی معاشر ے میں ہو رہے ہیں اور جس شرح سے اس میں اضافہ ہو رہا ہےکیا کسی او رمعاشرے میں بھی ایسا رویہ پروان چڑھ رہا ہے۔ ایک بار پھر نظر دوڑا کر دیکھ لیں کہ دنیا بھر کے اسلامی ممالک کہلانے والے کتنے معاشرے آج ریاست مدینہ جدید بنانے کے دعویدار بن کر کاروبار ریاست و سیاست چمکا رہے ہیں ؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply