زندگی ناول یا ناول زندگی۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

اتفاق سے سے گذشتہ چند دنوں میں میں نے یکے بعد دیگرے تین ناول پڑھے۔ ایک اصغر ندیم سید کا اور دو ترجمہ شدہ، ایک ہندی سے ترجمہ کردہ بلکہ میں تو سمجھتا ہوں صرف اردو رسم الخط میں ڈھالا ہوا یعنی transcript اور یہ کام ارجمند آراء نے کیا جو اروندھتی رائے کے ناول ترجمہ کرتی ہیں، ایک بنگالی میں تحریر کردہ جسے انگریزی میں ڈھالا گیا پھر انگریزی سے اسے انعام ندیم نے اردو میں منتقل کیا اور اچھی طرح سے کیا۔
ان تینوں ناولوں میں داستان گو افراد ہیں۔ اصغر ندیم سید کے ناول میں رحیم بخش، سورج کا ساتواں گھوڑا میں مانک شا اور دوزخ نامہ میں مرزا اسداللہ خان غالب کے خدمت گار کلو کے علاوہ ناول کے دو بڑے کرداروں میں سے ایک کردار سعادت حسن منٹو بھی کہانی پر کہانی سناتے ہیں۔
اصغر ندیم سید کا ناول ” ٹوٹی ہوئی طناب ادھر ” حال ہی میں شائع ہوا ہے جبکہ ربیسنکر بال کا ناول بانگلہ بھاشا میں 2010 میں کلکتہ سے شائع ہوا تھا جبکہ بھارتی کا مختصر ناول سورج کا ساتواں گھوڑا 1980 کی دہائی کے اوائل میں شائع ہوا تھا۔ ممکن ہے ان تینوں نے اس نوع کے کردار سے متعلق ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے نے اکتساب کیا ہو یا ایک نے کیا ہو دوسرے نے ان دونوں کے ناول پڑھے ہی نہ ہوں یا تینوں نے اپنے اپنے طور پر سوچ کر یا زندگی میں پڑھے کسی بھی ناول میں موجود ایسے کردار سے متاثر ہو کر شامل کیے ہوں۔ ہاں ایک بات تو طے ہے کہ ناول میں موجود مختلف اور متنوع کہانیوں کو آپس میں باندھنے کی خاطر ایسے اک داستان گو کے موجود ہونے کی ضرورت رہتی ہے جبکہ جس ناول میں اس کے طے کردہ کرداروں کا تسلسل ہو اس کا داستان گو صرف مصنف ادیب ہی ہوتا ہے۔
اسی اثناء میں فیس بک سے معلوم ہوا کہ 24 اور 25 فروری کو محبی ڈاکٹر عابد قاضی صدر نشین شعبہ اردو بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان نے اپنے رفقاء کے ساتھ مل کر ” اردو ناول کے ڈیڑھ سو سال ” کے عنوان سے دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا ہے۔ میں مدعو نہیں تھا مگر شریک ہونے کی خواہش البتہ تھی۔
23 فروی کو لاہور لٹریری فیسٹیول کے آخری دن اپنے دوستوں وجاہت مسعود اور اصغر ندیم سید کے سیشنوں میں شرکت کرنی تھی جو میں باوجود بروقت تیار ہو جانے کے بوجوہ نہ کر سکا تھا۔ چنانچہ 24 فروری کو لاہور سے ملتان پہنچا۔ راستے میں ڈاکٹر عابد قاضی صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے درست کہا کہ مدعو اس لیے نہ کیا جا سکا کیونکہ آپ کے قیام بارے میں معلوم نہ تھا۔
25 فروری کو بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی کے شعبہ اردو پہنچا۔ ڈاکٹر عابد قاضی نے بڑھ کے قدم لیے اور چند لمحوں بعد میں ڈاکٹر محمد یوسف خشک، جو صدر محفل تھے، کے بائیں جانب بٹھا دیا گیا۔ ان کے دائیں جانب ان کی اہلیہ ڈاکٹر صوفیہ خشک تھیں جو اپنے طور پر لودھی پٹھان ہیں یوں لودھی، بلوچ اور مغل ادب کے میدان میں باہم ہو گئے اگرچہ میں اردو میں ڈاکٹر نہیں بلکہ طب میں ہوں۔ میرا میدان صحافت ہے مگر شاعری کی دو، تحقیقی دو اور دو جلدوں پر مشتمل خودنوشت، جن میں ایک جلد آنی ہے، لکھ چکا ہوں یوں انگریزی لفظ لٹریچر کی رو سے میں نان فکشن ادیب ٹھہرا۔
مگر ایسا نہیں کہ میں نے مرزا محمد ہادی رسوا سے لے کے اصغر ندیم سید کے ناول تک بہت سے پڑھ نہیں رکھے۔ پھر روسی اور فرانسیسی ادب مجھے بہت مرغوب رہا ہے جن میں سے بیشتر کو انگریزی میں اور کچھ کو اردو میں پڑھا جو سوویت یونین سے شائع شدہ ہوتے تھے۔ پھر روس میں طویل قیام کے دوران روسی زبان میں بھی پڑھ سکا۔ یوں اردو ناول کے ڈیڑھ سو سال بارے کانفرنس میں بجا طور پر شریک ہوا۔
مقالہ نگار زیادہ تھے مگر وقت کم۔ بالعموم مقالے پڑھنے کی بجائے زبانی گفتگو پر اکتفا کیا گیا۔ ساہیوال سے آئیں حناجمشید، ڈاکٹر محمد آصف اور ڈاکٹر شاہد نواز خوب اچھا بولے جنہوں نے بالترتیب انتظار حسین، عزیز احمد اور حسن منظر کے ناولوں پر بات کی۔ بعد میں خرم شہزاد نے مرزا اطہر بیگ کے ناول حسن کی صورت احوال پر اچھی بات کی۔ موخر الذکر ایم فل کے طالبعلم ہیں جن کا خیال تھا کہ نیا ادب تشکیک کو فروغ دے رہا ہے، یہاں میں ان سے اتفاق نہ کرنے کی جسارت کروں گا کیونکہ میرے خیال میں مجموعی ماحول دبدہا یعنی کنفیوژن کا ہے تبھی تو ادب میں کسی قصہ گو کو شامل کرکے یا تو پرانی کہانیاں سنائی جاتی ہیں یا بات بے وجہ پھیلائی جاتی ہے یوں کنفیوژن کا عنصر کسی حد تک دب جاتا ہے۔
میرے لیے باعث حیرت تھا کہ کسی نے بھی شمس الرحمان فاروقی کے ناول ” کئی چاند تھے سر آسماں ” کا ذکر نہیں کیا۔ اگرچہ مشرف عالم فاروقی اور رحمان عباس کا ذکر ضرور رہا۔ ڈاکٹر خشک نے یہ فرما کے قصہ تمام کیا کہ مقامی ادب کا تقابل مغربی ادب سے کیا ہی نہیں جانا چاہیے کیونکہ وہاں تعلیم و علم کی سطح بہت بلند ہے تبھی ان کی سوچ بھی بالیدہ ہے۔
بہرحال وسائل کی کمی اور مالی سرپرستی کے بغیر ڈاکٹر قاضی عابد اور ان کے رفقاء نے یہ کانفرنس منعقد کرائی اور ناول جس کے بارے میں عموما” بات نہیں کی جاتی پر بات بڑھائی۔ جوان لوگوں کی دلچسپی ظاہر کرتی تھی کہ وہ ادب سے بیگانہ نہیں ہیں اور جو ادب سے بیگانہ نہیں ہوتے وہ سماجی مسائل سے بھی مکمل آگاہ ہوتے ہیں۔ وہ ان مسائل کے اسباب و علل بھی جانتے ہیں اور ادب تخلیق کرکے اسے پڑھنے والے لوگوں تک پہنچا بھی سکتے ہیں کیونکہ ادب دیر تک قائم و موثر رہتا ہے جبکہ خبر کا اثر کم اور عارضی ہوتا ہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply