اخلاقی نفسیات (16) ۔ سیاسی آراء/وہاراامباکر

ایک بہت چھوٹا سا کام۔ آپ نے نیچے دیے گئے الفاظ کے جوڑے میں سے دوسرے لفظ کو دیکھنا ہے اور بتایا ہے کہ یہ اچھا ہے یا برا۔

Advertisements
julia rana solicitors

پھول ۔ خوشی
نفرت ۔ روشنی
محبت ۔ کینسر
مکھی ۔ افسردگی
یہ بہت ہی آسان سی مشق ہے لیکن تصور کریں کہ آپ کو یہ کام کمپیوٹر پر کرنے کو کہا جائے۔ پہلا لفظ چوتھائی سیکنڈ کے لئے آپ کے سامنے فلیش ہو اور اس کے فوری بعد دوسرا۔ تجربات بتاتے ہیں کہ اگر اس صورت میں روشنی اور کینسر کے بارے میں فیصلہ کرنے میں خوشی اور افسردگی کے مقابلے میں زیادہ دیر لگتی ہے۔
اس اثر کو affective priming کہا جاتا ہے۔ پہلا لفظ آپ کے ذہن کو ایک سمت میں ہلکا سا جھکا دیتا ہے۔ اگر دوسرا لفظ اسی سمت کا ہو تو اس کے بارے میں فیصلہ جلد لے لیا جاتا ہے۔ اگر “نفرت” کا لفظ پہلے آیا تو روشنی کو مثبت کہنے میں زیادہ تاخیر ہوتی ہے۔ اور یہ فرق تقریبا 250 ملی سیکنڈ کا اضافی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نفسیات میں یہ بہت معلوم fact ہے۔ اور اسی کو استعمال کر کے سوشل سائیکولوجسٹ نے لوگوں کے تعصبات کا پتا لگانے کے ٹیسٹ بنائے ہیں۔ اگر آپ خود اپنے تعصبات جاننا چاہیں تو ماہ زرین بناجی کا تیار کردہ Implicit Association Test ہے جس کو آن لائن لیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ فربہ لوگوں، بوڑھوں، سیاہ فام، غیرملکی یا کسی اور گروپ کے بارے میں تعصب رکھتے ہیں تو ایسے لوگوں کی تصویر دیکھنے کے فوری بعد مثبت الفاظ پہچاننے میں کچھ زیادہ وقت لگائیں گے۔ (خود اپنی حرکت کو سست ہوتا دیکھنا کئی لوگوں کو بہت چونکا دیتا ہے کیونکہ ہم اپنے تعصبات سے خود زیادہ واقف نہیں ہوتے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب فرض کیجئے کہ آپ کے ذہن کا اندرونی ہاتھی بوڑھوں کے بارے میں تعصب رکھتا ہے اور ان کو دیکھ کر دوسری طرف جھکنے لگتا ہے تو پھر ہمیں یہ توقع ضرور رکھنی چاہیے کہ اپنے سیاسی یا نظریاتی مخالفین کے ساتھ بھی یہ اثر ہو گا اور اس سے زیادہ گہرا ہو گا۔
اس کی پیمائش جامی مورس نے کی۔ گرما گرم سیاسی الفاظ اور سیاسی شخصیات کو دکھا کر یہ ٹیسٹ بہت آسانی سے یہ دکھا دیتا تھا کہ کون لبرل ہے اور کون کنزرویٹو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آرا بنانے کے بدیہی طریقے پر ایلکس ٹوڈورو کا کام اس پر تھا کہ ہم لوگوں کے بارے میں تاثر کیسے بناتے ہیں۔ جب انہوں نے کام شروع کیا، اس سے پہلے اس بات پر بہت کام ہو چکا تھا کہ ہم جاذبِ نظر لوگوں کو زیادہ سمارٹ اور نیک تصور کرتے ہیں۔ اور خوبصورت چہرے کو شک کا فائدہ دینے کو تیار رہتے ہیں۔ مقدمے میں جیوری کی طرف سے خوبصورت ملزم کو قصوروار قرار دینے کا تناسب کم ہے اور قصوروار قرار دے دئے جانے کے بعد جج کی طرف سے سزا کم دی جاتی ہے۔
ٹوڈوروو نے دریافت کیا کہ معاملہ صرف جاذبِ نظر ہونے کا نہیں۔ انہوں نے امریکی ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ کے امیدواروں کی تصاویر اکٹھی کیں۔ اس میں جیتنے والے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار تھے۔ جیتے اور ہارنے والے امیدواروں کی تصاویر لوگوں کو دکھا کر پوچھا کہ کون شخص زیادہ قابل لگ رہا ہے۔ اس کی سیاسی جماعت یا کسی اور چیز کا ذکر نہیں کیا۔ انہوں نے معلوم کیا کہ وہ امیدوار جو شکل سے زیادہ قابل لگ رہے تھا، اس میں دو تہائی وہ تھے جو انتخاب جیت گئے تھے۔
پہلی نظر میں قائم کردہ رائے کسی کے جاذبِ نظر یا پسندیدہ ہونے کی اتنی نہیں تھی بلکہ کسی کو دیکھ کر مجموعی طور پر پیدا ہونے والے مثبت خیال کی تھی۔ ہم میں کئی طرح کے جبلی احساسات پیدا ہوتے ہیں۔ اور ہر کوئی اپنی الگ طرح کی انفارمیشن پراسسنگ کرتا ہے۔
اور اس سے عجیب؟ جب ٹوڈوروو نے لوگوں کو اپنی رائے دینے پر اس وقت مجبور کیا جب تصور صرف ایک سیکنڈ کے دسویں حصے کے لئے ان کی آنکھوں کے آگے لہرائی گئی؟ (یہ اتنا وقت ہے جب کسی کا باقاعدہ طور پر جائزہ نہیں لیا جا سکتا)۔ اس صورت میں بھی نتائج ویسے ہی رہے۔
یعنی کہ ہمارا ذہن جو کچھ بھی کر رہا ہے، فوری طور پر کر رہا ہے۔ ویسے ہی جیسے ہم بصری سراب کا شکار ہوتے ہیں۔
اس کا خلاصہ یہ کہ انسانی ذہن مسلسل ہر وقت ہر شے کو پراسس کر رہا ہے اور اس کے مطابق ردِعمل دے رہا ہے۔ کسی کو دیکھتے ساتھ ہی، کسی آواز کو سنتے ہی، کسی شخص سے ملاقات کرتے ہی ذہن کا ہاتھی کسی ایک طرف جھکنے لگتا ہے۔ اور اس کا یہ والا جھکاوٗ اس بات پر بہت اثرانداز ہوتا ہے کہ ہم کیا سوچیں گے اور کیا کریں گے۔ یہ اثر اس سے زیادہ ہے جتنا ہم تسلیم کرنا چاہیں گے۔ لیکن intuition سب سے پہلے اپنا کام کرتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ہاں۔۔۔ صرف میری اور آپ کے سیاسی یا نظریاتی مخالف کی ہی نہیں۔ آپ کی اپنی بھی۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply