میرا آج کا کالم مولوی اسماعیل مرحوم کے نام ہے۔ مولوی اسماعیل مرحوم ایک مشہور دیوبندی مناظر تھے۔ فیصل آباد والے آج بھی انہیں اچھی طرح جانتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ شیعوں کے ساتھ مناظرے کرتے کرتے بعد میں وہ خود ہی شیعہ ہوگئے۔ جب وہ شیعہ ہوئے تو دور دور سے لوگ انہیں دیکھنے اور ملنے آیا کرتے تھے۔ اُن ملنے والوں میں اُن کی ایک خالہ بھی تھیں۔ وہ جب ملنے آئیں تو مولوی صاحب کو دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔ یوں کہیے کہ خوشی کے مارے پھولے نہ سماتی تھیں۔ واپسی پر سب سے کہتی تھیں کہ حد ہوگئی ہے، ان بدبخت لوگوں نے ویسے ہی مشہور کر دیا ہے کہ اسماعیل شیعہ ہوگیا ہے۔ میں نے خود جا کر دیکھا ہے اور اس سے مل کر آئی ہوں، اُس کے کان پہلے کی طرح چھوٹے چھوٹے ہیں، اگر وہ شیعہ ہوتا تو اُس کے کان بھی گدھے کے کانوں کی طرح لمبے ہوچکے ہوتے۔ مولوی اسماعیل صاحب کے کان لمبے کیوں نہیں ہوئے، اس پر ہمیں بھی تعجب ہے۔ یہ تعجب بالکل اُسی طرح کا ہے جیسا کہ شام کے لوگوں کو یہ سُن کر ہوا تھا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ مسجد میں قتل ہوگئے۔ لوگ حیرانگی کے ساتھ ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کہ کیا علی ؑ مسجد میں بھی جاتے تھے۔؟
بالکل ایسا ہی تعجب واقعہ کربلا کے بعد بھی اہلیانِ کوفہ و شام کو اُس وقت بھی ہوا تھا کہ جب انہوں نے یہ سُنا کہ حسینؑ ایک باغی نہیں بلکہ دینِ اسلام کا وارث اور آخری نبیؐ کا نواسہ ہے۔ پروپیگنڈوں کا یہ سلسلہ، صدیوں سے علی ؑ اور شیعانِ علیؑ کے خلاف مسلسل جاری ہے۔ راقم الحروف نے بچپن سے شیعہ حضرات کے بارے میں یہ سُنا اور بار بار سُنا، مسجد کے مولوی صاحب سے، سکول کے ماسٹر صاحب سے، ہمسائے کی بیوی سے، دادی امّاں، نانی امّاں۔۔۔ سمیت سب نے یہی کہا کہ شیعہ عقیدے کے مطابق وہ مُردے کو قبر میں رکھنے کے بعد ایک ڈنڈا لیتے ہیں اور اُس کے ساتھ لاش کی بے حُرمتی کرتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی بڑی رازداری سے سمجھایا جاتا کہ شیعہ عقائد میں بندے کھانا مستحب ہے۔ دس محرّم کو شیعہ حضرات لوگوں کو پکڑ کر امامباڑے میں لے جاتے ہیں اور اُن کا خون چاولوں پر ڈال کر کھاتے ہیں۔ جب ہم سہم جاتے تو کہا جاتا کہ کہیں شیعوں کو کسی کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھنے دینی، چونکہ وہ پانچویں رکعت میں مُردے پر لعنت کرنے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔
ہمیں سانس لینے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا تھا، ہم جیسے جیسے شیعوں سے خوفزدہ ہوتے جاتے تو ویسے ویسے ہمارے علم میں قسمیں کھا کھا کر اضافہ کیا جاتا کہ شیعوں کے قرآن کے چالیس پارے ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی کوئی صاحب یہ لقمہ بھی دے دیتے کہ شیعہ تو حضرت محمدﷺ کو اپنا نبی نہیں مانتے، وہ کہتے ہیں کہ جبرائیل نے وحی کو خیانت کرکے حضرت علی کرم اللہ وجہ کے بجائے حضرت محمدﷺ کو دیا ہے۔ لہذا شیعہ جب نماز ختم کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ جبرائیل نے خیانت کی۔ بڑے ہی طمطراق سے یہ اعلان بھی کیا جاتا کہ شیعہ صحابہ کرام ؓ کو نہیں مانتے۔ شیعوں کے کفریہ عقائد یہیں پر ختم نہیں ہوتے تھے بلکہ ہمیں یہ بھی سمجھایا جاتا کہ شیعہ عقائد میں زنا ایک مستحب کام ہے اور وہ شامِ غریباں میں اکٹھے ہو کر یہ کام کرتے ہیں۔ کچھ حضرات تو ببانگِ دہل عینی شاہد ہونے کا دعویٰ بھی کر دیتے تھے۔ جب ہم سخت حیرت میں ڈوب جاتے تو ہمیں انتہائی رعب سے کہا جاتا کہ خبردار شیعوں کی کسی مجلس یا جلوس کو دیکھا تو نکاح ٹوٹ جائے گا۔
اب اس نکاح کے ٹوٹنے سے اصل بات شروع ہوتی ہے۔ یہ باتیں سُن سُن کر ہمارے دوست سجاد مستوئی صاحب کی طرح ہمیں بھی اپنے نکاح کے بارے میں ایک تجسس سا ہوگیا تھا۔ تجسس یہ تھا کہ ابھی تو ہماری شادی وغیرہ ہوئی نہیں تو پھر نکاح کیسے ٹوٹے گا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ ہمارے علاقے یا رشتے داروں میں کوئی نام کا شیعہ بھی نہیں تھا کہ جسے دیکھ کر شادی سے پہلے نکاح ٹوٹنے کا تجربہ کیا جاتا۔ خیر ہمیں تو اس نکاح والے تجسس نے ہی شیعہ عقائد کے بارے میں جاننے پر ابھارا۔ ہمارے لئے سب سے پہلا سوال یہ تھا کہ عقیدہ کسے کہتے ہیں۔؟ آیا وہ باتیں جو لوگ دوسروں کے بارے میں خود سے کہتے ہیں، وہی عقیدہ ہوتی ہیں یا دوسروں سے پوچھنا چاہیئے کہ آپ کا کیا عقیدہ ہے۔؟ سوال بنیادی ہے لیکن مکمل نہیں۔ مکمل سوال یہ ہے کہ عقائد کا منبع کیا ہوتا ہے اور لوگ کہاں سے عقیدہ لیتے ہیں۔؟ دادی امّاں، نانی امّاں، ہمسائی، دکان والا موٹو اور چائے والا چھوٹو، مولوی صاحب اور ماسٹر صاحب جو کہتے ہیں، وہ عقیدہ ہوتا ہے یا نہیں۔۔۔! عقیدہ آخر کہاں سے لینا ہوتا ہے۔؟ اگر کہیں اور سے لینا ہوتا ہے تو پھر وہ کہیں اور کہاں ہے اور کون ہے؟؟؟ یہ سوچتے سوچتے ایک دن خیال آیا کہ عقیدہ تو اللہ کے رسولﷺ سے لینا چاہیئے۔
خیر وقت پر لگا کر اڑتا رہا، ہم سوچتے رہے اور ہماری زندگی میں ہی انفارمیشن ٹیکنالوجی نیز سوشل میڈیا نے تحقیق کیلئے لائبریریوں کی لائبریریاں ماوس کی ایک کلک کے نیچے لاکر رکھ دیں۔ علمی و تحقیقی دنیا میں یہ بہت بڑی تبدیلی ہے، لیکن اس سے بھی ہماری دادی اماں اور دادا ابو کی سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ آج بھی ہمارے ہاں مولوی صاحب، ماسٹر صاحب اور نانی اماں و دادی اماں کا تبلیغی مشن مختلف شکلوں میں جاری و ساری ہے۔ اس تبلیغی مشن میں ایک کہانی یہ بھی سنائی جاتی ہے کہ شیعہ مکتب کا بانی عبداللہ ابن سبا یہودی ہے۔ اس لئے شیعہ حضرات بھی یہودیوں کی طرح نسل پرستی کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ اب اہلِ تشیع کی نسل پرستی پر دو دلیلیں دادی جان اور نانی جان نے مشہور کر رکھی ہیں۔ ایک یہ کہ شیعہ حضرات حضرت علی کرم اللہ وجہ کو اس لئے پہلا خلیفہ مانتے ہیں، چونکہ وہ رسولﷺ کی نسل سے ہیں اور ان کے رشتے دار ہیں۔ اسی طرح رسول ؐ کے اہلِ بیت ؑ کی پیروی کرنے کو شیعوں کی نسل پرستی کہا جاتا ہے۔
ہمارے مطابق مسئلہ خلافت پر شیعہ حضرات کا عقیدہ چودہ سو سال سے عیاں ہے، لیکن اگر شیعوں کے کان گدھے کی مانند لمبے ہوسکتے ہیں، اُن کے ہاں چالیس پاروں کا قرآن ہوسکتا ہے، شیعہ شامِ غریباں کو معاذاللہ زنا کرسکتے ہیں، نماز کے بعد حضرت جبرائیل ؑ کو نعوذباللہ خائن کہہ سکتے ہیں، تو پھر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ خلافت کا معیار رسولِ خداﷺ کی رشتے داری کو قرار دیتے ہیں۔ ورنہ شیعہ عقائد میں رسولﷺ کی رشتے داری اور امامت و خلافت کا جو تصوّر ہے، وہ ہر منصف مزاج انسان بخوبی جان اور سمجھ سکتا ہے۔ واضح رہے کہ اہل تشیع کے ہاں خلافت و امامت کا معیار نبی کا بیٹا، بیٹی، بیوی، ساس، سسر، داماد اور پوتا و نواسہ وغیرہ ہونا ہرگز نہیں ہے۔ اگر کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ اہلِ تشیع کے ہاں خلافت و امامت کا معیار ہے تو وہ اپنے دعوے کیلئے دلیل پیش کرے۔
اہلِ تشیع کا اہلِ سنّت کے ساتھ اختلاف ہی نص کی بنیاد پر ہے۔ یعنی وہ یہ کہتے ہیں کہ دعوتِ ذوالعشیر سے لے کر میدانِ غدیر تک نبی اکرمﷺ نے متعدد موقعوں پر حضرت علی کرم اللہ وجہ کے خلیفہ ہونے کا اعلان کیا تھا۔ اُن کے ہاں یہ اعلان اور نص معیار ہے نہ کہ رشتے داری۔ نبیﷺ کے خاندان میں سے ہونا یہ ایک شناخت ہے، نہ کہ اُمّت کی رہبری اور خلافت کا معیار۔ جس طرح ہر بڑے انسان کے گھر والے اپنے خاندان کے بڑے فرد کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ نبی اکرمﷺ کے گھر والوں کو معاشرے میں نبیؐ کے ساتھ ان کے رشتوں کی وجہ سے پہچانا جاتا تھا کہ یہ اُن کی دُختر ہیں، یہ داماد ہیں اور یہ نواسے ہیں۔ معاشرے میں یہ شناخت سب کی ہوتی ہے، یہ شناخت منصبِ خلافت کیلئے ہرگز معیار نہیں ہے۔ بالکل جیسے کسی امامِ جمعہ کا داماد یا سسُر صرف داماد یا سُسر ہونے کی وجہ سے اُس کے منصب کا حقدار نہیں ہوسکتا تو اسی طرح نبی کی خلافت کا حقدار بھی کوئی اس طرح خاندانی رشتوں کی بنیاد پر نہیں بن سکتا۔
واضح رہے کہ نبی اکرمﷺ رشتے داری کی بنیاد پر حضرت علیؑ یا حضرت فاطمؑہ یا حضرت امام حسنؑ و حسین ؑکے فضائل بیان نہیں کرتے تھے۔ اگر نعوذباللہ نبی اکرمﷺ ایسا کریں تو یہ تو مقام رسالت و نبوت کے ہی خلاف ہے۔ نبی کریمﷺ صادق اور امین تھے، آپ کسی کے بارے میں حقیقت سے ہٹ کر کچھ نہیں کہتے تھے، حتی کہ ہنسی مزاح میں بھی آپ نے کبھی حق اور حقیقت کے سوا کچھ ارشاد نہیں فرمایا۔ یوں نہیں ہے کہ نبی اکرمﷺ رشتے داری کی بنیاد پر حضرت علی ؑکو بہادر اور شجاع کہتے تھے یا میدان غدیر میں من کنت مولا فھذا علی مولا کا اعلان رشتے دار و داماد اور چچا زاد ہونے کی بنیاد پر کر بیٹھے تھے، یا دعوت ذوالعشیر میں، یعنی اسلام کی پہلی دعوت تبلیغ میں جب نبی اکرمﷺ نے یہ اعلان کیا کہ اللہ وحدہ لاشریک ہے اور میں اس کا رسول ہوں، آج کے دن جو میری تصدیق کرے گا، وہ میرا جانشین بھی ہوگا اور وصی بھی، اس اعلان کے بعد یوں نہیں ہوا کہ حضرت علی ؑ بھی بغیر تصدیق کے خاموش بیٹھے رہے اور پھر بعد میں جب پیغمبر ؐ نے انہیں اپنی بیٹی دے کر داماد بنا لیا اور اس کے بعد ایک دم میدانِ غدیر میں یہ اعلان کر دیا کہ جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی ؑ مولا ہے، لہذا آو علیؐ کی بیعت کرو۔ ایسا ہرگز نہیں ہوا!!
رسولﷺ نے جو فرمایا، وہ قطعیاتِ تاریخ اور مسلماتِ تاریخ کے عین مطابق ہے۔ عقل و منطق اور تاریخ سے ہٹ کر بھی جو آدمی ختمِ نبوت پر ایمان رکھتا ہے، وہ یہ بھی ایمان رکھتا ہے کہ نبی اکرم ؑ نے حضرت علی ؑکے جتنے فضائل بیان کئے، وہ رشتے داری کی وجہ سے نہیں تھے بلکہ امام علیؑ حقیقت میں ایسے ہی تھے۔ اب رہی یہ بات کہ پیغمبر (ص) نے اپنے اہل بیت (ع) کی فضیلت کیوں بیان کی!؟ تو اگر کوئی آدمی دل کی گہرائیوں سے اس سوال کا جواب جاننا چاہے تو یہ واضح ہے کہ پیغمبر (ص) نے ان افراد کی (علیؑ و فاطمہ سلام اللہ علیہا و حسن ؑ و حسین ؑ) کی خود اپنے ہاتھوں سے اور اپنی آغوش میں تربیت کی تھی۔ یہ پیغمبر کی تربیت کے شہکار تھے اور پیغمبر (ص) ان کے وجود میں اپنی تربیت کے جوہر دیکھ رہے تھے۔ چنانچہ پیغمبر ﷺ ان کی تربیت کی وجہ سے ان کی فضیلت بیان کرتے تھے، نہ کہ اقربا پروری کی وجہ سے۔
پیغمبر نے ان کی جتنی بھی فضیلتیں بیان کیں، وہ پیغمبرﷺ کی سچی پیشین گوئیاں ثابت ہوئیں اور بعد ازاں ان شخصیات نے بھی اپنے کردار سے ثابت کیا کہ اللہ کے آخری اور صادق نبیﷺ نے ان کے بارے میں جو کچھ کہا وہ نسل پرستی اور رشتےداری کی بنیاد پر نہیں تھا بلکہ عین حقیقت پر مبنی تھا۔ اس میں کہیں بھی نسلی تعصب یا رشتے داری کا شائبہ تک نہیں۔ اگر صرف رشتے ناتے باعث نجات اور معیار ہوتے تو پیغمبرﷺ کی بیٹی فاطمہ ؑ نمازیں نہ پڑھتیں اور روزے نہ رکھتیں۔۔۔۔ امام علی ؑ جب نماز پڑھتے تھے تو آنسووں سے آپ کی داڑھی تر ہو جاتی تھی۔۔۔۔ امام حسن ؑ جب مصلیٰ عبادت پر کھڑے ہوتے تھے تو خوف خدا سے آپ کا رنگ زرد ہو جاتا تھا۔۔۔۔ حضرت امام حسین علیہ السلام عبادتِ خدا میں طولانی سجدے کرتے تھے۔۔۔ یہ سب کے سب سو فی صد رسولﷺ کے پیروکار، تابعدار اور فرمانبردار تھے۔ کیا یہ اطاعت ِخدا و اطاعتِ رسولﷺ ہے یا نسل پرستی اور اقربا پروری۔۔۔؟
کیا ان میں سے کسی ایک نے بھی کبھی یہ کہا کہ ہمیں عبادت کی کیا ضرورت، ہمارے لئے تو نبی اکرم ؐ کی رشتے داری ہی کافی ہے؟ یا کیا کبھی ہمارے نبی کریمﷺ نے یہ کہا کہ اے میرے اہلِ بیت آپ کو عبادت کی ضرورت نہیں یا آپ تھوڑی کم عبادت کریں تو بھی کافی ہے، اللہ کے ہاں میری رشتے داری تمہارے کام آئے گی۔؟ کبھی بھی ایسا نہیں کہا گیا۔ کتابِ خدا اور رسول ؐ کے فرمان کے بغیر کسی کو رشتے داری یا دوستی کی بنیاد پر امامت و خلافت کے عظیم منصب پر بٹھا دینا یہ قرآن و سنّت کے صریحاً خلاف ہے اور اس کا شیعہ عقیدے سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کے ساتھ ہی اہلِ تشیع کو یہودیوں کی طرح نسل پرست ثابت کرنے کیلئے یہ دوسری دلیل دی جاتی ہے کہ نسل پرستی کی بنا پر شیعہ عقیدے میں سیّد کی غیر سیّد سے شادی نہیں ہوسکتی۔ ہم اس کی وضاحت میں منصف مزاج محقیقین سے صرف یہ کہیں گے کہ پہلے یہ پتہ کر لیں کہ عقیدہ کسے کہتے ہیں۔؟ یہ مسئلہ اگر کہیں ہے بھی تو عقیدے کی بنا پر ہے یا سوشل آرڈر کی وجہ سے ہے۔
پھر اگر منصفانہ تحقیق کرنی ہے تو اپنی گلی محلے اور علاقے کے بجائے پڑھے لکھے سماج کی نبض پر ہاتھ رکھیں۔ اپنے ملک میں ہی گلگت و بلتستان میں جہاں اصیل، قدیم اور مہذب شیعت موجود ہے، وہاں کا تحقیقی دورہ کریں، شیعوں کے مجتہدین اور مراجع کرام موجود ہیں، ان سے پوچھ لیں نیز دنیا میں ایران کی صورت میں ایک واضح شیعہ ریاست موجود ہے، ایران میں آنے جانے والوں سے پتہ کر لیں کہ شیعہ سماج میں سیّد و غیر سیّد کی شادیاں ہوتی ہیں یا نہیں؟ آپ اس بات کو تحقیق کی بنیاد پر سمجھنے کی کوشش کریں کہ اہلِ تشیع کے ہاں سادات کی نسل پرستی ہے یا رسولﷺ کی نسبت کی وجہ سے احترام ہے؟ کیا ہم نہیں جانتے کہ کسی بھی عظیم شخصیت سے رشتے داری سماج میں ایک خاص احترام کا باعث بنتی ہے۔ جیسے ہمارے ہاں اگر کوئی یہ کہے کہ میں قائداعظم یا علامہ اقبال کا پوتا یا نواسہ ہوں تو اُسے مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، ہر باشعور پاکستانی کے دل میں اس کا احترام خود بخود پیدا ہو جائے گا۔
اسی طرح اگر کوئی نبی اکرمﷺ سے ایک نسبت یا رشتے داری رکھتا ہے تو صرف شیعہ ہی نہیں بلکہ ہر مسلمان کے دل میں اس کا احترام پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ احترام اپنی اپنی جگہ ہر شخص اپنے محسن کا کرتا ہے۔ نبی اکرمﷺ کو سارے مسلمان اپنا محسن مانتے ہیں، اس لئے سادات کا احترام خود بخود سبھی کرتے ہیں۔ اسی طرح یہ کہنا کہ سادات پوری کوشش کرتے ہیں کہ وہ شادیاں اپنے ہی قبیلے میں کریں تو ایسا فقط سادات کے ہاں مروّج نہیں ہے، ہر شخص یہی کوشش کرتا ہے کہ اُس کی شادی اپنی قوم اور قبیلے کے اندر ہو۔ اب رہی یہ بات کہ شیعہ مذہب یہودیوں کی طرح نسل پرستی کا مذہب ہے اور شیعہ حضرات امام علی ؑ کو اس لئے پہلا امام یا خلیفہ بلا فصل مانتے ہیں یا اوّل نمبر کہتے ہیں کہ وہ رسولﷺ کے داماد اور رشتے دار ہیں، تو یہ دعویٰ دادی امّاں یا دادا ابّو کی ہی ایک کہانی ہے۔
آخر میں راقم الحروف کی درخواست ہے کہ عقائد کا معاملہ انتہائی حسّاس معاملہ ہے۔ جب ہم کسی کے عقیدے کو غلط انداز میں پیش کر رہے ہوتے ہیں تو دراصل اس کے قتل کیلئے راستہ ہموار کر رہے ہوتے ہیں۔ سانحہ پشاور میں شہداء کے قاتلوں میں وہ سب لوگ بھی شامل ہیں، جنہوں نے آج تک اپنی زبان و بیان کے ساتھ معاشرے میں شیعہ عقائد کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلائیں اور بے گناہ انسانوں کے قتلِ عام کی راہ ہموار کی۔ دینِ اسلام سچائی کا پیکر ہے۔ پیغمبرِ اسلام کی پہچان ہی صادق اور امین ہونا ہے۔ اُن کا دیا ہوا دین بھی پاکیزہ، صادق اور امین ہے۔ لہذا ہمیں بھی ہر مسلمان سے صادق اور امین ہونے کی امید رکھنی چاہیئے۔ صداقت اور امانت کا تقاضا یہ ہے کہ بغیر تحقیق کے کسی کے بارے میں منفی پروپیگنڈہ نہ کیا جائے۔ اختلاف کیجئے لیکن تحقیق کے ساتھ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں