پاکستان کی تعلیمی ترجیحات کیا ہیں؟-تحریر/ڈاکٹر حفیظ الحسن

پاکستان کا 2022-2021 کے بجٹ میں تعلیمی بجٹ تقریباً 580 ملین ڈالر تھا جو پاکستان کے کل جی ڈی پی 364 بلین ڈالر کا محض 1.7 فیصد بنتا ہے۔ پاکستان کا کل بجٹ تقریباً 45 بلین ڈالر ہے جسکا مطلب یہ ہوا کہ تعلیمی بجٹ کل بجٹ کا محض 1.2 فیصد ہے۔ اسے یاد رکھیں 1.2 فیصد۔

اب آتے ہیں دوسری طرف۔ یہ ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ ملک کیا بندرگاہ ہے۔ اسکا کل رقبہ ہے 733 مربع کلومیٹر۔ گویا ہمارے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی سے بھی آدھا اور لاہور سے بھی کم۔ اس ملک کی آبادی ہے تقریباً 56 لاکھ۔ موازنے کے لیے زندہ دلانِ لاہور کل ملا کر اسکی آبادی سے بھی تعداد میں دگنے ہیں یعنی تقریباً 1 کروڑ 26 لاکھ۔

اس چھوٹے سے ملک کا جی ڈی پی کم و بیش پاکستان جتنا ہے یعنی 350 بلین ڈالر۔ مگر رکیں۔ پہلے یہ بتا دوں کہ اس چھوٹے سے ملک کا پاسپورٹ دنیا کے طاقتور ترین پاسپورٹوں میں شمار ہوتا ہے۔ جسکا مطلب ہے کہ اس ملک کے شہریوں کے لئے دنیا کے دروازے کھلے ہیں۔ یہ پاسپورٹ رکھنے والے دنیا کے 160سے زائد ممالک میں بغیر ویزے کے دندنا سکتے ہیں۔ جبکہ اسکے مقابلے میں پاکستان کا ہرا پاسپورٹ دنیا کے کمزور ترین پاسپورٹس میں شمار ہوتا ہے۔
پاکستان کے شہری اس ہرے پاسپورٹ کے ساتھ محض گنے چنے 31 ممالک میں ویزا کے بغیر جا سکتے ہیں۔ ان میں سے بھی کئی ممالک افریقہ کے ہیں یا بحِر اوقیانوس میں کچھ جزائر پر مشتمل ممالک جہاں جانا نہ جانا ایک برابر۔

جس چھوٹے سے ملک کی یہاں بات ہو رہی ہے اسکا نام ہے سنگاپور!! سنگاپور کا کل بجٹ تقریباً 78 بلین ڈالر ہے لیکن اسکا تعلیمی بجٹ ہے 13.7 بلین ڈالر۔ یعنی اسکے کل بجٹ کا تقریباً 18 فیصد!! جبکہ پاکستان کا تعلیمی بجٹ یاد ہے ناں؟ محض کل بجٹ کا 1.2 فیصد۔

آج دنیا کی بڑی سے بڑی ٹیکنالوجی کی کمپنیوں کے دفاتر سنگاپور میں ہیں۔ کئی بلین ڈالر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہیڈکوارٹر بھی سنگاپور کی بلند و بالا عمارات میں قائم ہیں۔ یہاں جدید سے جدید تحقیق ہوتی ہے۔ دنیا بھر سے ہونہار سائنسدان ، انجنیرز یہاں آ کر کام کرتے ہیں۔ یہاں کی تین بڑی یونیورسٹیاں سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں دنیا کی پہلی سو یونیورسٹیوں میں آتی ہیں۔ سنگاپور کی بڑی برآمدات جدید مشینری اور ٹیکنالوجی کی مصنوعات ہیں۔ یہاں آئے روز نئی سے نئی کمپنیاں اُن نئے سائنسی خیالات پر بنتی ہیں جو جدید سائنسی تحقیق کے ذریعے یہاں کی درسگاہوں میں فروغ پاتے ہیں۔

تو کیا وجہ نہ ہو کہ ایک ایسا ملک جو اپنے بجٹ کا ایک بڑا حصہ اپنے لوگوں کی تعلیم پر خرچ کرتا ہے، اُسے مہذب دنیا عزت نہ دے؟ اُس ملک کا پاسپورٹ دنیا کے طاقتور ترین پاسپورٹس میں سے نہ ہو؟ اور کیا وجہ ہو کہ ایک ایسا ملک جسکی ترجیحات میں تعلیم کا نمبر کہیں آخر میں محض خانہ پوری کے لیے آتا ہو، اُس ملک کے باشندوں کو دنیا عزت کی نگاہ سے دیکھے اور اُنہیں اپنے ممالک میں خوش آمدید کہے۔
قوموں کا اقوامِ عالم میں مقام اُنکی جدید دنیا سے ہم آہنگی سے جڑا ہے۔ یہ بدقسمتی ہی ہے کہ پچھلے پچھتر سالوں میں کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ جناب ملک کے لئے جدید تعلیم بھی ضروری ہے یا محض غربت اور جہالت کی حفاظت پر پیسہ خرچ کرنا، کھوکھلے حب الوطنی کے نعرے رٹوانا، اداروں کے تقدس کے لیے کرایے کی ریلیاں کرانا اور معاشی مظالم تلے گھٹ گھٹ کر مر جانا ہی اس ملک کا اور اسکے نوجوانوں کا مقدر بن چکا ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ: اعدادوشمار میں کمی بیشی ممکن ہے مگر پوسٹ کا مقصد نمبر رٹوانا نہیں، تعلیمی ترجیحات کا فقدان دکھانا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply