ریکوڈک-کیا عدالت اس کی ذمہ دار ہے؟۔۔آصف محمود

ریکوڈک کا معاملہ ان پیچیدگیوں میں سے ایک ہے جو پاکستان کے لیے مسئلہ بنی ہوئی ہیں۔اگر چہ ایسی خبریں بھی آ رہی ہیں کہ پاکستان اور ٹیتھیان کمپنی میں پچاس فیصد شیئرز کے فارمولے پر اتفاق رائے ہو گیا ہے اور اس آWٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ کے ذریعے پاکستان کی پریشانی ٹل جائے گی لیکن جب تک ایسی کوئی چیز حقیقت نہیں بن جاتی کچھ بھی کہنا قبل ا وقت ہو گا۔ پیچیدگیاں اب بھی موجود ہیں اور ان میں سے سب سے بڑی مشکل ٹیتھیان کی تازہ شرائط ہوں گی کیونکہ مقدمہ وہ جیت چکی ہے اور یہ ایک فطری بات ہے کہ جیتا ہوا فریق جب معاملہ کرتا ہے تو اپنی شرائط پر کرتا ہے۔دستیاب اطلاعات کے مطابق مالی معاملات کے علاوہ ٹیتھیان کی جو شرط ہے اس کا تعلق قانون سے ہے۔ سابقہ تجربے کی بنیاد پر اب وہ چاہتی ہے کہ اس کے ساتھ جو بھی معاملہ ہو اسے پورا قانونی تحفظ ہو۔

سوال یہ ہے کہ کمپنی کے اطمینان کی حد تک قانونی تحفظ کیسے دیا جائے گا ، کون سا راستہ اختیار کیا جائے گا،اور یہ کہ ایسا کوئی تحفظ کیا دیا بھی جا سکے گا۔ اس مشق میں کہیں کچھ ایسا نہ ہو جائے کہ پھر معاملات وہی رخ اختیار کر لیں جو ماضی میں ہو چکا۔ رکوڈک پر ہمارے ہاں جب بھی بات ہوئی ، اہل سیاست نے ، وہی روایتی طریقہ اختیار کیا، جس کا ہم بطور قوم شکار ہیں کہ کچھ اچھا ہوا ہو تو ہم ایک ہیرو کا بت تراش لیتے ہیں اور کچھ غلط ہوا ہو تو ہم قربانی کا ایک بکرا پکڑ لیتے ہیں اور سارا الزام اسی پر دھر کر دو منٹ میں بات ختم کر دیتے ہیں۔ہمارے ہاں اس سارے قصے کی ذمہ داری سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس پر ڈال دی جاتی ہے کہ یہ ان کا فیصلہ تھا جو قوم کو اتنے ارب ڈالر میں پڑا۔ یہ بحث سن کر بطور ایک طالب علم کے میں ، اکثر سوچتا کہ حکومتیں اگر غلط کریں تو کیا عدالت محض اس ڈر سے فیصلے نہ کرے کہ اس کے نتیجے میں مالی نقصان ہو جائے گا۔لیکن میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ہمارے استاذ گرامیا ور سابق سربراہ شعبہ قانون جناب ڈاکٹر عزیز الرحمن صاحب نے اسی نکتے کو اگلے روز اپنا موضوع بنایا۔ ان کی تحریر ایک رہنما تحریر ہے اور یہ ہر اس شخص کو پڑھنی چاہیے جو اس قصے کی قانونی مبادیات کو سمجھنا چاہتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:

Advertisements
julia rana solicitors london

عدالتی فیصلوں میں گریز یا فعالیت کی ہر دو صورتوں میں یکسوئی’ شمولیت’ شفافیت اور سب سے بڑھ کر انصاف کے پہلوؤں کو نمایاں ہونا چاہیئے۔ مگر اس سب کے باوجود جب بھی کسی ہائی پروفائل مالیاتی معاملے سے متعلق کیس میں عدالت فیصلہ دے گی تو اس کے اثرات کے بارے میں یہ تخمینے لگانا کہ اتنے کا نقصان ہوگیا یا پھر اتنے ارب کا فائدہ ہوگیا ہماری نظر میں ایک لغو سی بات ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ نقصانات کے تخمینے تو فورا ً لگا د یے جاتے ہیں کہ فلاں معاہدے کی منسوخی کی وجہ سے اتنے ارب روپے کا نقصان ہوگیا مگر ان کیسز میں جہاں معاہدوں کو لاگو کیا گیا کوئی تخمینہ نہیں لگاتا کہ فائدہ کتنا ہوا! مزید یہ کہ عدالتیں اگر یہ دیکھ کر فیصلے دینا شروع کر دیں کہ اس کے نتیجے میں کتنے ارب کا نقصان ہوگا تو پھر تو بھاری نوعیت کے کمرشل معاملات میں عدالتی فیصلے ہمیشہ ہی یکطرفہ ہوں گے۔ جسٹس افتخار چودھری پر کڑی تنقید کی جا سکتی ہے اور موصوف کی چھوڑی گئی جورسپروڈنس پر سنجیدہ نوعیت کا کام جاری رہنا چاہئے مگر کم از کم ریکوڈک وغیرہ جیسے معاملات پر یہ جو فضول قسم کا اعتراض سامنے آتا ہے کہ اس سے پاکستان کو اتنے ارب روپے کا نقصان ہوا یہ محض سطحی تجزیہ ہے۔ بین الاقوامی ثالثی کے معاملات میں پاکستانی عدالتوں کی مداخلت کی تاریخ افتخار چودھری سے بہت پہلے شروع ہوئی تھی۔ ہیٹاچی روپالی’ حب کو’ ایس جی ایس اور اس طرح کے کتنے ہی کیسز میں ہمارے عدالتیں کمرشل معاملات میں ثالثی کی شقوں کو ایک طرف رکھ کر مداخلت کرتی رہی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس طرح کے کئی معاملات میں کک بیکس’ کرپشن اور لاپرواہی کے پہلو نمایاں تھے جو بعد ازاں ان میں سے بعض کیسز میں renegotiate ہونے کی بنا پر واضح بھی ہو گے۔ بجلی پیدا کرنے والے پروجیکٹس کے ساتھ حکومت نے حال ہی میں جو نئی شروط کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کی ہے وہ بھی بہت سی ان کہی کہانیوں کا مظہر ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہمارے ہاں بوجوہ کرپشن وغیرہ کے الزامات کو منطقی انجام تک نہیں پہنچایا جا سکا اور جب اسی نوبت آنے بھی لگتی ہے تو آوٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ کر لی جاتی ہے۔ اس کی واضح مثال حب کو کا کیس ہے۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ ٹرینڈ کسی نہ کسی صورت میں دنیا کے دیگر ممالک میں بھی موجود ہے۔ بس فرق اتنا ہے کہ ہمارے ہاں یہ مداخلت بھی اکثر اوقات بھونڈے انداز میں کی جاتی ہے اور ہم زیادہ تنقید کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ ورنہ امریکہ میں فیڈرل ٹریڈ کمیشن ہو یا پھر آسٹریلیا میں ٹوبیکو پلین پیکجنگ کا کیس’ آپ واضح طور پر پبلک پالیسی کی بنیاد پر کمرشل معاملات میں عدالتی/نیم عدالتی مداخلت کو محسوس کر سکتے ہیں۔ ایک بات اور کہ ہم ملکی عدالتوں کے کمرشل معاملات میں خام اور الجھے ہوئے فیصلوں پر تنقید تو ضرور کرتے ہیں مگر بین الاقوامی ثالثی خاص طور پر International Centre for Settlement of Investment Disputes جیسے فورمز کے یکطرفہ چلن اور تعصبات کے بارے میں پوری دنیا میں جو تحقیقی مواد سامنے آ چکا ہے، اسے بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ پبلک انٹرنیشنل لاء کی طرح پرائیویٹ انٹرنیشنل لاء کا پورا فریم ورک بھی نوآبادیاتی تسلط کے دور کی پیداوار ہے اور جب اس فریم ورک کو مختلف اداروں اور معاہدوں کے تحت مسلط کیا گیا تھا، اس وقت ترقی پذیر اور غریب ممالک کی نمائندگی اور شنوائی نہ ہونے کے برابر تھی۔ اب ان معیارات اور معاہدوں کو مختلف اداروں کے ذریعے یہ کہہ کر پوری دنیا پر مسلط رکھنا کہ اگر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تو ان شرائط کو ماننا پڑے گا’ بدترین استحصال کا تسلسل ہے۔ غریب ممالک کے وسائل پر مقامی آبادیوں کے حقوق’ ماحولیات کا تحفظ’ لیبر کے حقوق’ پائیدار ترقی کے اہداف کا حصول وغیرہ کو نظرانداز کر کے سرمایہ کاری کے تنازعات کو محض کاغذی معاہدات کی بندش میں رکھ کر ان کی تشریحات اور تعبیرات کرنا اور اسے قانون کی پاسداری اور رول آف لاء کا عنوان دینا سطحی پن نہیں تو اور کیا ہے۔ ایسے اندھے اور سقم بھرے قانونی زاویہ فکر کا عدالتی مداخلت سے پرخچے اڑانا ہی بنتا ہے۔ حسرت ہی رہی کہ اس طرح کے سنجیدہ اور اہم معاملات پر کبھی پارلیمان میں بھی ایسی گفتگو ہو جسے ہم طالب علم شوق سے سنیں اور جسے سن کر گتھیاں سلجھ سکیں ۔ پارلیمان میں ہونے والی گفتگو کے معیار سے تو اب باقاعدہ خوف آتا ہے۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply