بازار حسن۔۔۔ محمد اسلم خان کھچی ایڈووکیٹ

انسان وقتِ پیدائش سے ہی مختلف رشتوں میں بندھ جاتا ہے۔مدت رضاعت تک اسے صرف ماں کے رشتے تک رسائی ہوتی ہے۔ یہ بھوک اور تحفظ کا رشتہ ہوتا ہے ماں اسکی بھوک مٹاتی ہے اور وہ اسکی آغوش میں تحفظ کی نیند سوتا ہے۔ اس وقت اسکی کُل کائنات ماں ہوتی ہے۔ جب وہ  تھوڑا بڑا ہوتا ہے غوں غوں کی آواز سے سب کو متوجہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تب اسے محسوس ہوتا ہے کہ ایک رشتہ اور بھی ہے اور وہ رشتہ شفقت ِپدری کی صورت میں اس کے سامنے آتا ہے۔ کبھی باپ کی انگلی پکڑ کے کھیلنا۔ ا نگلی کو منہ میں لے کے کاٹنے کی کوشش کرنا۔ وہ  باپ کا انتظار کرنے لگتا ہے۔ گردن گھما گھما کے باپ کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے۔  گزرتے شب و روز کے ساتھ وہ خود بھی بڑا ہوتا چلا جاتا ہے۔ غوں غوں کی آواز اب ” اماں “،” ابا ”  کی پکار  میں تبدیل ہو جاتی ہے۔  باپ کی انگلی پکڑ کے مسجد جانا اسکی زندگی کا خوش کُن لمحہ ہوتا ہے۔ چاہتا ہے کہ جلد سے جلد باپ جتنا بڑا جائے۔ باپ کی شخصیت کو مکمل طور پہ خود میں سمو لیتا ہے۔ حتٰی  کہ وہ باپ کی ہر عادت کو اپنانا چاہتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی چال بھی باپ جیسی بنا لیتا ہے۔
پھر وقت تبدیل ہوتا ہے۔ سکول سے کالج, کالج سے یونیورسٹی۔
یہاں سے اس کی نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ ماں باپ, بہن بھائی سب پیچھے رہ جاتے ہیں اور یہاں نئے رشتے بننا شروع ہو جاتے ہیں ۔جسے دوستی کا نام دیا جاتا ہے۔ سینکڑوں دوست ملتے ہیں لیکن چند ایک ہی ایسے ہوتے ہیں جن کے ساتھ وہ  مطمئن  محسوس  کرتا ہے اور شاید یہی اس کے عزیز ترین دوست ہوتے ہیں ،دوستی نام کے رشتے کی محبت کے سامنے سارے رشتے ماند پڑ جاتے ہیں۔
” دوست “کہنے میں تو یہ ایک چھوٹا سا رشتہ ہے لیکن اگر دیانتداری کے ساتھ اس رشتے کی محبت اور قربانیوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ رشتہ دنیا کے تمام رشتوں پہ حاوی ہے۔ ماں باپ بہن بھائی اس رشتے کے سامنے ماند پڑ جاتے ہیں۔ میرے بہت سے دوست شاید میری اس بات سے اتفاق نہ کریں لیکن اگر کبھی وقت ملے تو اکیلے بیٹھ کے ضرور سوچیے گا کہ سب سے قیمتی رشتہ کون سا ہے جس نے آپکے اچھے یا برے وقت میں ساتھ دیا۔۔۔۔ تو آپ کو آپکے کسی بہت ہی پیارے دوست کی شکل نظر آئے گی۔کیونکہ یہ رشتہ صرف محبت اور چاہت کی بنیاد پہ قائم ہوتا ہے۔ بے لوث, بلا لالچ, کھوٹ سے پاک۔
دنیا میں ماں کے رشتے سے بڑھ کے کچھ نہیں لیکن وقت کے ساتھ ماں کا رشتہ بھی ختم ہوجاتا ہے۔ صرف ممتا باقی رہ جاتی ہے
پنجابی کی ایک مثال ہے جسے اردو میں بیان کردیتا ہوں کہ ” ماں اس بیٹے کو سالن میں زیادہ بوٹیاں ڈال کے دیتی ہے جو کماؤ پوت ہے “۔
اور یہی ہر زمانے کی دردناک سچائی ہے۔
برے وقت میں بہن بھائی ماں باپ سب چھوڑ جاتے ہیں لیکن صرف ایک دوست ہی ہے کہ اگر آپ قتل بھی کر کے آجائیں تو وہ بڑی محبت سے آپکو کہیں پناہ دے کہ کہتا ہے ” پریشان نہ ہوا ﷲخیر کرے گا “۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں۔۔ کہ دوستی پیاز کی مانند ہے۔ پیاز کے مختلف پرت ایک دوسرے کے ساتھ محبت کے ساتھ جڑے رہتے ہیں۔ انہیں کسی اور Bond کی ضرورت نہیں رہتی لیکن اگر آپ اس پیاز کو کاٹ دیں تو سوائے آنسوؤں کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ میرے خیال میں دوستی کی اس سے خوبصورت تشبیہ  نہیں ہو سکتی۔
بہت سے لوگ موضوع کی طوالت کا شکوہ کرتے ہیں۔ شاید بور بھی ہو جاتے ہوں لیکن میری انتہائی کوشش کے باوجود موضوع طویل ہو جاتا ہے۔ میری اتنی لمبی تمہید باندھنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ دوست اس دنیا میں آپکا بہت قیمتی سرمایہ ہوتے ہوتے ہیں۔انکی ہمیشہ قدر کیجیے۔ کبھی انکی دل آزاری مت کیجیے۔ ہم کبھی جانے ان جانے میں اپنے کسی بہت پیارے دوست کی دل آزاری کا سبب بن جاتے ہیں۔
یقین کیجیے میرے لیے تو یہ ایک جان لیوا تکلیف کی مانند ہے کہ میری وجہ سے کسی کی دل آزاری ہو ۔
دوست آپ کیلئے اللہ رب العزت کا حسین تحفہ ہیں۔ میرے اوپر اللہ کریم کے بے پناہ احسانات اور عنایات ہیں۔ میں اس قابل بھی نہیں کہ جتنا کچھ مجھے وہ ذات کریم عطا فرماتی ہے۔۔ ۔لیکن میں پھر بھی سوچتا ہوں کہ اگر میں کبھی اس دنیا سے چلا جاؤں تو میرے جانے کے بعد اگر میرے بچوں کو کسی سہارے کی ضرورت ہوئی تو وہ سہارا دینے والا کوئی دوست تو ہو سکتا ہے۔ کوئی رشتہ دار نہیں۔۔
اگر میں اپنی زندگی پہ نظر ڈالوں تو نظر آتا ہے کہ میرے چند گنے چنے دوست ہیں۔ جو میری زندگی کا کل سرمایہ ہیں۔ لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میں روزانہ انکی دل آزاری کرتا ہوں ۔جانے انجانے میں دکھ پہنچا دیتا ہوں لیکن دوستوں کا بڑا پن ہے کہ وہ مجھے بخوشی ملتے ہیں۔ مجھے بے پناہ عزت دیتے ہیں میں انکا شکر گزار ہوں۔
یہاں میں میری طرف سے ہونے والی دل آزاری کی وجہ بھی بتا دیتا ہوں کہ میں سیاست پہ کچھ نہ کچھ لکھنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں جو کہ بہت سے دوستوں کی دل آزاری کا سبب بنتا ہے۔کبھی کبھی ان سے بحث بھی ہو جاتی ہے جس سے انکا دل دکھتا ہے چاہے وہ اسکا اظہار نہ کریں لیکن انسانی فطرت ہے کہ میری طرح ہر انسان اپنی مرضی کی بات سننا چاہتا ہے اور شاید میں اس معاملے میں “ڈنڈی ” مار جاتا ہوں۔
آپ یقین کیجیے۔ ۔
میرا کسی سیاسی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں۔میں کوشش کرتا ہوں کہ میرا تمام سیاسی تجزیہ بیلنسڈ ہو لیکن چونکہ میں رائٹر نہیں اور نہ کوئی کالم نگار ہوں اس لیئے میں سیاسی معاملات کے اظہار کو بیلنس نہیں کر پاتا۔ شاید اسکی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ میرا جھکاؤ عمران خان کی طرف ہے اور میری اس سے دو ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میں انجانے میں انکا قد بڑا کرنے کی کوشش کر جاتا ہوں۔۔
یہ سچ ہے کہ مجھے کسی حکمران سے کوئی غرض نہیں لیکن انداز حکمرانی سے ضرور ہے۔ حکمران کوئی بھی ہو بس مجھے پاکستان اور پاکستان کے بچوں کے روشن مستقبل سے غرض ہے ۔
73 سال سے ہم مختلف حکمرانوں کی چیرہ دستیوں کا شکار رہے ہیں۔ایوب خان سے یحییٰ خان, یحییٰ خان سے بھٹو ,بھٹو سے ضیاء الحق, ضیاء الحق سے سے نوازشریف۔ نوازشریف سے دختر جمہوریت, پھر پرویز مشرف۔
جمہوریت ہو ڈکٹیٹر شپ, سب کرپٹ نکلے۔جنرل رانی جیسی ہستیاں ہمارے ملک کے عوام کی قسمت کے فیصلے کرتی رہیں۔ صدارتی محل شراب و شباب کے اڈے بنے رہے
عوام کو صرف بے وقوف بنایا گیا کبھی روس افغانستان جنگ میں تو کبھی افغان امریکہ وار میں ۔اور ان ساری کہانیوں میں ہمارے ملک کے لیڈروں نے ڈکٹیٹر شپ کو مضبوط کرنے کیلئے ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ مجھے دختر مشرق کے الفاظ ہمیشہ یاد رہتے ہیں ” کہ میں نوازشریف کے مقابلے میں پرویز مشرف کو ترجیح دوں گی “۔یہ ہے ہمارے ملک کی خوبصورت جمہوریت اور ہماری جمہوریت کے کالے لوگ جنہیں ہم اپنا نجات دہندہ سمجھتے رہے ۔جنہیں ہم جیسے نا سمجھ لوگ شہید کہتے ہیں ۔سچ پوچھیے تو ان کے جرائم کی لسٹ بڑی طویل ہے۔
شراب کے نشے میں دھت اعلانیہ شراب پینے کا اعتراف کرنے والے ہمارے لیڈر رہے جو بعد میں کروڑوں سے تعمیر شدہ محل میں ابدی نیند سو کے شہادت کے حق دار کہلائے لیکن مون مارکیٹ کے بم دھماکے میں مرنے والوں کو دفن کرنے کی بجائے پانی سے دھویا گیا اور انکے اعضا کو گٹر کی گندی نالیوں میں بہا دیا گیا
1980 سے بوٹ چاٹ کے مارکیٹ میں لانچ کیا جانے والا جمہوری آدمی ہمارے ملک کا نیلسن منڈیلہ بنتا چلا گیا اور عوام ایک پلیٹ بریانی کی خاطر ناچتی چلی گئی اور 40 سال سے مسلسل ناچ رہی ہے اور انشا ء اللہ ناچتی رہے گی۔ کیونکہ جب کسی قوم کی غیرت و حمیت کا جنازہ نکل جائے تو پھر قوم کی معصوم بیٹیاں سربازار بکتے ہوئے بازار حسن کی زینت بنتی ہیں اور ایسا ہی لا اللہ الا اللہ کے نام پہ بننے والے ملک کے ساتھ پچھلے 73 سالوں سے ہو رہا ہے۔
کسی نے ملک توڑا تو کسی نے ملک لوٹا۔ کسی نے جمہوریت پہ شب خون مار کے ملک کو تباہ و برباد کیا تو کسی نے اس ملک کے معصوم لوگوں کو بیچ کے ڈالرز کمائے۔ کسی نے سرے محل خریدا تو کسی نے ایون فیلڈ۔
سائیکل کو پنکچر لگانے والے کھربوں کے مالک بن کے ہمیں معیشت پہ لیکچر دیتے ہیں اور ہم واہ واہ کرتے ہیں۔موٹر سائیکل پہ سفر کرنے والے دس سالوں میں اربوں کی جائیداد کے مالک بنتے ہیں لیکن ہم انکی گاڑیوں کو بوسے دیتے ہیں اور اداروں کو گالیاں دیتے ہیں کہ ان کو چھوڑ دیا جائے کیونکہ یہ ہمارے ” بہنوئی “ہیں۔
عجب سرزمین کے باسی لوگ ہیں اپنے گھر میں ڈاکہ ڈالنے والوں کی پوجا کرتے ہیں اور ملکی معیشت کی تباہی کا رونا روتے ہیں۔ شام کو گھر کے لان میں بیٹھ کے چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے ملکی حالات پہ تبصرہ کرتے ہیں کہ یار عمران خان نا اہل آدمی ہے۔ اس نے ملک تباہ کر دیا ,غریب سے روزی روٹی چھین لی لیکن خود ایمپورٹڈ چائے کے ساتھ ایمپورٹڈ بسکٹ کے ساتھ لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں۔ تین کروڑ کی Lexus میں بیٹھ کے غریب کی قسمت پہ روتے ہیں۔ کچی آبادیوں میں اس لئے نہیں جاتے کہ کہیں ڈینگی مچھر کا شکار نہ ہو جائیں۔ رہی سہی کسر کورونا نے پوری کر دی, پہلے غریب آدمی بیچارہ ہاتھ ملا کے تین تین دن فخر سے ہاتھ نہیں دھوتا کہ خان, قریشی, کھچی, دولتانہ سے ہاتھ ملایا ہے۔ کہیں ہاتھ سے فرانس کے ایمپورٹڈ خوشبو کی مہک ختم نہ ہو جائے ۔لیکن کورونا کے آنے سے وہ بیچارہ اس سعادت سے بھی محروم ہو گیا۔اب وہ گھر بیٹھ کے سارا دن ایک آس لگائے دروازے کی طرف تکتا رہتا ہے کہ میری جمہوریت مجھے اور بچوں کو بھوگ سے مرنے نہیں دے گی لیکن اس بیچارے کو کیا پتہ کہ جمہوریت تو خود کب کی مر چکی ہے۔ اگر کہیں سے دس روپے مل جائیں تو sooper بسکٹ کا پیکٹ خرید کے معصوم بچوں کو پانی کے ساتھ ایک ایک بسکٹ کھلا کے سلا دیتا ہے اور دوسرے دن پیٹ بھر کے کھانا کھانے کا وعدہ کرتا ہے اور جب دوسرے دن وعدہ پورا نہیں کر پاتا تو قبرستان میانی صاحب میں جا کے ماں کی قبر کے ساتھ خود کو آگ لگا کے ملک راہی عدم کا مسافر ہو جاتا ہے اس امید کے ساتھ کہ لوگ یتیموں کو کھانا کھلا ہی دیتے ہیں۔اور ہم دور کھڑے ویڈیو بناتے رہتے ہیں کہ ویڈیو سوشل میڈیا پہ ڈالیں گے, وائرل ہوگی ہمارے فینز کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔
مجرم ہیں ہم ان معصوم بچوں کے, ناداروں کے, اس معصوم بچی کے جو گھر سے کسی نوکری کا جھوٹ بول کے قحبہ خانے جاتی ہے اور ہم جیسے خونخوار درندے اسکا جسم بھنبھوڑتے ہیں ۔ شام کو آنکھوں میں آنسو سجائے شرمندہ شرمندہ سی تھکن سے چور گھر میں داخل ہوتی ہے اور گھر میں دال روٹی چلتی ہے۔ اپنے معصوم بدن کا درد کم کرنے کیلئے رات کو چپکے چپکے روتے ہوئے استری گرم کر کےاپنے پاکیزہ نازک اعضا کی ٹکور کرتی ہے اور دوسرے دن دوبارہ اپنے کام پہ چلی جاتی ہے اور بلا آخر ایڈز جیسی موذی مرض کا شکار ہو کے اللہ کے دربار میں ہم جیسے بھیڑیوں کی شکایت کرنے پہنچ جاتی ہے ۔
کیا دیا اس جمہوریت نے ہمیں ،ڈکٹیٹر شپ نے کیا تیر مارا۔ نہ ہم پرائمری سکول بنا سکے نہ ڈیم۔
73 سال میں بجلی پوری نہیں کر سکے،1947 سے 1969 تک تیزی سے ترقی کرنے والا ملک بھکاری بنتا چلا گیا۔
آخر کہاں پہ غلطی ہوئی ؟ کبھی سوچا ؟
ہاں ہمیشہ سنہرے خوابوں کی امید کا منجن بیچا گیا کیونکہ مفت میں مل رہا تھا تو ہم نے جھولیاں بھر بھر کے جمع کیا۔۔
صرف امید ملی جو کہ ہمیشہ کی طرح نا امیدی میں تبدیل ہوتی گئی۔
بچوں کو تعلیم نہیں ملی, بیماروں کو علاج نہیں ملا۔۔
بیسویں صدی میں بھی صاف پانی تک نہیں, روٹی نہیں, ابھی بھی تھر میں بچے بھوک سے مرتے ہیں۔
کتا کاٹ لے تو ویکسین نہیں،غریب کے گھر سے سائیکل چوری ہو جائے تو وہ مزدوری پہ جانے کیلئے قسطوں پہ 4 ہزار کی سائیکل خریدتا ہے۔
سائیکل کا ٹائر ڈلوانا پڑ جائے تو وہ آجر سے ادھار مانگتا ہے اور ہر ہفتہ 100 روپے اپنی مزدوری سے واپس کرتا ہے
پی ایچ ڈی پاس نوجوان ٹیکسی چلا رہے ہیں۔
لاکھوں جوان لڑکیاں خاندان کے پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے قحبہ خانوں پہ ٹھیکوں پہ دی جاتی ہیں
سفید پوش لوگ حسرت بھری نگاہوں سے بڑی بڑی گاڑیوں کی طرف دیکھ کے ٹھنڈی آہ بھر کے آسمان کی طرف دیکھتے ہیں۔۔۔۔
سونا اگلنے والی زمین بنجر ہو گئی،
ہزاروں نوجوان سنہرے مستقبل کے خواب سجائے اگلی دنیا سدھار گئے ۔
ہزاروں مائیں لاعلاج مر گئیں۔
لاکھوں بیٹیاں بن بیاہے دنیا سے رخصت ہو گئیں ۔پاکستان کے تمام حکمران امیر سے امیر تر ہوتے چلے گئے۔اور ہم غریب ہوتے چلے گئے
کیا بروز قیامت ہم سے اس ظلم و زیادتی کا سوال نہیں کیا جائے گا ؟
کیا منہ دکھائیں گے ہم جب رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش ہوں گے ؟
اللہ رب ذوالجلال کی قسم۔۔۔ ہمیں کرب ناک سزا دی جائے گی۔ اذیت ناک ناک سزا دی جائے گی۔ رسول ﷺ ہماری طرف دیکھنا بھی گوارہ نہیں کریں گے کیونکہ سب سے بڑے مجرم ہم ہی ہیں۔
ہم ناچے۔۔۔ ہم نے گاڑیوں کو بوسے دیئے ۔ہم نے بڑے بڑے مجرموں کو فنڈ دیئے کہ یہ حکومت میں آئیں اور ہمیں کوئی آٹھ نو سو ملین کا کنٹریکٹ دلا دیں گے۔ ہم باقاعدہ کرپشن کو سپورٹ کرتے ہیں۔ اس لیئے سب سے بڑے مجرم ہم ہیں اور ہمیں کو ہی جواب دینا ہے
اس بار بقول پوری قوم کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ کی طرح پھر عوام کے ساتھ ہاتھ کر گئی اور عمران خان کی شکل میں ایک نا اہل حکمران ہم پہ مسلط کر دیا
سنہرے مستقبل کے خواب دکھائے گئے۔ ایک ٹوٹی ہوئی امید دوبارہ جڑی کہ اب اس ملک کی قسمت سنور جائے گی, شاید ہم بھی جانوروں والی زندگی سے انسانی زندگی میں لوٹ جائیں۔
شاید ہمارے بچے مایوسی کی کیفیت سے نکل کے خوداعتمادی سے جی سکیں،شاید ہماری مائیں ہیپاٹائٹس جیسی عام بیماری سے موت کے منہ میں نہ جائیں،شاید ہم کوئی نئی سائیکل خرید لیں۔۔۔
بابا کی شہزادی کام پہ جانے کی بجائے عزت سے گھر میں بیٹھ کے سہانے سپنے سجائے اپنے ارمانوں کے شہزادے کا انتظار کرے۔
لیکن بے فکر رہیے۔ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔۔۔۔
کیونکہ ہمارا ملک جمہوریت کا علم بردار ہے،اور دوسرا ہم کام کی بجائے معجزوں پہ یقین رکھنے والی قوم ہیں۔ نوازشریف کو اللہ نے معجزے عطا فرمائے ہیں،وہ آئے گا،اور سب کچھ اچانک ہو جائے گا
رات کو سوئیں, صبح اٹھیں تو ڈالر 30 روپے کا ہو جائے گا،پٹرول 13 روپے فی لٹر ہو جائے گا،چینی بازار میں 10 روپے کلو بک رہی ہو گی،ادارے ورکرز ڈھونڈ رہے ہوں کہ پاکستان میں مین پاور کی کمی ہو گئی ہے۔۔سٹاک مارکیٹ 100,000 پوائنٹس پہ پہنچی ہوئی ہو گی،ڈھائی کروڑ بن بیاہی بچیوں کی شادی ہو جائے گی۔قحبہ خانے, شراب خانے راتوں رات ملیا میٹ ہو جائیں گے۔
لیکن اب ایسا ممکن نہیں کیونکہ عمران خان جو آگیا ہے،اسٹیبلشمنٹ نے ہم پہ  ظلم کر دیا۔
ایک زانی, شرابی, نشئی, عیاش, پلے بوائے ٹائپ انسان کو اس پاک ملک اور عظیم مذہبی قوم کا حکمران بنا دیا اور قوم بھی وہ جو لائین میں لگ کے, مذہبی فریضہ سمجھ کے ٹیکس ادا کرتی ہے۔۔۔
رات کو کندھے پہ آٹے کے تھیلا اٹھا کے کسی غریب بیوہ کے دروازے پہ خاموشی سے رکھ کے آتی ہے۔۔۔
اتنی عظیم قوم ہے کہ کورونا جیسی وبا کے دوران میرے اس عظیم ملک کا ایک معصوم بچہ بھی بغیر دودھ پیئے نہیں سویا کیونکہ ہم اپنے گھر جانے سے پہلے ہمسائے کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا کے دودھ کا پیکٹ پکڑا دیتے ہیں۔جب زکوۃ دینے کا وقت آتا ہے تو ہم ڈھونڈ ڈھونڈ کے زکوۃ دیتے ہیں۔کسان عشر لے کے پھرتا ہے لیکن کوئی لینے والا نہیں ملتا۔۔۔
لیکن کتنے ظلم کی بات ہے کہ اتنی عظیم قوم پہ اسٹیبلشمنٹ نے عظیم قوم کے ساتھ فراڈ کر کے ایک نا اہل, سلیکٹڈ, زانی, شرابی, گمراہ , چرسی کوکینر,عیاش پلے بوائے کو ہم پہ مسلط کر دیا ۔
لیکن۔۔
میں عمران خان کو پسند کرتا ہوں کیونکہ میں بھی شرابی, زانی, چرسی گمراہ اور گنہگار انسان ہوں لیکن ہم دونوں جتنے بھی گنہگار ہوں آپ لوگوں کی اچھی خوبیوں میں سے ایک خوبی ہم میں بھی ہے کہ ہم دونوں رسول اللہ ﷺ سے بے پناہ عشق کرتے ہیں ۔مجھے عمران خان پہ اس دن بہت پیار آیا جب اس نے پوری دنیا کے سامنے کہا کہ ہم نبی کریم ﷺ سے عشق کرتے ہیں , ان سے عشق کے بغیر ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوتا ۔
بس یہی بات میرے دل کو بھا گئی۔
باقی رہی ملکی ترقی اور دنیا داری کی بات ,کم از کم مجھے تو عمران خان کی قیادت میں پاکستان کیلئے کچھ امید کی کرن نظر آتی ہے۔ اس نے دنیا کے سامنے ناموس رسالت ﷺ کا معاملہ اٹھایا جو میرے جیسے گنہگار انسان کو بہت بھایا۔اور بھی بہت شاندار فیصلے ہیں جو اس نے کیے ۔وہ ایک نا اہل انسان بھی ہو سکتا ہے یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسے ہمارے سسٹم نے کامیاب نہیں ہونے دیا لیکن مجھے یہ یقین ضرور ہے کہ اس نے دیانتداری سے کوشش تو کی اور یہ میرا ذاتی خیال ہے ۔
بس اتنا ہی کہوں گا ورنہ بات پھر unbalance ہو کے تعریف کی طرف چلی جائے گی اور دوستوں کی دل آزاری ہو جائے گی۔
اہل یا نا اہل کا فیصلہ تاریخ پہ چھوڑ دیتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ تاریخ اسکا فیصلہ کر دے گی
آخر میں بس اتنا کہوں گا کہ پاکستانی جمہوریت ” بازار حسن “کی مانند ہے۔ جو جہاں سے اپنی مرضی کا مال خرید سکتا ہے بس پیسہ لگانے کی ہمت ہونی چاہیے۔میری طرف سے جو دل آزاری ہوئی ہے۔ میں تمام دوستوں سے معذرت خواہ ہوں۔ آپ سے رابطہ ضرور رہے گا لیکن سیاست سے ہٹ کے۔۔۔یہ وعدہ ہے کہ کچھ نہ کچھ آپکو پڑھنے کو ضرور ملتا رہے گا۔
اللہ آپ سب کا حامی و ناصر ہو۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply