لیڈر شپ۔۔محمد وقاص خٹک

لیڈر شپ۔۔محمد وقاص خٹک/ لوگ ارتغرل،سلجوق سریز اور عثمان سریز شغل کیلئے دیکھتے ہیں جبکہ میں ان کہانیوں کو اپنے الگ نظریے سے دیکھتا ہوں۔ان سب ڈراموں میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے “لیڈر شپ ” ۔
ان تمام کہانیوں کا محور ایک مخصوص کردار کے گرد گھومتا ہے جو ان سب کرداروں میں “منفرد” ہوتا ہے اور صرف “تلوار” کے بل بوتے پر وہ سرداری نہیں کرتے بلکہ “عقل و فہم” کا بھی بھرپور استعمال کرتے ہیں۔یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ جب تک “ارتغرل ” کائی قبیلے میں موجود رہتا ہے تب تک قبیلہ خوشخال،سرخرو اور اندرونی اور بیرونی چیلنجز سے بخوبی نبرآزما رہتا ہے۔اگر یہی “ارتغرل ” کچھ لمحوں کیلئے ادھر اُدھر ہو جائے تو وہی “کائی قبیلہ” ترگت،بامسی اور دیگر جانثاروں کے ہوتے ہوئے بھی انحطاط کا شکار ہو جاتا ہے،”کائی قبیلے کی سرداری کی پوست” ایک بوجھ بن کر زنگ آلود کرسی لگنے لگتی ہے۔اسی “کائی قبیلے” کے اندر سے اتنے “کردوغلو” جنم لیتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔وہ “دندار” جو “ارتغرل ” کی موجودگی میں شیر کی طرح لڑتا ہے،ارتغرل کی غیر موجودگی میں اپنی سادہ بیوی سے بھی مرعوب ہو کر “کائی کی ساکھ” تاتاریوں کے آگے نیلام کر دیتا ہے۔

یہ تمام کردار اپنے آباؤ اجداد کی پرانی روایات کے امین ہوتے ہیں اور ان روایات کو برقرار رکھنے کے لیے مر مٹنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ان ڈراموں کے شوقین حضرات ان ڈراموں سے اس لیے بھی ذیادہ مرعوب ہوتے ہیں کہ وہ ان ڈراموں کو سراسر اسلامی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں حالانکہ یہ ڈرامے “اسلام” سے  زیادہ “مخصوص ترک نیشنلزم ” کی عکاسی کرتے ہیں۔اپنے اسلاف کے حسب نسب پر فخر کرنا ترک قوم کا طرّہ امتیاز رہا ہے۔”سلجوقوں کا عروج ” کی موجودہ دوسری سریز جو “الپ ارسلان” کے گرد گھومتی ہے، اس سریز میں وہ سین دیکھنے لائق ہے جس میں الپ ارسلان “بازنطینی قلعے” میں جا کر انہیں دھمکاتا ہے کہ “میں اوغوز کی نسل،سلجوق کی اصل،چاغری بے کا بیٹا محمد الپ ارسلان ” ہوں۔یقینی طور پر وہی اقوام کامیاب رہتی ہیں جو اپنے اسلاف کو یاد رکھتی ہیں۔اسی الپ ارسلان نے 1071 میں “مانزگرت کے عظیم معرکے” میں اپنی 20000 فوج کے ساتھ بازنطینی عیسائیوں کی 2 لاکھ فوج کو عبرت ناک شکست دی۔جنگ شروع ہونے سے ایک دن پہلے الپ ارسلان اپنے وزیر کے ساتھ اونچے ٹیلے پر کھڑا دشمن کی عظیم الشان فوج کو دیکھ رہا تھا کہ وزیر نے سلطان سے فرمایا “سلطان معظم آپ دشمن کی عظیم الشان فوج کو دیکھ کر پریشان دکھائی دیتے ہیں “۔یہ سن کر الپ ارسلان نے فاتحانہ مسکراہٹ سے جواب دیا” میں اس لئے فکرمند ہوں کہ اتنے وسیع لشکر کو مار کر میں کہاں دفناؤنگا کہ میرے پاس اتنی جگہ نہیں ہے۔” پھر وقت نے ثابت کیا کہ دشمن کے دو لاکھ کے لشکر میں سے 20000 بھی زندہ نہ بچ سکے۔اسی لیے ایڈورڈ گبن نے اس جنگ کو ان الفاظ میں یاد کیا ہے۔
“Defeat at Manzikert as the beginning of the end of the Eastern Roman Empire “.

Advertisements
julia rana solicitors london

قصّہ مختصر کہ ہم ڈرامہ بھی ٹھیک سے نہیں بنا سکے۔ہمارے ڈرامے چند مخصوص کرد اروں کے آگے پیچھے گھومتے ہیں جس کی کہانی ہمارے رسم و رواج سے بالکل مختلف اور متصادم ہے۔ترکی اپنی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری سے اربوں ڈالر کما کر اپنی  دھاک بٹھا رہا ہے۔تب ہی تو ترکی کے ارتغرل کو سب جانتے ہیں جبکہ ہمارے “پری زاد” کو صرف گلی محلے کے لونڈے ہی جانتے ہیں۔جتنا فرق “ارتغرل” اور “پری زاد” میں ہے،اتنا ہی فرق “رجب طیب اردوان ” اور ہمارے “عمران خان ” میں ہے۔اب اس فرق پہ رونا ہے یا ہنسنا،خود طے کر لیں۔ ۔
“اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی وصل کی راحت کے سوا ”
مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ “۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply