پاکستانی مارکسزم اور بلوچ قومی سوال۔ ذوالفقار علی زلفی (مکمل مکالمہ)

کامریڈ شاداب مرتضی صاحب نے جب میرے مندرجات پر بحث کرنے سے زیادہ مجھے منافقت، دروغ گوئی، موقع پرستی اور ملائی ترمیم پسندی کے “منصب” پر بٹھانے کے لئے زورِ قلم دکھایا تو مجھے چنداں حیرت نہ ہوئی ،ـ پاکستانی حب الوطنی اور بلوچ حقِ آزادی کے درمیان چناؤ ہمیشہ پاکستانی مارکسسٹوں کے لئے مشکل رہا ہے ـ اس کا ایک اہم مظہر بار بار دہرائے جانے والا یہ نکتہِ نظر بھی ہے کہ بلوچ قومی آزادی کا پروگرام بلوچ قوم کا اکثریتی رجحان نہیں ہے گویا پاکستانی مارکسسٹوں کو ہزاروں گمشدہ، سینکڑوں مسخ لاشوں اور لاکھوں دربدر بلوچوں سے زیادہ بورژوا انتخابات پر یقین ہے ـ اس میں کوئی شک نہیں اس وقت بلوچستان تین متضاد دھاروں میں منقسم ہے :

الف: بلوچ قومی آزادی کے پروگرام سے مکمل اتفاق رکھنے والے ـ (بلوچ نیشنل موومنٹ، بلوچ ریپبلکن پارٹی، بلوچستان فری موومنٹ ، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد ، مسلح تنظیمیں و ان کے ہمدرد دانشور، شاعر، لکھاری، ادیب و سماجی کارکن) ـ

ب: پاکستانی فریم ورک میں رہ کر بلوچ قومی حقوق کے تحفظ پر یقین رکھنے والے (بلوچستان نیشنل پارٹی سردار مینگل و ان کے ہمدرد) ـ

د : پاکستانی ریاست کے ساتھ چمٹے رہنے والے (نیشنل پارٹی، بی این پی عوامی، مذہبی تنظیمیں و قبائلی سرداروں کی اکثریت) ـ

اب ان میں سے کس کو موثر عوامی حمایت حاصل ہے اسے سمجھنے کے لئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ـ فوجی آپریشنز، ناراض بلوچ سے دہشت گرد بلوچ تک کی اصطلاحوں میں اس سوال کا جواب موجود ہے ـ

اسی طرح کامریڈ شاداب مرتضی نے جب جدلیاتی مادیت کے اصولوں کو نظر انداز کرکے ٹھیٹھ  پاکستانی نکتہِ نظر اپناتے ہوئے یوسف عزیز مگسی سے لے کر ڈاکٹر اللہ نذر تک جاری بلوچ قومی تحریک اور پاکستان و بلوچ مخاصمانہ تضادات کو پاکستان کے نمائندہ قلم کاروں و پیٹی بورژوا سیاست دانوں کی طرح نواب بگٹی کے ریاستی قتل سے برآمد شدہ قرار دے کر اپنی دانست میں طنز کرنے کی کوشش کی تب مجھے تھوڑا افسوس ضرور ہوا ـ انہیں شاید علم نہ ہو نواب بگٹی کے قتل سے کئی ماہ قبل بی ایس او کے سابق چیئرمین کامریڈ سہراب بلوچ قلات میں پاکستانی فورسز کے ہاتھوں را ایجنٹ کا خطاب پاکر شہید ہوچکے تھے البتہ پاکستانیوں کی اکثریت کو چونکہ بلوچستان “وحشی” و “خونخوار” سرداروں کا مرکز نظر  آتا ہے اس لئے بلوچ قومی مطالبات و امنگوں کی جانب ان کی جزوی توجہ بھی اس وقت مبذول ہوئی جب ڈاکٹر شازیہ خالد سانحے کو بنیاد بناکر نواب بگٹی نے پاکستانی عسکری ادارے کی اخلاقی گراوٹ کو طشت از بام کیا ـ۔

اسی طرح ساہیجی واقعہ جہاں بلوچ تحریک کے نوجوان شہید کارکن قنبر چاکر کے والد سمیت متعدد بلوچ جاں سے گزرگئے، نصیر آباد واقعہ جس میں دو درجن کے قریب بلوچ پولیس اہلکار قتل کردیے گئے یا اسی طرح رازق بگٹی جیسے “مارکسیوں” سے لے کر رئیسانی و زہری قبائلی چیفوں پر جان لیوا حملے ہوئے سمیت متعدد ایسے واقعات ہیں جن میں “لسانی نسل پرست و فاشسٹ سرمچاروں” نے بلوچ خون بہایا ـ ان میں سے بیشتر واقعات پر جہاں ہم نے احتجاج کرکے بلوچ قوم پرستوں کے ہاتھوں “قوم دشمن کمیونسٹ” ہونے کی “نیک نامی” کمائی وہاں آج مارکسزم کی من چاہی پاکستانی تشریح سے منکر ہونے کی بنا پر ہم مزدور دشمن قوم پرست کے نام سے پہچانے گئے ـ بہرکیف جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے ـ۔

اب چونکہ بحث کو طولانی بنانے کے لئے کمیونسٹ مینی فیسٹو کا سہارا لیا گیا ہے تو کیوں نہ مختصراً اس پر بھی بات کرلی جائے ـ

کمیونسٹ مینی فیسٹو مارکسزم کی بنیاد اور اس فکر کا منبع و ماخذ ہے ـ مینی فیسٹو کے خالق کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز نے سرمایہ اور محنت کے تضاد اور سرمائے کی بین الاقوامی حرکت کا عمیق مشاہدہ کرنے کے بعد اس کو راہِ عمل کے طور پیش کیا ـ کمیونسٹ مینی فیسٹو کا جملہ “دنیا کے مزدوروں ایک ہوجاؤ” مارکسزم کی بین الاقوامیت پسندی اور نسلی، لسانی، مذہبی اور قومی تقسیم کی مخالفت ہے ـ یہاں تک بات سمجھ میں آتی ہے اور کامریڈ شاداب مرتضی نے جب ہمارا “پول” کھولنے کے لئے کمیونسٹ مینی فیسٹو کا سہارا لیا تو نہ چاہتے ہوئے بھی دل سے آہ نکل گئی کہ اب مذہبی ملاؤں کی طرح کمیونسٹ بھی قرآن و حدیث سے مثالیں نکال کر ایک دوسرے کو “کافر” قرار دینے کی مشق کررہے ہیں ـ بہرکیف میں اپنے اوپر لگائے گئے تمام الزامات کو نظرانداز کرکے توجہ اٹھائے گئے نکات پر ہی مرکوز رکھنا چاہوں گا ـ۔

جہاں مارکسزم کے یہ دونوں اساتذہ  نیشنلزم کی مخالفت کرکے انٹرنیشنلزم کی نوک پلک سنوار رہے تھے وہاں انہوں نے پولینڈ کی قوم پرست تحریک کی بھی حمایت کی جو کمیونسٹ مینی فیسٹو کے نظریے کا بظاہر عملی ابطال ہے ـ قوم پرستی کے حوالے سے مارکسزم میں موجود مباحث جو کافی حد تک متضاد ہیں ہمیں کامریڈ لینن اور کامریڈ روزالگسمبرگ کے تند و تیز نظریاتی مباحثوں میں بھی نظر آتے ہیں جہاں اولذکر قومی آزادی کو مارکسزم کی روح سے ہم آہنگ اور آخرالذکر سرمایہ داریت سے مصالحت سمجھتی رہیں ـ تضادات کا سلسلہ یہاں تک نہیں رکتا بلکہ کامریڈ اسٹالن اور کامریڈ ماؤزے تنگ کی نوآبادیانہ پالیسیاں بھی اس کا ایک مظہر ہیں جنہوں نے قومی تحریکوں کو ماسکو اور بیجنگ کی غیر نظریاتی اساس کی مضبوطی کے لئے استعمال کیا ـ بلوچ تحریک پر بھی اس پراکسی جنگ کے منفی اثرات مرتب ہوئے جو فی الحال ہمارے موضوع سے خارج ہے ـ کامریڈ لینن کا واضح موقف میرے نزدیک درست اور قومی سوال کا قابل عمل حل ہے گوکہ اس دوران پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے اور ہمارے دور میں قومی سوال بہت زیادہ پیچیدہ اور گنجلک ہوچکا ہے ـ۔

اس پسِ منظر کو مختصراً بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مارکسزم بالخصوص کامریڈ لینن کے فکری و نظریاتی مباحث قومی تحریکوں کی کُلی مخالفت کرنے کی بجائے اس میں موجود ترقی پسند رجحان کی تلاش، اس کی آبیاری اور حمایت کرنے کا عملی و فکری درس دیتا ہے تانکہ قومی آزادی کی تحریک کو سرمایہ داریت کی جھولی میں گرنے سے بچاکر اس کی قوت کو محنت کشوں کی طبقاتی آزادی کے لئے استعمال کیا جاسکے ـ جب ہم کہتے ہیں کہ بلوچ قومی تحریک میں اس کا رجحان پایا جاتا ہے اور پاکستانی مارکسسٹوں کو عہدِ جدید کے چیلنجز کی روشنی میں بلوچ قومی تحریک کے ترقی پسند عناصر کی حمایت کرکے انہیں مضبوط بنانے کی کوشش کرنی چاہیے تو “محب وطن” پاکستانی مارکسسٹ “دنیا بھر کے مزدوروں ایک ہوجاؤ” کا نعرہ لگا کر ہمیں قوم پرست، موقع پرست یا دل بہلانے کے لئے مارکسی قوم پرستی کا تمغہ تھما کر اپنے تئیں خوش ہوجاتے ہیں کہ ہم نے “مارکسزم” کو بچالیا ـ کامریڈ روزالگسمبرگ نے جب لینن کا ابطال کرنے کے لئے دلائل کا انبار کھڑا کیا تو ان کا ماخذ بھی دراصل کمیونسٹ مینی فیسٹو کا یہی نعرہ تھا جسے آج پاکستانی مارکسسٹ استعمال کرنے کی کوشش کررہے ہیں ـ کامریڈ روزا لگسمبرگ کے خیالات البتہ “حب الوطنی” (کامریڈ کا تعلق غالباً پولینڈ سے تھا) کی آلائش سے پاک نظری تھے اور ان کی اہمیت شاید آج کے دور میں بھی ہے ـ۔

بلوچ تحریک آزادی مکمل طور پر نہ طبقاتی ہے اور نہ ہی اسے سوفیصد بلوچ اتفاق قرار دیا جاسکتا ہے تاہم یہ غالب طور پر طبقاتی اور اکثریتی رجحان ہے ـ یہ امر بھی اہم ہے کہ بلوچ قومی آزادی کے پروگرام کو اکثریت و اقلیت کے ترازو میں تولا جانا چاہیے یا نوآبادیاتی و سامراجی ریاست کے درست عوامی ردعمل کی صورت دیکھا جانا چاہیے؟ ـ اگر اکثریت ہی درست ہے پھر تو پاکستانی عوام کی اکثریت “لولی لنگڑی جمہوریت” کی ہمنوا ہے تو کیا ہمیں جدوجہد ترک کرکے ان کی حمایت کرلینی چاہیے؟ـ بلوچ تحریک کو طبقاتی بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش ہی ایک حقیقی مارکسسٹ کا شعار ہونا چاہیے بجائے اس کے کہ وہ اسے موقع پرستی، ترمیم پسندی یا کسی اور پرستی و پسندی کا نام دے کر عقیدوں کو ہی نظریہ سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا رہے ـ

گروک جہاں پنجابی محنت کشوں کے قتل کا سانحہ پیش آیا ایک انتہائی غریب اور پسماندہ علاقہ ہے، ایک ایسا علاقہ جہاں نہ سڑکیں ہیں، نہ بجلی، نہ ہسپتال، نہ صاف پانی وہاں کے باسی گلہ بانی کرکے اپنا پیٹ کاٹتے ہیں ـ اگر بقول کامریڈ شاداب مرتضی کے بلوچ طبقاتی شعور سے بے بہرہ ہے اور زلفی دروغ گوئی کا سہارا لے کر ڈھٹائی کا مظاہرہ کررہا ہے تو ایف ڈبلیو او کو ان گلہ بانوں کی محنت خریدنے کی بجائے منڈی بہاؤالدین اور گجرات کے کھیت کیوں چھاننے پڑ رہے ہیں؟ـ پاکستانی ریاست کو اپنے نوآبادیاتی منصوبوں کی تکمیل کے لئے نوشہرہ فیروز (سندھ) ، رحیم یار خان (سرائیکیستان) اور گجرات (پنجاب) جانے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے جبکہ بلوچستان کی 67 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے،

ـ جب ہم کہتے ہیں پاکستان بھر کے محنت کش بلوچ محنت کش سے اظہارِ یکجہتی کرنے کی بجائے بلوچ محنت کش کے استحصال میں اپنی قوم کے جابر، استحصالی ، دہشتگرد قوتوں کے آلہ کار بننے کی راہ پر گامزن ہیں اور ان کو طبقاتی شعور دینے کی زمہ داری پاکستانی مارکسسٹوں کی زمہ داری ہے تو ہم مزدور دشمن کیسے ہوگئے؟ ـ کارل مارکس اور اینگلز نے بغیر کسی لگی لپٹی کے زار روس اور آسٹریا کی نوآبادیاتی پالیسیوں اور توسیع پسندی کی مخالفت کرتے ہوئے پولینڈ کی “قوم پرستانہ” تحریک کی حمایت کرتے ہوئے واضح کردیا تھا کہ “ہم نہیں چاہتے پولینڈ کے عوام پر غلام جاگیردار کی جگہ آزاد جاگیر دار حکمرانی کرے” ـ مارکسزم کے اساتذہ کے اس جملے پر غور کیجئے انہوں نے پولش تحریک آزادی سے مطالبہ کرنے کی بجائے خود کو اس سے جوڑ کر پولش بورژوازی کو للکارا ـ دوسری جانب پاکستانی مارکسسٹ “محب وطن پاکستانی” بھی رہنا چاہتے ہیں ، بلوچ قومی تحریک کی مشکلات، اس میں موجود تضادات، خامیوں، عالمی سازشوں اور بلوچ محنت کش کو درپیش حالات سے خود کو دور بھی رکھنا چاہتے ہیں اور مطالبات داغنے کا حق بھی محفوظ رکھنے کے خواہشمند ہیں ـ۔

جب ہم نے محنت کشوں کے قتل کے پسِ منظر کو سامنے رکھ کر اس کا مستقل حل تلاش کرنے پر  زور دیا تو اکبر خان بگٹی کو درمیان میں لاکر بحث کا رخ موڑنے کی ایسے کوشش کی گئی جیسے زلفی نے اکبر خان کی طبقاتی بالادستی پر ایمان لاکر طبقاتی تقسیم کو پسِ پشت ڈال کر بورژوا قوم پرستی کی نمائندگی کا بیڑہ اٹھانے کا کوہِ چلتن پر چڑھ کر اعلان کردیا ہو ـ نواب اکبر خان بگٹی سمیت تمام بلوچ آزادی پسند سرداروں کے حوالے سے بلوچ تحریک میں فکری و نظریاتی مباحث موجود ہیں اور ان کی طبقاتی حیثیت مختلف سرکلز میں ہدفِ تنقید بنی رہتی ہے ، اب ان فکری مباحث سے پاکستانی مارکسسٹ بے خبر ہیں تو ہم سے کیا گلہ؟ ـ

ہم آخری تجزیے میں اپنے طبقے کے ہی ساتھ کھڑے ہیں مگر اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم “دنیا بھر کے محنت کشوں ایک ہوجاؤ” کے نعرے کو سرمائے اور محنت کے جدلیاتی تعلق اور آقا و غلام کے مخاصمانہ تضاد کی روشنی میں دیکھے بنا بس اندھا عقیدہ دماغ پر لاد کر چلتے بنیں گے ـ سرمائے کی عالمگیریت اور پرولتاری بین الاقوامیت درست مگر اس سے یہ نتیجہ کیسے نکالا جاسکتا ہے بلوچ محنت کش کے استحصال میں اگر پاکستانی محنت کش طبقاتی شعور سے بے بہرہ ہوکر کمک فراہم کرے تو اس کا سدِ باب یہ سوچ کر نہ کیا جائے کہ “ساڈا گرائیں ہے” ـ

چینی سامراج کے تعاون سے بنائے گئے استحصالی منصوبوں کی تکمیل سے نہ بلوچ محنت کش کا فائدہ ہے نہ پاکستانی محنت کش کی حالت سدھرے گی ان سے صرف اور صرف چینی سامراج اور اس کے مقامی گماشتہ ایجنٹوں کے مفادات وابستہ ہیں تو بجائے پاکستانی محنت کش کو یہ سمجھانے کے بلوچ محنت کش سے یہ مطالبہ کیوں کیا جائے کہ جب تک پاکستان میں طبقاتی شعور نہیں آتا تب تک وہ راستہ بدل کر ان منصوبوں میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالیں ـ میرا موقف روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کی مزکورہ محنت کش کا قتل جائز نہیں مگر ان کو روکنا بھی ضروری ہے ـ کیسے روکا جائے بحث کا لبِ لباب یہی سوال ہے اور اس سوال کا جواب دونوں طرف سے ڈھونڈا جائے ـ۔

یہ غلط فہمی ہر پاکستانی کو  ذہن سے نکال دینی چاہیے کہ بلوچ سرمچار کوئی لینڈ لارڈ یا عالمی سرمائے کا مقامی ایجنٹ ہے ـ وہ یقیناً کسی بھی “مفلس” اور “قلاش” پنجابی محنت کش سے زیادہ مفلوک الحال ہے ـ بلوچ نے جانیں دے دے کر بلوچستان کے محنت کشوں کی غالب اکثریت کو عالمی و پاکستانی سامراجیت کے مقابل کھڑا کیا ہے ـ اتفاق ہے بلوچ تحریک سے بعض کوتاہیاں بھی ہوئیں، خامیاں بھی ہیں، فاشسٹ رجحانات سے بھی انکار نہیں، بعض مقامات پر غیر سائنسی و غیر نظریاتی عوامل کا بھی پتہ چلتا ہے مگر پاکستانی مارکسسٹ اس “مفلس” و “قلاش” پنجابی کو طبقاتی بنیادوں پر منظم کرنے میں کیوں ناکام رہے ہیں جو سات آٹھ لاکھ کی خطیر رقم خرچ کرکے یورپ جانے کی کوششوں میں غلطاں ہے؟ ـ کیا پنجاب، سندھ اور پختونخواہ کو طبقاتی شعور سے لیس کرنا بھی بلوچ سرمچار کی  ذمہ داری ہے؟ ـ

جب سوال اٹھایا جاتا ہے کہ آپ پاکستانی محنت کش کو بلوچ محنت کش کے استحصال میں حصہ لینے کی کوششوں کی حوصلہ شکنی کیوں نہیں کرتے؟ ـ ایک جنگ زدہ (ایک ایسی جنگ جہاں سب کچھ داؤ پر لگا ہے) مقام پر آکر بلوچ قومی دشمن (جو آپ کا بھی ہے) کے ہاتھ مضبوط کرکے  بلوچ سینے پر مونگ دلنے کی مساعی کی مخالفت میں کمربستہ کیوں نہیں ہوتے؟ـ بلوچ تشدد کو نوآبادیاتی تشدد کے ردعمل میں پیدا ہونے والے تشدد کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ ـ تو آپ سیخ پا ہوکر سرٹیفکٹ بانٹنے نکل جاتے ہیں ـ

ہماری جانب سے ہمیشہ کوشش رہی ہے پاکستانی محنت کش کو ساتھ ملا کر اس عفریت کا سامنا کیا جائے کیونکہ یہ عفریت مقامی نہیں بلکہ بین الاقوامی سامراجیت کا آلہِ کار اور اسی کے مفادات کا مقامی نگہبان ہے اس کا تنہا مقابلہ کرنا از بس کہ ممکن نہیں ـ دوسری جانب سے اس کوشش کو کوئی اور معنی پہنا کر مطالبات کا پلندہ بھیج دیا جاتا ہے کہ “جی ایسا ایسا کریں” ـ

چچا غالب فرما گئے ہیں “وہ اپنی خو نہ چھوڑیں ہم اپنی وضع کیوں بدلیں”۔ ـ

اسی موضوع پر مزید مکالمہ:

Advertisements
julia rana solicitors

مارکسزم یا “مارکسی “نیشنلزم؟۔شاداب مرتضٰی

مکالمہ کی تمہید میں ۔ذوالفقار زلفی/آخری حصہ

بلوچستان پر مکالمے کی ضرورت کے جواب میں۔۔۔ شاداب مرتضیٰ

مکالمے کی تمہید میں ۔ذوالفقار زلفی

مظلوم مزدور اور “قومی جدوجہد”۔۔۔ شاداب مرتضٰی

مزید تحاریر:

بلوچستان کے المیے اور ہماری سیاسی دانش۔عمیر فاروق

پنجابی عوام ظالم ہے۔۔۔ شاہد یوسف خان

بلوچستان اور مارے گئے غریب مزدور۔۔۔ محمد کمیل اسدی

بلوچستان آخر مسئلہ ہے کیا؟۔محسن علی

 

 

Facebook Comments

ذوالفقارزلفی
ذوالفقار علی زلفی کل وقتی سیاسی و صحافتی کارکن ہیں۔ تحریر ان کا پیشہ نہیں، شوق ہے۔ فلم نگاری اور بالخصوص ہندی فلم نگاری ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply