کپاس (49) ۔ جاپانی صنعتکاری/وہارا امباکر

“میں اپنے ملک کو یورپ اور امریکہ کے برابر لانا چاہتا ہوں۔ میں نے جتنی تاریخ اور جغرافیہ پڑھا ہے، اس سے یہ سمجھ آ چکی ہے کہ مغربی دنیا میں دولت، عسکری طاقت، تہذیب اور روشن خیالی کی جڑ ٹیکنالوجی، انڈسٹری، کامرس اور تجارت میں ہے۔ ان سب کا اطلاق کرنے اور قوم کو خوشحال اور مضبوط بنانے کے لئے ہمیں لوگوں کو صنعت کی طرف لانا ہو گا۔ ہم بہت سی چیزیں بنا سکیں اور انہیں برآمد کر سکیں۔ اور جو ہمارے پاس نہیں، اسے درآمد کر لیں اور اس طرح دولتمند ہو جائیں”۔
جاپان انڈسٹریل بیورو کے انوئے شوزو نے جرمنی کے مطالعاتی دورے سے یہ نتیجہ نکالا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسے خیالات اب جاپان سے انڈیا، افریقہ سے مشرقی ایشیا تک امپریل ازم کے مخالف اپنا رہے تھے۔ ان مفکرین کا خیال تھا کہ کالونیل قوتوں کا مقابلہ اس طریقے سے کیا جا سکتا ہے۔ صنعتکاری کو کئی جگہوں پر حب الوطنی کا پراجیکٹ بنا لیا گیا تھا۔
لیکن یہ کرنا اتنا آسان نہیں رہا جتنا کہنا آسان تھا۔ اکثر ممالک کو اس کو اپنانے میں بہت وقت لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاپان کا میجی دور 1868 میں آیا جس نے سمورائی کی 270 سالہ پرانی فیوڈل طاقت گرا دی اور جاپان کو مضبوط مرکزی حکومت کی طرف لے گیا۔ اور صنعتکاری کو اس مرکزی حکومت کی پالیسی سپورٹ حاصل تھی۔
ابتدائی برسوں میں جاپان کی طرف سے حکومتی اہلکاروں نے صنعتیں لگائیں جو ایک ایک کر کے ناکام ہو گئیں۔ جاپان نے اپنی “نظریاتی اساس” صنعتکاری میں بنائی اور اس کا اہم ستون “سستے اور محنتی مزدور” تھا۔ کام کرنے کے طویل گھنٹے شامل تھے۔ خواتین کو فیکٹریوں میں لایا گیا۔ سمورائی اور تاجر کی طاقت صنعتکار اور فیکٹری مینجیر کو منتقل ہوئی۔
جاپان میں اس کے ساتھ ساتھ باقاعدہ نجی بینک بنے۔ فرسٹ نیشنل بینک، شیبوساوا آئیچی جیسے بینک جو صنعتوں میں سرمایہ کاری کرتے تھے۔ برطانیہ سے جاپانی انجینرز کو تربیت دلوائی گئی۔ اس تمام پراجیکٹ میں حکومت بھرپور طریقے سے شامل تھی۔ 1895 تک جاپان میں ہاتھ سے کام کرنے والے دستکار ختم ہو چکے تھے۔ جاپان کی نئی فیکٹریاں برطانیہ کا کامیابی سے مقابلہ کر رہی تھیں۔
حکومت نے اس صنعت کو دینے والا تمام قرض خود گارنٹی کیا۔ 1910 میں ٹریڈ کمیشن بنانے سے لے کر کمرشل رپورٹس حاصل کرنا، صنعتی نمائشیں، تجارتی مشن، تربیت جیسی چیزیں جاپانی حکومت کی طرف سے کی جاتی رہیں۔
صنعت کےلئے جاپانی حکومت کا ایک اور اہم قدم چین کے خلاف جنگ اور 1895 میں اس کی زمین پر قبضہ تھا جس سے خام مال کی سپلائی محفوظ ہو گئی۔
جاپان اب برٹش انڈیا پر منحصر نہیں رہا تھا اور برطانیہ سے تنازعے کے بعد جاپانی صنعت نے ہندوستان سے کپاس خریدنے سے انکار کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاپان میں 1897 میں فیکٹری ورکرز میں سے 79 فیصد خواتین تھیں۔ عام طور پر یہ تیرہ سال کی عمر میں کام شروع کرتیں اور شادی کے بعد ریٹائر ہو جاتیں۔ یہ جاپان کی سب سے سستی لیبر تھی، جن کے کام کے نارمل اوقات بارہ گھنٹے روزانہ ہوا کرتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصر میں ابتدائی کوششوں میں ناکامی رہی تھی لیکن پہلی جنگِ عظیم کے بعد کی جانے والی اصلاحات کے بعد مصری صنعتکاروں کو کامیابی ملی تھی۔ مصر کے بڑے قوم پرست اکانومسٹ طلعت حرب تھے۔ انہوں نے مصر بینک 1920 میں قائم کیا تھا۔ اس نے بڑے جاگیرداروں سے سرمایہ اکٹھا کر کے مصر سپننگ اینڈ ویونگ کمپنی جیسے ادارے قائم کئے تھے۔ مصر کا محلہ الکبریٰ، انڈیا کا احمدآباد، چین کا شنگھائی ۔۔۔ مانچسٹر کی طرز پر بنے یہ مراکز برطانیہ کے مانچسٹر کو پیچھے دھکیل رہے تھے۔
(جاری ہے)
ساتھ لگی تصویر طلعت حرب کی ہے۔ یہ نیشلسٹ ماہرِ معیشت تھے اور ان کی مصر کے محلہ الکبریٰ میں بنائی گئی مل دنیا کی سب سے بڑی ملز میں سے تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply