ایکس ٹینشن۔۔۔محمد اسد شاہ

دنیا کے اکثر ممالک میں ، خصوصاً جہاں جمہوریت رائج ہے ، عام لوگوں کو کسی آرمی چیف یا چیف جسٹس وغیرہ کا نام تک معلوم نہیں ہوا کرتا – وجہ صاف ظاہر ہے – آرمی چیف کا کام اپنے ادارے کے اندرونی تمام معاملات کی نگرانی کرنا ہوتا ہے ، اور اس کے ماتحت ادارے کا کام منتخب حکومت کی ہدایات کے مطابق ملک کی جغرافیائی سرحدوں کا دفاع ہے – چنانچہ اس ذمہ داری کو بہت حساس اور نہایت اہم سمجھا جاتا ہے – اسی حساسیت کا تقاضا ہے کہ اس ادارے کے سربراہ کو کسی اور سمت دیکھنے کی فرصت ہی نہیں ملتی ، اور دوسری طرف عام شہری کو بھی اس ادارے کے معاملات میں دخل دینے کی جرأت ہوتی ہے اور نہ ضرورت محسوس ہوتی ہے –
کچھ اسی قسم کا معاملہ کسی جمہوری ملک کے چیف جسٹس کا بھی ہے – عدالت ایک ایسا ادارہ ہے کہ جسے ہر شہری کو انصاف ، مساوات اور تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے – چیف جسٹس کسی عدالت کے تمام قاضیوں (ججز) کا سربراہ ہوتا ہے – جب عدالتیں اور ججز ، اپنی ذمہ داریوں کی طرف مکمل توجہ رکھتے ہیں تو انھیں کسی اور طرف دھیان دینے کی فرصت ہی نہیں ملا کرتی – ہم نے ایسے ایسے ججز کے متعلق پڑھا اور سنا ہے کہ جنھیں عدالتوں میں ہر سائل کو آسانی اور انصاف فراہم کرنے کی اس قدر شدید فکر ہوتی ہے کہ وہ عدالتی اوقات کے بعد بھی دفاتر میں بیٹھے فائلوں کے مطالعے میں غرق رہتے ہیں – بعض اوقات خود اپنے کھانے پینے کے اوقات بھی بھول جاتے ہیں، اور اپنے بیوی بچوں کو بھی وقت نہیں دے پاتے – چنانچہ ان کی شہرت اور عزت ان کے نام، تقاریر، بیانات ، نوٹسز یا ریمارکس سے نہیں ، بلکہ ان کے فیصلوں کی وجہ سے ہوا کرتی ہے جو عام آدمی کو اس کی عزت ، جان اور مال کے تحفظ کا احساس دلاتے ہیں –
چند ممالک میں حالات اس سے مختلف نظر آتے ہیں تو اس کی وجہ وہاں کے معاشرتی مسائل ہیں – وہاں جمہوریت کو پنپنے کا موقع جیسے کبھی دیا ہی نہیں گیا، البتہ جمہوریت کا نام بہت لیا جاتا ہے – نام وہ لوگ بھی لیتے ہیں جو واقعتاً عوام کی رائے کا احترام اور ان کا ہر طرح سے تحفظ چاہتے ہیں – اور وہ لوگ بھی نام لیتے ہیں جنھیں جمہوریت کے معانی ، مفہوم تک کا علم نہیں ہوتا ، اور اگر علم ہوتا بھی ہے تو شاید وہ اسے اپنے مزاج یا مفادات کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں – چنانچہ وہاں کے لوگوں کے تاریخی ، اجتماعی اور ذاتی رویوں کا اثر ہے کہ وہاں ہر شخص اپنے متعلقہ معاملات تک محدود رہنے کی بجائے دوسروں کے معاملات میں دخیل ہونا چاہتا ہے –  بلکہ  یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے لوگوں نے اپنی اصل ذمہ داریوں کو اللہ پر ہی چھوڑ رکھا ہو ، اور دوسروں کے معاملات پر نظر رکھنا ، ان میں مسلسل دخل دیتے رہنا ، اور وہاں اپنی خواہشات کو نافذ کرنا ہی ان کی زندگیوں کا مقصد ہو –

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمارے ہاں ، آرمی چیفس اور چیف جسٹس صاحبان کے عہدوں پر فائز افسران کو جتنی شہرت ملتی ہے ، اتنی دوسرے ممالک میں کھلاڑیوں ، اداکاروں ، سماجی کارکنان یا سیاست دانوں کو  بھی نصیب  نہیں ہوتی – ہمارے عوام میں ان افسران کے حوالے سے مختلف خیالات پائے جاتے ہیں اور ان کی کارکردگی کے حوالے سے ڈھابوں سے لے کر ڈرائنگ رومز تک تبصرے ہو رہے ہوتے ہیں
پاکستانی بری فوج کے سب سے پہلے سربراہوں جنرل فرینک میسروے اور جنرل ڈگلس گریسی سے لے کر موجودہ سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ تک سب ہمارے ہاں کی مشہور شخصیات میں شامل ہیں – ہمارے ہاں ٹرکوں کے پیچھے بھی فوج کے سابق سربراہان کی تصاویر بنی ہوتی ہیں – آپ امریکہ ، کینیڈا ، فرانس ، سعودی عرب ، بھارت ، سری لنکا یا نیپال وغیرہ میں ایسے ٹرک دیکھنے کو ترس جائیں گے – جہاد ہماری دینی تعلیمات میں شامل ہے – اس وجہ سے بھی ہم اپنی افواج سے محبت کرتے ہیں اور افواج کے سربراہان سے بھی –
چیف جسٹس کے عہدے سے بھی ہمیں بے لاگ انصاف اور مساوات کے قیام کی توقعات رہا کرتی ہیں – چنانچہ انصاف اور مساوات کی طلب گار قوم چیف جسٹس صاحبان سے بھی بہت محبت کرتی ہے –
یہ سب خیالات میرے ذہن میں تب جاگے ، جب میں نے پڑھا کہ موجودہ وزیراعظم یعنی خاں صاحب ویسے تو سابق وزیراعظم جناب محمد نواز شریف کے شدید مخالف ہیں ، لیکن انھوں نے میاں صاحب کے ہی تعینات کردہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں مزید تین سال کی توسیع دینے کا خط جاری کر دیا ہے –
اس حوالے سے چند باتیں بہت معنی خیز اور قابل غور ہیں – ہماری بری فوج کے اب تک کے کل سولہ سربراہان میں سے سب سے زیادہ ، یعنی چھ ایسے ہیں جن کی تعیناتی وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے ہاتھوں ہوئی – وجہ صاف ظاہر ہے کہ اس قوم نے میاں صاحب پر بار بار اعتماد کیا ہے ، اور میاں صاحب نے بھی اپنے سیاسی وژن کے مطابق ملکی ترقی کے لیے بہت کام کیے ہیں ، جن کا انکار ممکن نہیں – یہ الگ بات کہ تین مرتبہ عوام نے انھیں اپنا وزیراعظم منتخب کیا ، لیکن ایک بار بھی انھیں مدت پوری نہیں کرنے دی گئی – زیر بحث موضوع کی مناسبت سے قابل ذکر بات یہ ہے کہ میاں صاحب نے کبھی کسی فوجی سربراہ کو مدت ملازمت میں توسیع (extension) نہیں دی – اور اس وجہ سے بعض لوگ ان سے ناراض بھی ہوئے – توسیع نہ دینے کی وجہ وہی ہے جو موجودہ وزیراعظم یعنی خاں صاحب جب اپوزیشن میں تھے تو بتایا کرتے تھے – قارئین کو یاد ہو گا کہ جب وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کو ایکسٹینشن دی تو جن لوگوں نے اس پر تنقید کی ، ان میں سب سے بلند اور سخت موقف عمران خاں کا تھا – خان صاحب تب کہا کرتے تھے کہ “ایکسٹینشن دینے سے ادارے تباہ ہوتے ہیں , کوئی بھی وجہ ایسی نہیں ہو سکتی کہ آرمی چیف کو ایکسٹینشن دی جائے ، حتیٰ کہ برطانیہ نے تو جنگ عظیم دوم کے دوران بھی آرمی چیف تبدیل کر دیا تھا -” یہ الفاظ عمران خان کے تب تھے – ایک اور انٹرویو میں خاں صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ اگر وہ وزیراعظم ہوں گے تو کسی بھی آرمی چیف کو کبھی کسی صورت ایکسٹینشن نہیں دیں گے -”
ان کے یہ الفاظ تاریخ کا حصہ ہیں – اب وہی خاں صاحب ہیں کہ جنھوں نے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے تعینات کردہ آرمی چیف کو ایکسٹینشن دے دی ہے اور ایک عدد وجہ بھی تلاش کر لی ہے-
یعنی برطانوی مثالیں ، اور کوئی وجہ نہ ہونا جیسی باتیں صرف وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اور دیگر کے لیے تھیں ، اپنے لیے بالکل نہیں –
ذاتی طور پر مجھے اور میرے جیسے بے شمار پاکستانیوں کو اس ایکسٹینشن کے حوالے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے –
حیرت صرف خاں صاحب کے روزانہ بدلتے نظریات پر ہے ، اور اس بات پر بھی کہ “تائید کے ڈونگرے برسانے والے” وزراء و ہم نوا بھی ہر بدلتے موقف کے ساتھ نئے نئے دلائل کیسے ایجاد کر لیتے ہیں !

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply