بلوچستان پر مکالمے کی ضرورت کے جواب میں۔۔۔ شاداب مرتضیٰ

بلوچستان میں مزدوروں کے قتل کے حالیہ واقعے سے پیدا ہونی والی بحث میں ایک نکتہ نظر یہ ہے کہ مزدوروں کا قتل قابلِ مذمت ہے لیکن مزدوروں کے قاتل اس کے ذمہ دار نہیں اس لیے ان کی مذمت کرنا ضروری نہیں۔ مذمت کی توپوں کا رخ صرف پاکستانی ریاست اور پنجاب کی جانب ہونا چاہیے۔ یہ نکتہِ نظر اس تنقید کا ردعمل ہے جو بلوچستان میں مزدوروں کے قتل پر عمومی انداز سے کی گئی ہے۔ یہ اپنے جوہر میں اسی طرز کا نکتہ نظر ہے جیسے یہ کہ عورت کی عصمت دری کا فعل قابلِ مذمت ہے لیکن عصمت دری کرنے والا بے قصور ہے۔ تاہم مکالمے کی بات کی گئی ہے تو آئیے کچھ مکالمہ کر لیں لیکن یہ ذہن نشین رہے کہ مکالمہ مزدوروں کو قتل کرنے والوں کی خواہش نہیں۔

رفیق ذوالفقار زلفی کے مطابق یہ واقعہ اپنی طرز کا پہلا واقعہ نہیں ہے اس لیے اسے اور اس جیسے تمام دوسرے واقعات کو بلوچ قومی تحریک کے پورے پس منظر میں رکھ کر دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ان عوامل کا جائزہ لیا جا سکے جن کے نتیجے میں معاملہ اس نہج تک، یعنی غیر بلوچ مزدوروں کے مستقل قتل تک آپہنچا ہے۔ بلوچ نسل پرستوں کے ہاتھوں مزدوروں کے قتل پر بلوچ قومی تحریک کی حمایت کرنے والوں کا یہ ایک عمومی رجحان ہے۔ گویا عصمت دری کرنے والے کی مذمت اور اسے سزا دینے کے بجائے ان حالات کو سمجھنے کی کوشش کرنا چاہیے جو عصمت دری کے واقعات کو جنم دیتے ہیں۔ جز کو کل کے ساتھ ملا کر دیکھنا چاہیے! ہمارا سوال یہ ہے کہ معاملے کو اس نہج تک پہنچانے میں مزدور طبقے کا کیا قصور ہے وہ بیان کیا جائے؟ کیا ریاست مزدور طبقے کے مفادات کی نمائندہ ہے اور بلوچستان پر ریاستی جبر مزدور طبقے کے مفاد میں کیا جا رہا ہے؟

اسی طرح رفیق عامر حسینی نے کالونیل ریاستوں میں استعماری تشدد کے خلاف جنم لینے والے قومی تشدد کے بارے میں فرانز فینن کے نظریے سے اسی نکتہ نظر کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے مطابق بھی مزدوروں کو قتل کرنے والے بلوچ نسل پرستوں پر مزدوروں کے قتل کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی اور مزدوروں کے قتل سمیت بلوچستان کے تمام مسائل کی ساری ذمہ داری ریاستی تشدد اور پنجاب کے لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو ریاست کے جبر کے خلاف بلوچ قوم کے حق میں آواز نہیں اٹھاتے۔ انہوں نے بلوچ نسل پرستوں کے ہاتھوں مزدوروں کے قتل کو “نسلی شاونزم” تو تسلیم کیا لیکن نسلی شاونزم کی راہ اپنانے پر ان نسلی شاونسٹوں کی مذمت نہیں کی۔ ہمار سوال ہے کہ کیا بلوچستان کے استحصال کا ذمہ دار پنجاب کا مزدور ہے؟ کیا بلوچستان کے وسائل پر ریاستی قبضے سے حاصل ہونی والی دولت میں وہ بھی شراکت دار ہے؟

اس نکتہ نظر کا بغور جائزہ لیں تو یہ صورت ابھرے گی: ریاستی تشدد نے بلوچ قومی تحریک کو نسلی شاونزم کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس صورتحال میں نسلی شاؤنسٹ جو کچھ کر رہے ہیں اس میں ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کا، ان کے عقل و شعور کا کوئی عمل دخل نہیں۔ انہیں اس بات کی خبر نہیں کہ نسلی شاؤنزم قابلِ مذمت راستہ ہے۔ اس لیے نسلی شاؤنسٹوں کی مذمت نہیں کرنا چاہیے۔ اس تھیوری میں نسلی شاؤنسٹ ایک معذور مفعول کی صورت میں سامنے آتا ہے جسے اپنے شعور اور عمل پر کوئی اختیار نہیں۔ یوں لگتا ہے کہ نسلی شاؤنسٹ کوئی روبوٹ مشین ہے اور ظاہر ہے کہ مشینوں کو ان کے عمل کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا۔

اس نکتہ نظر کا پنجاب کے لوگوں سے شکوہ ہے کہ چونکہ پنجاب کے لوگ بلوچستان کے لوگوں پر ریاست کے تشدد کی مذمت نہیں کرتے اس لیے انہیں بلوچستان میں “پنجابی” مزدوروں کے قتل پر نسلی شاؤنسٹوں کی مذمت کرنے کا کوئی حق نہیں۔ گویا جب تک ہر پنجابی بلوچستان میں ریاستی تشدد کے ہر واقعے کے خلاف آواز و اقدام نہیں اٹھائے گا اس وقت تک پنجاب کے کسی بھی شخص کو نسلی شاؤنسٹوں کے ہاتھوں مزدوروں کے قتل کی مذمت کرنے کا کوئی حق نہیں۔ ہمارا ایک بہت ہی سادہ سا سوال ہے۔ کیا بلوچستان کا ہر فرد پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں کے عوام پر، نوجوانوں پر، کسانوں اور مزدوروں پر ہونے والے ہر ظلم پر آواز اٹھاتا ہے؟ کیا بلوچستان کا ہر شخص بلوچستان کے ساتھ ناانصافی پر احتجاج کرتا ہے؟ ظاہر ہے نہیں۔ تو کیا اس بات کی بنیاد پر بلوچستان کے استحصال کو نظر انداز کردینا درست ہوگا؟

جب پنجاب کی طرف سے بعض آوازیں آتی ہیں کہ ہم نے بلوچستان پر ریاستی تشدد کی مخالفت کی ہے، ماما قدیر کی لانگ مارچ میں ان کا ساتھ دیا ہے، پنجاب میں گمشدہ بلوچوں کی بازیابی کی تحریک کو مضبوط کرنے کے لیے پروگرام منعقد کیے ہیں، مظاہرے کیے ہیں، پنجاب میں ہزاروں بلوچ روزگار کرتے ہیں تعلیم حاصل کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ تو انہیں جواب دیا جاتا ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ تو بس چند “پنجابیوں” کی آواز ہے۔ پنجابیوں کی اکثریت تو بلوچستان کے استحصال سے بیگانہ ہے! اگر اس دلیل کے ردعمل میں بلوچستان کے مسائل پر آواز اٹھانے والے چند “پنجابی” بھی خاموشی اختیار کر لیں تو وہ ایسا کرنے میں حق بجانب ہوں گے۔

رفیق ذوالفقار زلفی نے لکھا ہے کہ بلوچ نوجوان “ظلم و ستم سے چور، انتقامی جذبے اور نفرت سے سرخ ہے”۔ درست بات ہے۔ لیکن تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ وفاق میں اور صوبوں میں، خصوصا پنجاب میں، سرکاری اور نجی نوکریاں کرنے والا، کاروبار کرنے والا، تعلیم حاصل کرنے والا “بلوچ” کون ہے؟ بلوچستان کا مڈل کلاس نوجوان سرکاری نوکری بھی چاہتا ہے اور ریاست سے توقع بھی کرتا ہے کہ وہ اس کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرے۔ بلوچستان کا نوجوان ریاستی اداروں میں تعلیم بھی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ بلوچستان کا نوجوان وفاقی ریاستی ڈھانچے میں رہتے ہوئے سرکاری اور نجی ملازمت بھی کر رہا ہے، سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم بھی حاصل کر رہا ہے۔ اس رخ پر چلنے والے بلوچ نوجوان کو کس طرح دیکھا جائے؟ کیا اس بلوچ نوجوان کو بلوچ قومی تحریک کا “غدار” کہا جا سکتا ہے کیونکہ یہ بلوچ بلوچ وطن کا استحصال کرنے والی ریاست کے اداروں سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔

ایک دلیل یہ ہے کہ بلوچستان حالتِ جنگ میں ہے سو پاکستان کے دوسرے علاقوں سے کام کرنے کے لیے مزدور بلوچستان نہ آئیں۔ البتہ بلوچ پاکستان بھر میں جہاں چاہیں کام کرتے رہیں! اس منافقانہ دلیل کے جواب میں ہمارا کہنا یہ ہے کہ یہ دلیل استعمال کرنے والے پہلے تمام بلوچوں کو پاکستان کے دوسرے علاقوں سے واپس بلا لیں پھر وہ یہ دلیل دینے میں حق بجانب ہوں گے۔

ایک نکتہ یہ ہے کہ اگر مزدوروں کے نمائندے بلوچ نسل پرستوں کی جانب سے مزدوروں کے قتل کے ردعمل میں عام بلوچ کو قتل کرنا شروع کردیں تو کیا ردعمل کی نفسیات کے تحت وہ ایسا کرنے میں حق بجانب ہوں گے؟ مثلا جب ریاست بلوچ سرمچاروں کی کارروائی کو جواز بنا کر عام بلوچ کو نشانہ بناتی ہے تو کیا وہ ٹھیک کرتی ہے؟ امید ہے تب اس نکتہِ نظر کے حامی اپنی دلیل کو سامنے رکھتے ہوئے یہ اعتراض ہر گز نہیں کریں گے کہ عام معصوم بلوچ کو جس کا مزدوروں کے قتل سے کوئی تعلق نہیں اسے کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے؟ اسی طرح اگر ریاست سرمچاروں کی کارروائی کے ردعمل میں عام بلوچوں کو نشانہ بنائے تب بھی اس دلیل کی رو سے اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔

ہمارا خیال ہے کہ ضرورت مکالمہ کرنے سے زیادہ اس بات کی ہے کہ بلوچ قومی تحریک سے حقیقتا مخلص لوگوں کی جانب سے نسل پرستوں کی دو ٹوک مذمت کی جائے بجائے یہ کہ ریاستی تشدد یا پنجاب کی بیگانگی جیسے حیلوں بہانوں سے ان کے مزدور دشمن کردار کو جواز مہیا کرنے کی کوشش کی جائے کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو اس سے بلوچ قومی تحریک کو نقصان پہنچے گا اور بلوچستان کے خلاف رہاستی بیانیے کو مزید تقویت ملے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخر میں ایک بالکل صاف اور سیدھی بات۔ کمیونسٹ صرف اور صرف مزدور طبقے کے نمائندے ہوتے ہیں کسی قوم، نسل، مذہب، فرقے وغیرہ کے نمائندے نہیں۔ کوئی بھی قوم پرست کمیونسٹوں سے یہ توقع نہ رکھے کہ وہ مزدوروں کو قتل کرنے والی یا اس کی حمایت کرنے والی کسی بھی قومی تحریک کی حمایت کریں گے۔ ہم صرف اس قومی تحریک کی حمایت کریں گے جو مزدور دوست ہو اور مزدور دشمن ہر قومی تحریک کی مخالفت کریں گے کیونکہ مزدور دشمن ہر قومی تحریک اپنی قوم کے حکمران طبقے کے اقتدار کے لیے ہوتی۔ کمیونسٹوں کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ مزدور دشمنوں کے اقتدار کی آزادی کی تحریک کی حمایت کریں!

Facebook Comments

شاداب مرتضی
قاری اور لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”بلوچستان پر مکالمے کی ضرورت کے جواب میں۔۔۔ شاداب مرتضیٰ

Leave a Reply