محبت بھوک نہیں ہے۔۔پروفیسر رضوانہ انجم

سچی محبتوں کی تاریخ گواہ ہے کہ اہل محبت نے ہمیشہ جسم سے نہیں روح اور سوچ سے محبت کی،جسم انکی طلب کبھی تھا ہی نہیں۔۔بلکہ انھوں نے تو کبھی نظروں اور لفظوں سے بھی جسم کی حرمت کو داغدار نہیں کیا۔جس کو چاہا اسے کبھی بری نیت سے نظر بھر کے بھی نہیں دیکھا۔

پنوں کو سسی،رانجھے کو ہیر اور رومیو کو جولیٹ کبھی نہیں مل سکی۔۔۔تو کیا انکے بیچ محبت ختم ہو گئی؟

منصور بن حلاج جیسےنعرۂ اناالحق لگانے والے مجزوب ,اللہ کے برگزیدہ بندے کہ جنہوں نے ایک نصرانی راہبہ  کی محض ایک مبہم سی جھلک دیکھ کر اس سے تا دم ِ مرگ محبت کی۔۔۔۔اور اسی عشق مجازی کے صدقےانھیں عشق حقیقی نصیب ہوا۔

“اغول “منصور بن حلاج کی محبت بنی لیکن انھیں کبھی دوبارہ نہ ملی ،نہ مل سکی۔۔تو کیا مجزوب کی محبت کم ہوئی؟؟نہیں۔۔۔ہر گز نہیں،کیونکہ سچی محبت کی طلب جسم کا قبضہ نہیں روحوں اور ذہنوں کا اتصال ہوتی ہے۔۔۔

جسم کی بربادی ہو یا محبت کے نام پر کی جانے والی شادی۔دونوں ہی محبت کی دلیل نہیں ہیں۔صرف نفسانی خواہشوں کے تقاضے ہیں،جسم کی ضرورت ہیں،جسم کی بھوک ہیں۔
وگرنہ محبت کی شادیوں کا انجام کبھی طلاق نہ ہوتا۔

یاد رہے کہ۔۔
جسم کے تقاضے کو بھوک کہتے ہیں،محبت نہیں۔
سچی محبت بھوک نہیں ہوتی،طلب نہیں ہوتی۔
بخشش ہوتی ہے،کرم اور مہربانی ہوتی ہے۔۔۔۔۔

محبت لٹا دینے،نچھاور ہو جانے،نواز دینے کا نام ہے۔۔۔لوٹنے،قبضہ جمانے،محدود کرنے کا نہیں۔

اسی لیے نہ اس میں وقت کی کوئی اہمیت ہوتی ہے نہ فاصلوں کی۔۔نہ ملنے کی، نہ بچھڑنے کی۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جس کی جو طلب ہو اسے وہی ملتا ہے۔۔۔۔۔جسم کی طلب رکھنے والوں کو پھر جسم ہی ملا کرتا ہے۔روح نہیں ملتی،قلب و ذہن بھی نہیں ملتے۔
صرف جسم ملتے ہیں۔۔۔۔صرف جسم!
اور جسم تو ایک نہ ایک دن ختم ہو جاتے ہیں،
روح اور محبت ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”محبت بھوک نہیں ہے۔۔پروفیسر رضوانہ انجم

  1. رانجھے اور ہیر کی محبت کو سچی اور پاک محبت کہنے اور سمجھنے والے نا جانے اخلاقیات کے کون سی تعلیم سے بہرا مند ہوئے ہیں۔ رانجھے اور ہیر کی داستان اگر پڑھی جائے تو اس میں صاف دکھائی دیتا ہے کی ایک مرد ایک عورت کے جسم کے حصول میں دیوانہ ہے اور دوسری طرف وہ عورت بھی اخلاقیات کی ساری حدیں پھلانگ کر اس مرد کی آغوش میں سمانا چاہتی ہے ۔
    ہیر راجنھے کی داستان میں کیدو کو ایک شر کی علامت کے طور پر دکھانے والے دانش وروں سے سوال ہے کہ کیا کیدو ہیر اور رانجھے کو اچھے کاموں سے روک رہا تھا؟؟ یا برائی کے کاموں سے؟؟
    ڈاکٹر رشید انور نے ایک نظم ’’وارث‘‘ بھی لکھی۔ جس میں انہوں نے کیدو کے کردار کے بارے میں اس طرح بیان کیا۔
    جے وارث میں وارث ہندا جے میں زور وکھاؤندا فن دا
    کیدو جہے فرشتے تائیں میں وارث شیطان نہ من دا
    میں لکھدا تے اوہنوں لکھ دا پہرے دار عزت تے دھن دا
    میرا کیدو مار نہ کھاندا اوہ چوراں دے گٹے بھن دا
    میں کیدو نوں انکھی لکھدا، لکھدا پنڈ دا پیر گیانی۔۔
    جنس مخالف کے لیے اللہ نے کشش رکھی ہے اس سے انکار کون کر سکتا ہے ؟؟
    محبت اطاعت اور قربانی کا وہ جزبہ ہے جس میں جنس کی تخصیص کرنا مناسب نہیں ہے۔ جب تک اطاعت شعوری رہتی ہے محبت کہلاتی ہے اور

    1. اخلاقیات فطرت انسانی سے قطعاً متصادم نہیں ہیں لہذا یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ عشقیہ داستانوں میں مرد و زن ایک دوسرے کوبہن بھائی بن کر چاہتے تھےبلکہ یہ سوچ اجاگر کی گئی ہے کہ اگر محبت سچی ہو اور حصول یار نہ بھی ہوسکے تو محبت قائم رہتی ہے۔موجودہ زمانے کے نوجوانوں کی طرح صرف جسم کا حصول ذہن و دل پہ حاوی نہیں تھا۔ہیر و رانجھے،سسی و پنوں اور رومیو اور جولیٹ کی محبت اس لیے بھی شدھ اور سچی تھی کہ اگر وہ ایک دوسرے کو پا نہ سکے تو محبت ترک نہیں کی،زمانے سےاسکے بدلے نہیں لیے اور ریپسٹ اور تیزاب گرد بن کر بے قصوروں کو انتقام کا نشانہ نہیں بنایا۔کم از کم تبصرہ کرتے ہوئے تحریر کی غرض و غایت کو مد نظر ضرور رکھنا چاہیے۔بخیے ادھیڑنا تو مکالمہ کی پالیسی میں شامل نہیں ہے غالباً۔

      1. اخلاقیات فطرت کے تقاضوں سے متصادم ہو ہی نہیں سکتیں لیکن اخلاقیات ان فطری خواہشات اور ضروریات کو پوری کرنے کے قوائد وضوابط متعین
        کرتے ہوئےانسانی زندگی کے معاشرتی نظام کو رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ہیراور رانجھا ہو سسی و پنوں ہو یا رومیو اورجولیٹ ان سب داستانوں اور موجودہ وور کے مرد و زن میں کوئی تفریق نہیں کی جاسکتی ان تمام نے مروج اخلاقیات کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش کی اور آج بھی محبت کی نام پر یہی ہو رہا ہے ۔مقالمہ کہتے ہی اس بات کو ہیں کہ اگر آپ کی بات سے کسی کو اختلاف ہے تو دلیل سے اپنی بات کو موثر انداز میں واضع کریں۔

Leave a Reply