شمالی مشرقی ایشیا سے لے کر مغربی افریقہ تک دنیا میں بغاوتوں کا سلسلہ بھی کرونا کی طرح پھیلا رہا۔ سوڈان، میانمر اور کئی ممالک میں سیاسی قبضوں کی بازگشت نئے سال میں بھی سنائی دیتی رہی.
سوڈانی وزیراعظم عبدااللہ حمداق جن کا عہدہ 2 ماہ پہلے ہی فوجی سربراہان نے بحال کیا تھا اتوار کے دن استعفیٰ دینے کا اعلان کردیا۔ قوم سے خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ میں ملک کو تباہی سے بچانے کی جتنی کوشش کر سکتا تھا، میں نے کی۔
حمداق کی حکومت کے مختصر دورانیہ نے باغی لیڈروں کی جمہوریت پہ اعتماد کی کئی امیدوں کو خاک میں ملا دیا۔ اقوامِ متحدہ کے سابقہ افسر اگست 2019 میں وزیراعظم بنے تھے۔ انہیں یہ عہدہ عمر حسان البشیر کے ایک لمبے آمرانہ دور حکومت کے ختم ہونے کے بعد ملا۔ حمداق کو اس پوزیشن پر بحال کرنے کا فیصلہ بظاہر عالمی سطح پر کئی گئی شدید مذمت اور ملین ڈالرز کی عالمی مدد کو روکے جانے پہ کیا گیا تھا۔ مگر جیسا کہ واشنگٹن پوسٹ کے میکس بیرک اور مِریام برجر نے اس ہفتے لکھا کہ حمداق کے تعلقات فوج سے اختلافی ہی رہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ مظاہرین جنہوں نے بشیر کا تختہ الٹا تھا، غصے میں تھے کہ ان کا مکمل شہری حکومت کا مطالبہ بھی پورا نہیں ہوا۔
سوڈان میں آگے کیا ہونے جا رہا ہے یہ ابھی واضح نہیں ہے۔
مظاہرین کے رہنما، 51 سالہ سموئیل دفع اللہ نے ‘دی پوسٹ’ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا “کیا ایک با صلاحیت جمہوری حکومت کا مطالبہ بہت زیادہ ہے؟”
2021 جو غیر معمولی طور پر بغاوتوں اور تختوں کے الٹنے کا سال رہا، اس میں صرف سوڈان کی بغاوت ہی فوجی بغاوت ہے۔
یونیورسٹی آف سنٹرل فلوریڈا اور یونیورسٹی آف کنیٹکی کے جمع کردہ ڈیٹا کے مطابق اس سال کم از کم 5 کامیاب بغاوتیں ہوئیں جبکہ نائجیر میں ایک کامیاب فوجی قبضہ ہوا۔ یہ پچھلے سالوں کی سب سی کامیاب فوجی بغاوتیں تھیں اور پوری اکیسویں صدی کا ریکارڈ بھی۔
پچھلے سال کے آغاز ہوا یکم فروری کے میانمر میں فوجی قبضے سے، پھر مالی میں 24 مئی کو، اس کے بعد گنی میں 5 ستمبر کو اور پچھلے مہینے سوڈان کی بغاوت سے۔ چاڈ میں ہونے والی بغاوت کو ناقدین نے ‘خاندانی بغاوت’ کا نام دیا۔ ان 5 میں سے 4 تختے افریقہ میں الٹے گئے۔ جہاں پہلے ہی کئی دہائیوں سے بغاوتوں کا سلسلہ جاری ہے۔
مگر اس کے باوجود یہ بغاوتیں پوری دنیا میں تشویش کی نظر سے دیکھی گئیں۔ اکتوبر میں اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری انٹانیو گٹرس نے اسے بغاوتوں کی وبا قرار دیا اور کہا کہ ہماری سیاسی و جغرافیائی تقسیم نے اس کی روک تھام میں رکاوٹ ڈالی۔
بشکریہ واشنگٹن پوسٹ
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں