کینسر (68) ۔ جین کی میوٹیشن/وہاراامباکر

برازیل میں 1872 میں ہلاریو ڈی گوویا ایک ماہرِ چشم تھے۔ وہ ایک لڑکے کا علاج کر رہے تھے جس کی آنکھ میں کینسر تھا۔ ریٹینوبلاسٹوما بہت نایاب کینسر ہے۔ انہوں نے لڑکے کی آنکھ نکال دی۔ لڑکا زندہ رہا۔ شادی ایک خاتون سے کی جس کی فیملی میں کینسر ہسٹری نہیں تھی۔ ان کے کئی بچے ہوئے اور ان میں سے دو لڑکیاں تھیں جن کو دونوں آنکھوں میں وہی کینسر ہوا جو ان کے والد کو تھا اور اس سے ان کا انتقال ہو گیا۔ ڈی گوویا نے اس کیس کو ایک معمے کے طور پر رپورٹ کیا۔ انہیں جینیات کی سائنس کا علم نہیں تھا لیکن یہ کیس بتاتا تھا کہ کچھ وراثتی فیکٹر ہے جو جین میں رہتا ہے اور کینسر کا سبب بنتا ہے۔ لیکن اس مفروضے کو ٹیسٹ کیسے کیا جاتا؟ ڈی گوویا کی رپورٹ کو نظرانداز کر دیا گیا۔
دوسری بار ایسا کیس کئی دہائیوں بعد آیا۔ مکھیوں پر تجربہ کرتے ہوئے تھامس ہنٹ نے دریافت کیا کہ شاذ و نادر مکھیوں میں ایک میوٹنٹ پیدا ہو جاتا ہے جو عام سے ہٹ کر ہوتا ہے۔ مورگن نے نوٹ کیا کہ مکھیں کے ایک بڑے گروپ میں کوئی مکھی پیدا ہو جائے گی جس کے پر بہت بڑے ہوں گے اور کھردرے ہوں گے۔ مورگن نے دریافت کیا کہ اس کی وجہ جینات میں تبدیلی ہے اور یہ میوٹیشن ایک نسل سے اگلی میں بھی منتقل ہوتی ہے۔
اب سوال یہ کہ اس میوٹیشن کی وجہ کیا ہے؟ مورگن کے ایک سٹوڈنٹ ہرمن جوزف ملر نے دریافت کیا کہ مکھیوں پر اگر ایکسرے ڈالی جائیں تو میوٹیشن کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔ ایکسرے کی بمباری کر کے  انہوں نے چند مہینوں میں سینکڑوں میوٹنٹ بنا لئے۔ مورگن اور ان کے ساتھی بیس برسوں میں اتنے میوٹنٹ نہیں حاصل کر سکے تھے۔
ایکسرے اور میوٹیشن کا تعلق مورگن اور ملر کو کینسر کے بارے میں اہم انکشاف کے قریب لے گیا۔ ریڈی ایشن سے کینسر کے تعلق کا علم تھا۔ چونکہ ایکسرے کی وجہ سے مکھیوں میں میوٹیشن ہوتی تھی تو کیا کینسر میوٹیشن کی بیماری تھی؟ اور چونکہ میوٹیشن جین میں تبدیلی لے کر آتی تھیں تو کیا جینیاتی تبدیلیاں کینسر کی “واحد وجہ” ہو سکتی تھیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن مورگن اور میولر اس نتیجے تک نہیں پہنچ سکے۔ مورگن کو جینیات پر کام کرنے پر نوبل انعام 1933 میں ملا۔ وہ اس کے قائل تھے کہ مکھیوں پر کئے گئے کام کا انسانی بیماریوں سے کوئی تعلق جوڑا بھی نہیں جا سکتا۔ (ملر کو نوبل انعام 1946 میں ملا)۔ مورگن اور ملر کے آپس کے تعلقات تلخ تھے۔ مورگن کا کہنا تھا کہ جینیات پر کام صرف انٹلکچوئل ہے۔ اس کا عملی فائدہ نہیں۔ ایسا ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں اس کا میڈیسن سے کوئی تعلق بن سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن 1940 کے اونکولوجسٹ کے لیے ایسا کوئی خیال دور کی کوڑی تھا۔ کینسر کے اندرونی اور جینیاتی وجہ کی تلاش کا کام بویری کے وقت سے تعطل کا شکار تھا۔ کینسر کے ٹشو میں خلیاتی تقسیم کے وقت کی پیتھولوجی نمایاں تھی۔ لیکن ماہرینِ جینیات اور ایمبریولوجسٹ کلیدی سوال کا جواب دینے میں کامیاب نہیں تھے۔ کیا وجہ ہے کہ خلیاتی تقسیم کا انتہائی نفیس اور ریگولیشن والا پراسس خرابی کا شکار ہو جاتا ہے؟
اور اس سے گہرائی میں، جو چیز ناکام ہوئی تھی وہ بائیولوجی میں تخیل کی ناکامی تھی۔ بویری نے سمندری ارچن سے کینسر تک ذہنی چھلانگ لگائی تھی۔ یا مورگن نے مٹر کے پودوں سے مکھیوں تک۔ یہ اس لئے ممکن تھا کہ زندہ دنیا میں خلیاتی بلیوپرنٹ کا نظام ایک ہے۔ بائیولوجی میں ایک جاندار سے اگلے میں قلابازی لگا کر ماڈل بنائے جانا معمول تھا۔ لیکن اس ذہنی چھلانگ کو انسانی بیماریوں تک لانے میں فکری رکاوٹ رہی۔ مکھیوں کے بڑے پر اور انسانی جلد پر ٹیومر؟ ان کا بھلا کیا جوڑ تھا۔ ایک ڈاکٹر جینیات کے ماہر سے کینسر کی پیتھوفزیولوجی سمجھنے میں مدد لے گا؟ یہ ناقابلِ تصور تھا۔
بائیولوجیکل ریسرچ اور میڈیکل ریسرچ کے درمیان اس رکاوٹ بہت دیر تک حائل رہی۔
جین اور میوٹیشن کی طرف کینسر ریسرچر کی واپسی 1970 کی دہائی میں ہوئی۔ لیکن واپسی کا یہ سفر اور کینسر کی واحد وجہ کی تلاش نے اس دوران نیا ہی راستہ لیا۔
یہ بائیولوجی کی نئی دنیا تھی اور پچاس سال کا سفر تھا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply