اٹلی کی امیگریشن یا دکھوں کی گرد۔۔محمود اصغر چوہدری

کیااطالوی حکومت واقعی مزیدغیر ملکی شہریوں کو امیگریشن دینے والی ہے؟

ٹیلیفون پر اس کی آوازمیں غم وغصہ کی آمیزش تھی میں نے جواب دیا کہ ہاں اٹلی کی موسمی امیگریشن کااعلان ہوگیا ہے اس سال ستر ہزار افراد کا کوٹہ ہے وہ فوراًکہنے لگا آپ کچھ کرتے کیوں نہیں؟ آپ اطالوی حکام کو بتاتے کیوں نہیں کہ اس موسمی امیگریشن کے فراڈ کے نام پر کتنے پاکستانی اپنی زندگی کی کل پونجی لٹا بیٹھے ہیں؟ تو میں نے اسے سمجھانے کی  غرض سے کہا کہ موسمی کام کی امیگریشن اٹلی میں فروٹ پکنے کے موسم میں کھلتی ہے تاکہ اطالوی زمینداراپنے کھیتوں میں کام کے لیے مزدور بلا لیں یا پھر سیاحی مقام پر موجود ریستورانوں کے مالکان موسم گرما میں اپنے ہوٹل چلا سکیں اس نے میری  بات کاٹتے ہوئے کہا کہ وہ جانتا ہے موسمی امیگریشن کیا ہوتی ہے مگر اس امیگریشن کے جھانسے میں میں ایجنٹ طبقہ بھولے بھالے پاکستانیوں کو لوٹتا ہے ۔اٹلی آنے کے بعد ان کے ڈاکیومنٹس کی تجدید نہیں ہوتی ۔۔وہ گھر کے رہتے ہیں اور نہ گھاٹ کے ۔۔

اٹلی کے جنوبی علاقہ جات کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے اور یہی وہ علاقے ہیں جہاں سے موسمی کام کے ویزے زیادہ نکلتے ہیں کیونکہ ایسے علاقوں میں رہنے والے اطالوی چھوٹے زمینداروں کو خریدنا آسان ہوتا ہے ۔ پاکستانی ایجنٹ ایسے اطالوی زمینداروں سے گٹھ جوڑ کرلیتے ہیں اورہزار یادو ہزار یورو فی کس کے حساب سے ویزہ نکلوالیتے ہیں اور پاکستان میں یہی ویزہ دس دس بارہ بارہ لاکھ روپے میں بکتے ہیں ایسے جعلی معاہدوں میں اطالوی زمیندار سے یہ بات طے کر لی جاتی ہے کہ متعلقہ پاکستانی مزدور کو صرف اٹلی پہنچانا ہے اور اس کے کاغذات نہیں بنوائے جائیں گے ۔ اٹلی آنے کے بعد ان کی رجسٹریشن کسی بھی محکمے میں نہیں کرائی جاتی اور نہ ہی انہیں کسی قسم کے کاغذات بنوا کر ان کی حیثیت لیگل کروائی جاتی ہے اور اس طرح بارہ لاکھ خرچ کرکے اٹلی پہنچنے والے کو بے یارومددگار اٹلی کے ساحلوں پر گشت کرنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے ۔

ایسانہیں ہے کہ حکومت اٹلی ایسے ایجنٹ طبقہ سے بے خبر ہے وہ بارہا ایسے گروہوں کو پکڑتی بھی رہتی ہے لیکن کیا کریں کہ سخت سے سخت قانون بھی چالاک لوگوں کے لئے موم کی ناک کی طرح ہوتے ہیں جنہیں جب چاہیں وہ موڑ لیتے ہیں اس سال بھی موسمی امیگریشن کی خبر سنتے ہی ایجنٹ طبقہ متحرک ہوگیا ہے چھریاں چاقو تیز کئے جا چکے ہیں اور” لیلوں“ کی تلاش شروع ہوچکی ہے ،ساؤتھ اٹلی کے چھوٹے زمینداروں ، سیاحی علاقوں کے چھوٹے ریستورانوں کے مالکان ، کنسٹرکشن سے وابستہ چھوٹے آجروں اوراپنے ہی پاکستانی بھائیوں کو لوٹنے والے ایجنٹ طبقہ نے گٹھ جو ڑ کرنا شروع کردیا ہے ۔ مختلف یوٹیوبرز اور بلاگرز غلط معلومات کے ذریعے لوگوں کو سبز باغ دکھانا شروع ہوگئے اور ایڈوانس فیس کے نام پر ان سے پیسے بٹورنے کی تیاری میں ہیں۔

حکومت پاکستان نے غیر قانونی امیگریشن کی روک تھام میں تعاون کی شرط پرحکومت اٹلی کے ساتھ معاہدہ کیا ہوا ہے ۔ کہ اٹلی پاکستان سے بھی ہر سال ایک ہزار شہری اس امیگریشن میں لے گا ۔ چونکہ موسمی کام کے ختم ہوتے ہی مزدور کو اپنے ملک واپس لوٹ کے جانا ہوتا ہے۔ اس لئے پاکستانی اس امیگریشن سے کماحقہ فائدہ نہیں اٹھا سکتے کیونکہ جتنی کمائی موسمی کام کی صورت میں ہوتی ہے اس سے تو جہاز کی آنے جانے کی ٹکٹ ہی خریدی جا سکتی ہے ۔

حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ اٹلی کے ساتھ ایسے کسی بھی سیزنل کام کے معاہدے سائن نہ کرے بلکہ پروفیشنل ورک اور مستقل بنیادوں کے کام کے معاہد ہ جات کرے۔ اٹلی میں موجودکمیونٹی ویلفیئر اتاشی کو چاہیے کہ وہ اٹلی کی وزارت داخلہ کے ساتھ ایسا معاہدہ کریں جس  میں پاکستان میں ایسے انسٹیٹیوٹ قائم کئے جائیں جہاں سے ٹریننگ کے بعد پاکستانی ورکر اٹلی آسکیں ۔یاد رہے کہ بہت سے ممالک میں ایسے سکول چل رہے ہیں جو ان ممالک میں اطالوی ایمبیسی کے تحت کورسز کراتے ہیں ۔اور ایسے ورکروں کے لئے ہر سال علیحدہ کوٹہ ہوتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی ٹرانسپورٹ سے وابستہ ڈرائیورویزہ کا بھی اچھا خاصہ کوٹہ موجود ہے لیکن اس میں بھی پاکستانی فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے کیونکہ پاکستان کا ڈرائیونگ لائسنس اٹلی میں ویلڈ ہی نہیں ۔ میں بار ہا سفیران وطن اور حکومتی نمائندگان کو آگاہ کر چکا ہوں کہ اٹلی کے ساتھ ڈرائیونگ لائسنس کا معاہد ہ سائین کیا جائے لیکن کبھی کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا۔
پاکستانی میڈیا کا فرض بنتا ہے کہ وہ اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والے فراڈ کا پردہ فاش کرے۔ ان لوگوں کی حالت زار پر دستاویزی فلمیں بنائے اور پاکستانیوں کو دکھائے کہ انکے ہم وطنوں پر کیا بیت رہی ہے۔ پاکستان ایف آئی اے کاادارہ ایسے ایجنٹ طبقہ کو بے نقاب کرے جو اپنے ہی پاکستانی بھائیوںکا خون چوس رہے ہیں ۔ پاکستانی حکومت ایسی پالیسز مرتب کرے جس کے تحت ملک سے نکلنے والی لاکھوں کی دولت ملک میں استعمال ہوسکے اور ہم میں سے ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ کسی کو مجبوریاں خریدنے کی کوشش نہ کرے اور جعل سازوں کے ہاتھو ں شکار ہونے والے کو بھی چاہیے کہ وہ مکمل معلومات کے بغیر رخت سفر نہ باندھ لیں
نشانی کوئی تو اب کے سفر کی گھر لانا
تھکان پاؤں کی اور تتلیوں کے پَر لانا
سفر کے شوق میں چل تو پڑے ہو تم گھر سے
دکھوں کی گر د سے دامن نہ اپنا بھر لانا!

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply