یورپ‘ امریکہ جانا چاہتے ہیں؟۔۔۔گل نوخیز اختر

نعیم ببلی صاحب میرے محلے دار ہیں۔ ببلی اُن کی بیگم کا نام ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اُن کی بیگم کا نام ببلی نعیم ہوتا لیکن چونکہ نعیم صاحب اپنی بیگم سے بہت پیار کرتے ہیں لہٰذا انہوں نے زمانے کی روایت سے صریحاً انحراف کرتے ہوئے اپنے نام کے ساتھ بیگم کا نام لگا لیا ہے۔ اُن کی بیگم کی شدید خواہش ہے کہ نعیم صاحب باہر چلے جائیں۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ بیگم کی یہ خواہش شادی کی پہلی رات جاگی تھی تاہم نعیم صاحب کئی بار وضاحت کر چکے ہیں کہ باہر جانے سے مراد گھر سے باہر جانا نہیں بلکہ ملک سے باہر جانا ہے۔ نعیم صاحب خود بھی باہر جانا چاہتے ہیں‘ انہیں یقین ہے کہ ایک دفعہ وہ یورپ پہنچ گئے تو آٹھ دس سال میں نہ صرف اپنا گھر بنا لیں گے بلکہ اپنے سانڈو سے اچھی گاڑی بھی خرید لیں گے۔ باہر جانے کے لیے انہوں نے سب سے پہلے ایک ایجنٹ سے رابطہ کیا‘ جس نے انہیں بتایا کہ مبلغ پانچ لاکھ کے عوض وہ بغیر ویزے کے اُنہیں یورپ پہنچا دے گا۔ نعیم صاحب کی باچھیں کھل گئیں‘ فوراً بیگم سے مشورہ کیا‘ زیورات بیچے اور پانچ لاکھ ایجنٹ کو تھما دیے۔ ایجنٹ نے اُنہیں ایک ماہ بعد تیار رہنے کا حکم دیا۔ روانگی کے روز وہ بڑے دل گرفتہ نظر آئے‘ بیگم سے بچھڑتے ہوئے اُن کے آنسو نکل آئے ‘ بھرائی ہوئی آواز میں بولے ”ببلی! میں تینوں وی اوتھے ای بلا لینا اے‘‘۔ مسماۃ ببلی بھی جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں اور ایک کیلکولیٹر نعیم صاحب کی جیب میں ڈال کر روتے ہوئے بولیں ”بس وہاں پہنچ کر کوئی بھی چیز کھانے یا خریدنے سے پہلے پائونڈ کو پاکستانی کرنسی میں کنورٹ کر کے حساب ضرور لگا لیجئے گا تاکہ بلا وجہ کا خرچہ نہ ہو‘‘۔ اس تمام تر جذباتی گفتگو میں ایک گھنٹہ ضائع ہو گیا تاہم ایجنٹ نظر نہیں آیا۔ جب دو تین گھنٹے گزر گئے تو ایجنٹ کو فون کیا گیا‘ جواب ملا کہ آپ کا مطلوبہ نمبر بند ہے۔ اس کے بعد یہ نمبر کبھی آن نہیں ہوا۔ پانچ لاکھ ضائع ہو گئے اور نعیم صاحب کی اُمیدوں پر پانی پھر گیا۔ کچھ عرصے بعد انہیں دوبارہ باہر جانے کا جنون چڑھا۔ میرے پاس آئے اور کہنے لگے ”تم تو کالم نگار ہو‘ بڑی واقفیت ہے‘ کوئی طریقہ لڑائو کہ میں بس ایک دفعہ یورپ چلا جائوں۔‘‘ میں گڑبڑا گیا ”یعنی آپ وہاں جا کر سلپ ہونا چاہتے ہیں؟‘‘۔ بے نیازی سے بولے ”ہاں تو اس سے کیا ہوتا ہے‘ میرا سانڈو بھی وہاں جا کر سلپ ہو گیا تھا‘‘۔ میں اچھل پڑا ”تو پھر آپ کے سانڈو کو کسی نے پکڑا نہیں؟‘‘۔ فوراً بولے ”پکڑا تھا… ایک انگریز نے بڑی مشکل سے پکڑا اور اُٹھایا اور سمجھایا کہ بھائی جی بارش میں سنبھل کر چلا کرو ورنہ پھر سلپ ہو جائو گے‘‘۔ اُس روز نعیم صاحب بضد رہے کہ میں اُنہیں یورپ بھجوا دوں اور میں بار بار اُن کے ہاتھ جوڑتا رہا کہ اگر یورپ بھجوانا میرے بس میں ہوتا تو میں خود نہ نکل گیا ہوتا…!!!
نعیم صاحب نے ہمت نہ چھوڑی اور بالآخر ایک ایجنٹ نے اُنہیں کنٹینر میں بٹھا کر یونان کی طرف روانہ کر دیا۔ راستے میں بد ترین حالت میں پکڑے گئے اور دوبارہ ملک میں لائے گئے۔ کیس چلا اور بڑی مشکل سے جان چھوٹی۔ اس ساری محنت کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے باہر جانے کا ارادہ بالکل ترک کر دیا اور جو کچھ اُن کے ساتھ ہوا تھا وہی وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ کرتے پھر رہے ہیں… یعنی خود ایجنٹ بن گئے ہیں۔
ملک سے باہر جا کر کمانے کا سب سے بڑا کریز یہ ہے کہ وہاں ہمیں کوئی کم تر نوکری بھی ملے تو کوئی اپنا دیکھنے والا نہیں ہوتا‘ پیسے تو اتنے اچھے نہیں ملتے لیکن جب وہ پیسے وطن بھیجے جاتے ہیں تو یہاں کے حساب سے اچھے خاصے بن جاتے ہیں۔ غیر قانونی طور پر یورپ امریکہ جانے والوں کی اکثریت اس بات سے لا علم ہے کہ اگر وہ تھوڑی سی محنت کریں تو باعزت اور قانونی طریقے سے بھی باہر جا سکتے ہیں۔ باہر جا کر کمانے میں کوئی حرج نہیں‘ لیکن اس کے لیے اپنی زندگی کو شدید خطرات لاحق کروا لینا کہاں کی عقل مندی ہے۔ اس معاملے میں سب سے زیادہ اثر اُن کہانیوں نے ڈالا ہے جو ہمارے اکثر تارکین وطن سناتے رہتے ہیں… کہ میں کنٹینر میں رہا‘ تین دن بھوکا رہا‘ پھر اٹلی میں آتے ہی مجھے بدمعاشوں نے گھیر لیا… پھر میں نے لوڈر کی جاب کی… نائی کے پاس کام کیا… لیکن ہمت نہیں ہاری… اور یوں میں آج امیر ترین انسان ہوں۔ اِن میں سے اکثر کہانیاں جھوٹ کا پلندہ ہوتی ہیں اور کئی لوگ صرف اس لیے بارہ مصالحے ڈال کر سناتے ہیں کہ اِس سے وہ اپنے غیر قانونی طور پر داخلے کے جواز کو گلوریفائی کر سکیں۔ عام نوجوان اس چیز کو نہیں سمجھتے لہٰذا اُنہیں لگتا ہے کہ وہ بھی اگر اِس ذلالت سے گزریں گے تو اُنہیں بھی ایسی ہی زندگی نصیب ہو گی… حالانکہ کئی اسی اُمید پر راستے میں ہی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ اِن میں سے جن کا تُکا لگ جاتا ہے وہ یورپ امریکہ پہنچ بھی جائیں تو قید خانے جیسی سہمی ہوئی زندگی گزارتے ہیں ۔ پھر یہ نہ وہاں کے رہتے ہیں نہ اپنے ملک کے۔ یہ چاہیں بھی تو واپسی کا نہیں سوچ سکتے کہ کوئی سفری دستاویز اِن کے پاس نہیں ہوتی۔ آئے دن خبریں چھپتی ہیں کہ ایف آئی اے نے غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے والوں کو پکڑ لیا۔ آٹھ دس سال پہلے میں یہ خبریں بہت شوق سے پڑھتا تھا کیونکہ ایسی ہر خبر میں ‘انسپکٹر گل صنوبر‘ کا نام آتا تھا اور مجھے لگتا تھا کہ گل صنوبر کوئی انتہائی تیز طرار اور ذہین لڑکی ہے۔ بعد میں پتا چلا کہ جیسا میں گل نوخیز ہوں… ویسا ہی وہ گل صنوبر ہے…!!!
باہر جانے کے شوقینوں کو اندازہ ہی نہیں کہ وہاں کی زندگی کیا ہے۔ یہاں دو ہزار روپے میں ماسی مل جاتی ہے جو سارے کپڑے دھو جاتی ہے۔ وہاں ماسی کی بجائے کافر حسینہ ہوتی ہے‘ اپنی گاڑی میں آتی ہے اور فی گھنٹے کے حساب سے پائونڈ چارج کرتی ہے۔ مہنگائی وہاں ہم سے زیادہ ہے لیکن لگتی اس لیے نہیں کہ وہاں 18 سال کی عمر کو پہنچنے والا گھر کا ہر فرد کام کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ یہاں تو ایک کماتا ہے‘ آٹھ کھاتے ہیں اور بعد میں شکوہ بھی کرتے ہیں کہ ”ابا جی تسیں ساڈے واسطے کیتا کی اے؟‘‘۔
بیرون ملک جانا اتنی بری بات نہیں جتنا غلط طریقے سے جانا۔ امیگریشن ہی چاہیے تو ایجنٹ کی بجائے اپنے اندر کرنٹ پیدا کریں۔ باہر کے ممالک بھی ٹیلنٹ کی قدر کرتے ہیں لیکن کس میں ٹیلنٹ ہے؟ اس کا فیصلہ آپ نے خود سے نہیں کرنا‘ یہ اُنہی پر چھوڑ دیں۔ ٹیلنٹ کے علاوہ آپ کا تمام تر حدود اربعہ بھی معلوم کرنا ان کا حق ہے کہ ہم جیسے اکثر لوگوں نے ہی وہاں جا کر نت نئی چالاکیاں متعارف کرائی ہیں۔ یہ جو لوگ غیر قانونی طریقے سے باہر جاتے ہیں اور پھر پکڑے جاتے ہیں‘ یہ فوراً ڈی پورٹ ہو جاتے ہیں ‘ واپس اپنے ملک میں بھیج دیے جاتے ہیں ‘ ان کا کوئی نام بھی یاد نہیں رکھتا ‘ ہاں یاد رہتا ہے تو صرف اتنا کہ یہ لوگ پاکستان سے آئے تھے۔ دھبہ پاکستان کے نام پر لگتا ہے ‘ ان کی تعداد پاکستان کے کھاتے میں لکھی جاتی ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے قانونی طور پر بھی اپلائی کرنے والے شک کی زد میں آ جاتے ہیں۔ سو … میری گزارش ہے کہ سکندر اعظم ہمارا ہیرو ضرور ہے لیکن ضروری نہیں جس طرح وہ یونان میں داخل ہوا تھا ہم بھی اس کی پیروی میں اسی طرح داخل ہوں۔
(یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب کے زیر اہتمام غیر قانونی امیگریشن کے حوالے سے منعقدہ سیمینار میں پڑھا گیا)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply