• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سقوطِ ڈھاکہ، قراردادِ پولینڈ اور مغالطے۔۔شاداب مرتضیٰ

سقوطِ ڈھاکہ، قراردادِ پولینڈ اور مغالطے۔۔شاداب مرتضیٰ

سقوطِ ڈھاکہ، قراردادِ پولینڈ اور مغالطے۔۔شاداب مرتضیٰ/مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام کی تاریخ میں پولینڈ کی قرارداد خاص اہمیت رکھتی ہے جسے 15 دسمبر 1971ء کو اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں پیش کیا گیا تھا۔ اس قرارداد میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان فوری جنگ بندی کی تجویز دی گئی تھی جسے پاکستان نے ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ غصے سے بھرے ذوالفقار بھٹو نے اسی اجلاس میں کاغذ پھاڑ کر پھینکے تھے اور اجلاس سے واک آؤٹ کیا تھا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ پولینڈ کی قرارداد تھی جسے بھٹو نے پھاڑ کر پھینکا تھا اور بعض لوگوں کی، جن میں بینظیر بھٹو بھی شامل ہے، یہ رائے ہے کہ یہ پولینڈ کی قرارداد نہیں بلکہ اجلاس میں لیے گئے بھٹو کے نوٹس تھے۔

پاکستان کی سرکاری تاریخ کے مطابق پولینڈ کی قرار داد کا پاکستان کے لیے کوئی فائدہ نہیں تھا۔ پاکستانی بیوروکریٹ اور سفارتکاروں کی رائے میں پاکستانی اور انڈین فوج کے درمیان پاکستانی فوج کے سرینڈر پر عملدرآمد سکیورٹی کونسل کے اس اجلاس سے پہلے ہی شروع ہوچکا تھا جس میں یہ قرارداد پیش کی گئی تھی اس لیے اگر یہ قرارداد منظور ہوجاتی تو بھی زمینی حالات پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ انڈیا کی فوج فتح کیے گئے علاقے واپس نہ کرتی۔ پولینڈ کی قرادداد پر عمل کرنا ایک طرح کا سرینڈر ہی ہوتا کیونکہ اس میں متحدہ پاکستان سے انڈین فوج کی واپسی اور مقبوضہ علاقے پاکستان کو واپس لوٹانے کی بات نہیں کی گئی تھی۔ اس رائے کے حامل بعض لوگوں کا خیال یہ بھی ہے کہ پولینڈ کی قرارداد کا فائدہ انڈیا کو پہنچتا۔ اس کی وجہ سے پاکستان کا مشرقی حصہ اور مغربی خطے کے بعض علاقے انڈیا کے پاس چلے جاتے۔ جبکہ بعض دیگر لوگوں کا ماننا ہے کہ پولینڈ کی قرارداد سوویت یونین کی سازش تھی کیونکہ سوویت یونین انڈیا کا اتحادی تھا اور پولینڈ اس وقت سوویت یونین کی کٹھ پتھلی ریاست تھا۔ پولینڈ کے ذریعے قرارداد پیش کروا کر سوویت یونین انڈیا کے اتحادی کے طور پر اس کے ایجنڈے  کو آگے بڑھا رہا تھا۔

اس کے برعکس، پولینڈ کی قرارداد کے بارے میں ایک دوسری رائے یہ ہے کہ اگر پاکستان پولینڈ کی قرارداد مان لیتا تو نہ مشرقی پاکستان الگ ہوتا، نہ فوج کو سرینڈر کرنا پڑتا اور نہ ہی اس وجہ سے شملہ معاہدہ کرنے کی نوبت آتی۔ اس قرارداد کا متن پڑھ کر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس میں انڈیا اور پاکستان دونوں ملکوں  کو فوراً جنگ بندی کرنے، اپنی فوجیں واپس بلانے اور مذاکرات کے ذریعے تنازعے کو مکمل ختم کرنے کی بات کی گئی تھی۔ قرارداد میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ انڈیا مغربی پاکستان سے اپنی فوج واپس بلانے کے لیے فوری طور پر فوجی مذاکرات شروع کرے۔ قرارداد میں یہ تجویز بھی دی گئی تھی کہ الیکشن کے نتائج کے مطابق حکومت عوامی لیگ کو دی جائے اور شیخ مجیب الرحمن کو فورا ًرہا کیا جائے۔ اس لیے پولینڈ کی قرارداد کے متن کو سامنے رکھا جائے تو یہ بات غلط ثابت ہوتی ہے کہ اس کا مقصد انڈیا کو فائدہ اور پاکستان کو نقصان پہنچانا تھا یا اس میں انڈیا سے پاکستانی مقبوضہ علاقے خالی کرنے کی بات نہیں کی گئی تھی۔

عوامی لیگ کو اقتدار دینے اور شیخ مجیب کو فوراً  رہا کرنے کی بات پولینڈ کی قرارداد کے بارے میں اس الزام پر سوال اٹھاتی ہے کہ یہ قرارداد انڈیا کے فائدے میں تھی۔ انڈیا کا فائدہ تو اس چیز میں تھا کہ انڈین فوج فاتحانہ پیش قدمی جاری رکھے اور جنگ بندی سے پہلے زیادہ سے زیادہ پاکستانی علاقوں پر قبضہ کر کے انہیں انڈیا میں شامل کر لے۔ انڈیا کی مشرقی فوج کی کمانڈ کا منصوبہ بھی یہی تھا کہ جنگ بندی کی نوبت آنے سے پہلے پاکستان کے زیادہ سے زیادہ ٹاؤن قبضے میں لے لیے جائیں۔ انڈیا کا فائدہ تو اس چیز میں تھا کہ جنگ بندی کا معاہدہ ایسا ہو جس میں اسے پاکستان کے مفتوحہ علاقے واپس نہ کرنا پڑیں۔ لیکن اس کے برعکس پولینڈ کی قرارداد میں، جسے سوویت یونین کی حمایت بھی حاصل تھی، واضح طور پر کہا گیا کہ انڈیا فوج واپس بلائے اور مقبوضہ علاقے خالی کرنے کے لیے فوری اقدامات اٹھائے۔

یہ بات بے وجہ نہیں تھی کہ پولینڈ کی قرارداد اور سوویت یونین کی جانب سے اس کی حمایت سے انڈیا دباؤ میں آگیا تھا۔ اس وقت اندرا گاندھی کے پرنسپل سیکریٹری، پی۔ این۔ دھر نے اندراگاندھی پر اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جب اندراگاندھی کو پتہ چلا کہ پولینڈ کی قرارداد میں انڈیا سے پاکستان کے مفتوحہ علاقے واپس کرنے کی بات کی گئی ہے تو وہ غصے میں آگئی  اور پی این دھر کو لگا کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ سوویت یونین اس پر دباؤ ڈال رہا تھا کہ پاکستانی علاقے واپس کیے جائیں۔ امریکی اسکالرز رچرڈ سیسون اور لیو ای روز مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر اپنی کتاب “جنگ اور علیحدگی: پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش کی تخلیق: کیلیوفورنیا یونیورسٹی پریس، برکلے) میں بتاتے ہیں کہ انڈیا کی حکومت پولینڈ کی قرارداد پر تشویش میں مبتلا تھی کیونکہ یہ سوویت یونین کی پچھلی قرردادوں سے مماثلت تو رکھتی تھی مگر اس میں ان سے الگ یہ بات بھی شامل تھی کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے مفتوحہ علاقے واپس کریں جن میں سیز فائر لائن پر کشمیر کا کچھ علاقہ بھی شامل تھا۔

سو، پولینڈ کی قرارداد نہ ہی انڈیا کی سازش تھی اور نہ ہی پاکستان کے خلاف سوویت یونین کی کوئی چال تھی جس کے زریعے وہ انڈیا کو فائدہ پہنچانا چاہتا تھا۔ اور نہ ہی یہ قررداد پیش کر کے پولینڈ سوویت پولینڈ ہونے کی وجہ سے سوویت یونین کی کٹھ پتلی کا کردار ادا کر رہا تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ خود سوویت یونین کی خارجہ پالیسی کا مقصد بھی انڈیا کو نوازنا اور پاکستان کو تقسیم کرنا یا اسے نقصان پہنچانا دکھائی نہیں تھا۔ مثلا، مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد جب انڈیا نے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کے لیے تقریب منعقد کرنا چاہی تو سوویت یونین نے انڈیا کو اس سے باز رہنے کی تجویز دی۔ سوویت یونین کا خیال تھا کہ انڈیا کے اس عمل سے پاکستان کے زخم پھر سے ہرے ہو سکتے تھے اور نتیجے میں پھر سے دونوں ملکوں کے درمیان جنگ چھڑ سکتی تھی۔

پولینڈ کی قرارداد کا متن: (S/10453/Rev 1)

سکیورٹی کونسل، جو انڈین برصغیر میں فوجی تنازعے پر شدید فکرمند ہے، جو بین الاقوامی امن اور تحفظ کے لیے فوری خطرے پر مشتمل ہے، انڈین وزیرِ خارجہ اور پاکستان کے نائب وزیرِ اعظم کے بیانات سننے کے بعد فیصلہ کرتی ہے کہ:

1. تنازعے کے مشرقی محاذ پر، اقتدار کو پرامن طریقے سے قانونی طور پر منتخب عوامی نمائندوں کو منتقل کیا جائے جن کی سربراہی شیخ۔مجیب الرحمن کر رہا ہے، جسے فورا ًرہا کیا جائے گا؛

2. اقتدار کی منتقلی کے عمل کے آغاز کے فورا بعد تمام علاقوں میں فوجی کارروائیاں روک دی جائیں گی اور 72 گھنٹوں کے دورانیے کے لیے ابتدائی جنگ بندی (سیز فائر) شروع کی جائے گی؛

3. ابتدائی جنگ بندی کے آغاز کے فورا بعد پاکستانی مسلح افواج تنازعے کے مشرقی محاذ پر پہلے سے طے شدہ مقامات ہر واپس جائیں گی، اس غرض سے کہ تنازعے کے مشرقی محاذ سے ان کا انخلاء کیا جا سکے؛

4. اسی طرح، تمام مغربی پاکستان کے وہ تمام سول اہلکار اور افراد جو مغربی پاکستان واپس جانا چاہیں اور تمام مشرقی پاکستان کے وہ تمام سول اہلکار و افراد جو گھر واپس جانا چاہیں انہیں اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں ایسا کرنے کا موقع دیا جائے گا، تمام متعلقہ حکام کی جانب سے اس ضمانت کے ساتھ کہ کسی کو بھی جبر کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا؛

5. جونہی 72 گھنٹے کے وقت کے دوران پاکستانی سپاہیوں کی واپسی اور اس مقصد کے لیے ان کے ارتکاز کا عمل شروع کیا جائے گا تو جنگ بندی مستقل ہوجائے گی۔ انڈیا کی مسلح افواج کو مشرقی ہاکستان سے ہٹایا جائے گا۔ سپاہیوں کی یہ واپسی اس نئی قائم شدہ حکومت کی مشاورت سے ہو گی جو عوام کے قانونی طور پر منتخب نمائندوں کو اقتدار کی منتقلی کے نتیجے میں قائم ہوئی ہے؛

Advertisements
julia rana solicitors london

6. اس اصول کو تسلیم کرتے ہوئے جس کے مطابق تنازعے کا کوئی بھی فریق طاقت کے استعمال سے حاصل کیے گئے علاقے نہیں رکھ سکتا، انڈیا اور پاکستان کی حکومتیں اپنی مسلح افواج کے موزوں متعلقہ نمائندوں کے  ذریعے اس غرض سے فوراً  مذاکرات شروع کریں گی کہ فوجی کارروائیوں کے مغربی محاذ پر اس اصول پر ہر ممکن تیزی کے ساتھ عملدرآمد ہو سکے۔

Facebook Comments

شاداب مرتضی
قاری اور لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply