• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ہم جنس پرستی اور پاکستانی تعلیمی اداروں کا علمی و تحقیقی جائزہ/حصّہ پنجم۔۔۔ڈاکٹر محمد علی جنید

ہم جنس پرستی اور پاکستانی تعلیمی اداروں کا علمی و تحقیقی جائزہ/حصّہ پنجم۔۔۔ڈاکٹر محمد علی جنید

ہم نے اپنی سابقہ ہم جنس پرستی سے متعلقہ دور و قریب کی مختلف شاہراہوں پر نکل کر دیکھا تھا،گفتگو کی طوالت جنس کی دنیا میں نت نئے اسکینڈلز کا وقوع پذیر ہونا ہماری توجہ انکی طرف ملتفت کرواگیا تھا،جس کے سبب اختصار کی خوبصورتی پر حرف آ یا ہے ،مگر کیا کریں جب آپ کسی  گفتگو میں فلسفہ کی روح نفوذ پذیر کرتے ہوں تو بات بہت دور تک جانکلتی ہے،چنانچہ مفتی  عزیز الرحمٰن کے مکروہ عمل سے  شروع ہوتا تحریری معاملہ  نور مقدم تک جا پہنچا ،پھر  وہاں سے عائشہ ٹک ٹاکر نے ریمبو کے ساتھ سازشیں کرکے پاکستانی معاشرے پر الزام تراشی کا فریضہ سرا انجام دیا  تو ہمیں یاد آیا کہ ہمارا یہ معاشرہ اس سے قبل موٹروے پر جنسی درندگی کا نادر نمونہ دیکھ چکا تھا،چنانچہ ہم نے ان امور کو بھی اس موجودہ تحریر میںسمیٹ  لیا ،جس سے اگر چہ جنسی عصری موضوعات کے تناظر میں تو وسعت پیدا  ہوئی مگر موضوع کی تخصیص کار کچھ حد تک  متاثر ہوئی ہے،  چنانچہ اس تحریر میں  کامل نہ  سہی مگر کافی حد تک ہم نے موضوعِ بحث  پر رہتے ہوئے اسے سمیٹنے کی عاجزانہ سعی کریں گے،ہم اوّل ہم جنس پرستی کی میڈیائی ترغیب و اظہار کی ففتھ جنریشن حربی حکمت عملی کے کچھ نمونے ذیل میں ڈرامہ سریز کی جنگ کے تناظر میں پیش کرینگے اور اسکے علاوہ اس بحث کو اب منطقی انجام تک پہنچائیں  گے۔

ہم کہاں جارہے ہیں لوگو ؟

پاکستان میں ہم جنسیت میں کتنی بڑہوتری  پیدا ہوئی اسکا اندازہ اس  امر سے ہوتا ہے کہ بی۔بی۔سی ا ُردو کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے قریباً چار ہزار ایسے افراد نے برطانیہ میں پناہ کی درخواست دی ہے ،جن کو اپنی ہم جنس پرستی کے سبب اپنے آبائی ملک میں جانی خطرے کا خوف لاحق ہے،مگر فنی امیگریشن کی دنیا کے کچھ افراد بالخصوص ٹریول  ایجنٹس اور کنسلٹنٹ کا درون خانہ اور ظاہراً یہ بھی کہنا وماننا  ہے  کہ ایل۔جی۔بی۔ٹی یا ٹرانس جینڈر افراد کی آڑ میں بہت سے پاکستانی  بیرون ِ ملک نیشنلٹی کا ایک آسان تیر بہ ہدف   طریقہ ڈھونڈھ بیٹھے ہیں ، انکی داخل دفتر درخواستوں سے پاکستان کی جگ ہنسائی ہورہی ہے۔

جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بین الاقوامی سیاست میں انسانی حقوق کی عالمی ڈپلومیسی نے امداد حاصل کرنے والے ممالک سے امداد لینے والے مذہبی اداروں تک پر مالی کمزوریوں کی علت کی انکی مذہبیت پر ترجیح  ظاہر کردی ہے اور اس ضمن میں ہم  جنس پرستی پر  کچھ حلقوں کے موقف میں کمزوری ظاہر ہوگئی ہے ، ماضی قدیم و جدید میں ہم پڑھتے ہیں کہ چرچ میں ہم جنس پرستی کے رجحان اگر چہ صوفیائی نوکر شاہی کے نکاح  پر پابندیوں اور طلاق کی  اجازت  نہ  دینے کےموقف پر سختی نے لوگوں کو دین سے دور کردیا تھا اور یہ اختیارات جب ریاست نے چرچ سےچھین کر سول کورٹ کو دیے تو کثرت سے طلاق کا چلن یورپ میں عام ہوا ،جس سے انکا خاندانی نظام ٹوٹنے کا عمل تیز ہوگیا،نکاح سے دوری بڑھ گئی،حرام کاری اور ہم جنس پرستی بڑھ گئی چنانچہ ماضی میں بھی اس سے صدیوں قبل ،اذلی گناہ کی آگسٹنائی سوچ نے انکی کلیسائی اشرافیہ کے لئے ہمیشہ اخلاقی و جنسی مسائل و بیماریاں پیدا کی تھیں ۔

لہذا صدیوں سے وہ شادی اور حلال جنسی تعلقات کی نفی کرکے خود اپنے لئے ہی  مسائل پیدا  کرتے  رہے تھے ،کیونکہ جب  کلیسائی بنیادی ڈھانچہ اور فکری ڈھانچہ میں چھیڑ چھاڑ کی نفی کی اور  اسکی  جگہ درون خانہ جنسی   تعلقات کی اشرافیہ اور اہل کلیسا کو ان کہی اُجرت دی تو اہل یورپ میں عام طور پر اکثر  اوقات  ماورائے  مذہب  جنسی کج رویوں پر مبنی تعلقات عام  طور پر دیکھنے کو ملتے تھے، چرچ نے حلال نکاح  کی کلیسا اور عوام دنوں میں تبلیغ کے دوران حوصلہ  شکنی کی تھی ،جس کے سبب لوگوں میں صدیوں ایک دبا دبا جنسی انحراف پھیلتا  رہا تھا ،جو زوج سے غیر زوج  اور  جنس پرستی تک  پھیل چکا تھا جس  پر خانقاہ نامی عرصہ تک قدغن زدہ ناول  میں جس کے مطالعہ پر کلیسا کی طرف سے پابندی  عائد تھی  نے روشنی ڈالی ہےاور ول ڈیورانٹ نے اسٹوری آف سویلائزیشن   کی جلد :نشاۃ ثانیہ(رینائزاں) میں کافی شافی روشنی ڈالی ہے،بلکہ اس میں کئی پوپس کی حرام کی اولادوں کا بھی ذکر  بڑی صراحت  و وضاحت سے ملتا ہے ،جیسے بورجیا خاندان کے پوپ ،اسکی حرام کی اولاد بیٹی(۰بیانکا) اور  بیٹے سیزر بورجیا کے تذکرے اطالوی تاریخ میں معروف ہیں،اسی پر معروف ڈرامہ  سیریل ز بورجیا میں بھی کافی روشنی ڈالی  گئی ہے، چونکہ جب چرچ نے جائز نکاح کے کلیسائی افراد( کلرجی) میں وقوع پذیر ہونے کی نفی کی تو صلبی طور پر متبادل ہم جنس پرست رجحانات پیدا ہوگئے،جن کو بعدِ ازاں  کچھ  تصوف زدہ حلقو ں نے مجاہدہ کی نادر شکل کے طور پر بھی پیش کیا تھا۔

چنانچہ نتیجتاً جو معاملہ چرچ کے ساتھ متعلقہ تھا وہ ہمارے مدارس میں الٹا تھا، کیونکہ ہمارے اہل تصوف کے متبع شریعت حلقے یا غیر متبع حلقے کسی میں جائز نکاح کی نفی کا تصور جڑ نہیں پکڑ سکا تھا،اگر چہ مجذوب،قلندر نما دیوانوں سے ایسے  معکوس معاملات دیکھے گئے ہیں ،مگر ان رجحانات کو مسلم تصوف کے نمایاں رجحان  قرار نہیں دیا جاسکتا ہے، مگر تصوف زدہ عورتوں سے دور خانقاہوں اور ویرانوں میں شیخ اور مرید میں عشق مجازی کی جلوہ کاری کوئی خارج از امکان بحث نہیں تھی۔

دوسری طرف  ہمارے ہاں اکثر ایسے معاملات قاری صاحب  کی بابت سننے کو ملتے ہیں جو بس بچوں کو قرآن پڑھاتا ہے اور عموماً کوئی  باقاعدہ عالم نہیں ہوتا ہے،یہ زیادہ تر گلی محلوں کے کسی شرعی بورڈ سے غیر ملحقہ مدارس میں عام ملتے ہیں چنانچہ زیادہ تر اغلامی اسیکنڈلز ان قاریوں   سے وابستہ  رپورٹ ہوئے ہیں۔ حد یہ کہ مدارس میں مار پیٹ کے معاملات بھی اکثر قاری صاحب کے کم عمر بچوں کی پٹائی کے ضمن میں دیکھے گئے ہیں۔

جبکہ باقاعدہ بزرگ عالم بالخصوص  کسی مفتی  جی کی جانب ایسا شرمناک ارتکاب  شہرت کی حد تک مفتی عزیر کی صورت میں دیکھا گیا ہے۔قاریوں یا اہل مدارس کے ساتھ جو مسئلہ منطقی طور پر انکی کج رویوں کے ضمن میں  سوچا جاسکتا ہے وہ یہی  ممکن لگتا ہے  کہ ،گھروں سے دوری ،بیگمات سے دوری،تفریح کے مواقع کی قلت،بند ماحول کی گھٹن اور کچھ حد تک بچپن میں خود کے ساتھ ایسی زیادتی نے اکثر  کی جنسی تحریکات کو اس جانب راغب کئے رکھا ہے  کہ وہ شرعاً حرام اعمال کو ڈھکے چھپے انداز میں  کسی کے علم میں  لائے بغیر سرانجام دیں،شرعی روشنی میں ان انحرافات اور گناہوں کی سزا کی بابت تفصیل پر ہم اسی موضوع پر باقاعدہ الگ  محققانہ تحریر میں موقع ملا  تو پھر کبھی  روشنی ڈالیں گے۔

عام لوگ   اغلاام بازی اور لواطت کےضمن میں مدلل تحقیق کے لئے  قرآن  کریم میں سورہ لوط کو دیکھیں ورنہ سورہ لوط کی تفاسیر کتب ِ تفسیر میں دیکھیں جیسے تفسیرِ سعدی،تفسیر ابن کثیر،تفسیر معارف القران،تفسیر تفہیم القران،تفسیر تیسر القران،دیکھی جاسکتی ہیں۔اسکے علاوہ  تاریخی طور پر ابن کثیر کی البدایہ النہایہ کی جلد اول،طبری کی تاریخ کی جلد اول،ابن کثیر کی قصص الانبیا،حفظ الرحمان سیوہاری کی قصص القران کے ساتھ عہد نامہ قدیم  اور تالمود میں بھی اس کے حرام اور اللہ کے ہاتھوں قوم ِلوط و سدوم پر عذاب آنے کا حال پڑھا جاسکتا ہے  اسکے علاوہ  شرعی نقطہ نظر سے فقہی آثار بتاتے ہیں کہ ،نبی اکرمؐ نے اغلامی  فاعل و مفعول حد یہ کہ وہ جانور کیوں نہ  ہو کو ماردینے کا حکم دیا ہے۔حضرت ابو ابکرؓ  صدیق کے دور خلافت میں انھیں خالد بن ولیدؓ نے خط لکھا  تھا کہ یہاں ایسا آدمی ملا ہے جو اغلامی ہے تو انھوں نے اس معاملہ پر صحابہ کرامؓ سے مشاورت کی ،کسی نے کہا کہ انھیں جلوادیں،کسی نے کہا دیوار گرادیں،علیؓ نے ابو بکرؓ پر ایسے افراد کے خلاف کاروائی کے لئے دباؤ  ڈالا، چنانچہ اس آدمی کودیوار گرا کر ہلاک کردیا گیا(فقہ کا انسائیکلو پیڈیا:ابو بکر صدیق:جلد:اوّل:رداس قلعہ جی)،میں نے دور رسالت سے صحابہ کرام تک جو احادیث و فتاویٰ  دیکھے ہیں  ان سے اسکے حرام ترین اور سخت ترین گناہ ہونے کا معاملہ معلوم پڑتا ہے،یہ الگ بات ہے کہ اس دور میں عربوں میں یہ معاملہ نہ  ہونے کے برابر تھا(احادیث مبارکہ میں کتاب الحدود دیکھیں)۔عمرؓ کے دور خلافت میں انکو ایک آدمی پر شک گزرا کہ اس میں ایسے جراثیم پائے جاتے ہیں چونکہ جرم ثابت ہوئے بغیر،گواہوں اور اعتراف کے بغیر اپنی صوبداید پر اسے سزا نہیں دے سکتے تھے لہذا لوگوں کو اس سے میل ملاپ،بات چیت سے منع کردیا گیا(فقہ عمر)۔

میں اپنی  سابقہ تحریر میں کہیں یہ بیان کرچکا ہوں کہ موجد و خالق کی تخلیقی تصوریت میں تخلیقی منصوبے اذلی و ابدی طور پر موجود ہوتے ہیں  اور جبلت کے خلاف کوئی  انحرافیت الٹا تخلیق میں جبلی تبدیلی پیدا کرکے اسکے وجود پر سوال کھڑا کردیتی ہے،لہذا ہم جنس پرستی  نظریہ تخلیق  بالحق کے صریح  خلاف ہے،اور رد ِ تخلیق کے بہت قریب ہے ساتھ ساتھ یہ سماج کی نمو کی نفی اور انسانی پیداوار و توارث کی روح کے بھی خلاف عمل و تصور  ہے،  چنانچہ اس رجحان  کے فروغ میں لبرلازم، فردیت پسندی،بشریت پسندی اور سیکولر ازم  کا اہم کردار جانچنے سے ملتا  ہے اور اس ضمن میں جمہوری طریقہ انتخاب اور اس سے منتخب حکومتوں نے بھی عالمی ہیومن رایٹس ڈسکورس کے خوف و دباو کے سبب اس سے آنکھیں پھیر لی ہیں۔

۲۰۱۳ کی ایک خبر کی رو سے پوپ فرانسس نے بھی ایک بیان میں ہم جنس پرستوں سے دوری ختم کرنے اور انھیں اپنانے کا مشورہ دیا تھا،امریکی ایونجیکل کلیسا میں بھی کچھ اس رجحان کے پادریوں کے خلاف کاروائی پر خاموشی اختیار کی گئی تھی،یہاں ہیومن رایٹس ڈسکورس کی دوغلی پالیسی  نمودار ہوتی ہے،جو کُل عالم میں اسکا موئد و معاون ہے وہیں یہ اپنے اینٹی تھیسز کے اداروں کے افراد کو اس لذت سے لطف اندوز ہونے پر غصہ  کا شکار ہوجاتا ہے،کیونکہ انکی رو سے    بشر   ایک خاص شخصی ہیت و کیفیت ہے، اس فرد کی  ایک خاص کسبی و اختیاری جوہری موضوعیت ہے ،جس فرد میں اسکا فقدان ہوتا ہے وہ نہ  روشن خیال بشر مانا جاسکتا ہے اور نہ  انسانی حقوق کی لغت کا عالمی شہری مانا جاسکتا ہے جب ہی اس جاہل،غبی،تاریک الذہن کا قتل کرنا جائز ٹھہرتا ہے،لہذا اسکو لبرل پیرائے کے حقوق سے بھی لطف اندوز ہونے کا حق حاسل نہیں ہوتا ہے ۔

اسکے ساتھ ساتھ تمام شرعی مذہاہب کے موئیدوں میں بھی اسکے جراثیم کا پایا جانا ،انکی صفوں میں موجود منحرف  افراد کی کمزوریوں کو عیاں کرتے ہیں،ان اداروں کو ایسے افراد کے خلاف جو بھلے رضا و رغبت یا بھلے جبر و استحصال کیوجہ سے ہی  کیوں نا  ایسی سرگرمیوں میں  مشغول ہوں کو نشانہ عبرت بنادینا چاہئے اور اپنے نظم میں تادیبی کاروائیوں کا چلن  ڈالنا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply