قید حیات و بند غم ۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

انسان کی اصناف رجل و نساء میں ایک نفسیاتی تعلق کو Love and hate relationship یعنی محبت اور نفرت پر مبنی رشتہ مانا جاتا ہے مگر ایک اور طرح کے تعلق یا رشتہ کا تذکرہ مفقود ہے جسے عدم ہم آہنگی اور بندھن کا رشتہ یعنی ًMismatch and involvment relationship پکارا جا سکتا ہے۔ یہ رشتہ اول الذکر تعلق سے زیادہ جھنجھلا دینے والا اور زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے جس میں ایک دوجے کے تار آپس میں یکسر نہیں مل پاتے۔ ایسے دو افراد تعلق کی ایک بہت ہی کچی تانت سے جڑے ہوتے ہیں جس کی وجہ بالعموم بچے ہوتے ہیں یا اگر کوئی ہوں تو معاشی مفادات یا ضروریات۔
سرائیکی زبان کی ایک کہاوت ہے: بھاندے دی ہر شے بھاندی اے، نہ بھاندے دی کوئی شے نئیں بھاندی جس کا مطلب ہوتا ہے کہ اگر کوئی پسند ہو تو اس کی ہر شے اچھی لگتی ہے اور اگر ناپسند ہو تو اس کی ہرشے بری۔ یہ تعلق ثقافتی عدم ہم آہنگی جو ایسے تعلقات میں عام طور پر ہوتی ہے، سے بھی بڑھ کر ناقدانہ ہوتا ہے۔ ہر دو میں سے کسی کو بھی کسی کی کوئی بات یا تو اچھی نہیں لگتی یا کوئی بھی فریق چاہتا ہے کہ بات اس کے مطابق ہو۔ ایک دوسرے کو ایک دوسرے کی آواز کا اتار چڑھاؤ ناپسند ہو سکتا ہے۔ ایک دوسرے کے اعمال و افّعال پر اعتراضات ہوتے ہیں۔
ایسے ناقدانہ رویوں جن میں طنز و تمسخر کے عیاں و پنہاں عناصر بھی شامل ہوتے ہیں، کی توجیہات میں جہاں ثفاقتی عدم ہم آہنگی ایک پہلو ہوتی ہے وہاں دونوں افراد کی ذہنی سطح اورمزاج، جن کی ترتیب میں علم و تعلیم دونوں کی سطح اور تربیت و پروان چڑھنے کے ماحول کا مختلف ہونا سبب ہے، میں واضح فرق بھی شامل ہوتے ہیں۔
ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ سب معاملات تعلقات پروان چڑھنے کے آغاز سے ہی ظاہر تھے تو ایسے افراد نے آپس کے تعلقات توڑ کیوں نہیں لیے؟ اس کی وجہ پہلے پیرے کے آخر میں بیان ہو چکی ہے۔ اگر معاشی ضروریات نہ ہوں تو کیا محض بچوں کا ہونا بھی ایسے کبیدہ تعلقات کو بڑھائے چلے جانے کا موجب ہو سکتا ہے۔ بالکل ہو سکتا ہے بلکہ ہوتا ہے کیونکہ بچہ یا بچے ہونے کی وجہ سے ان کی ضروریات پوری کرنے کی خاطر رقوم درکار ہوتی ہیں۔ دوسرے یہ کہ بچوں سے لگاؤ ایک فطری بات ہے۔ ظاہر ہے ماں کا تو ہوگا ہی لیکن اگر باپ بھی بے حس نہ ہو تو اس کو بھی بچوں کا ” بندھن ” بچوں کی ماں سے باندھے رکھنے کا موجب ہوگا۔
رشتہ کی ایسی نوعیت میں اگر عمروں کا تفاوت زیادہ ہو تو دونوں جانب کی توقعات مختلف ہو سکتی ہیں بلکہ ہوتی ہیں۔ کم عمر والا فریق اپنے زیادہ عمر والے فریق سے توقع کرے گا کہ وہ سارے وہ اعمال سرانجام دے جواس کا ہم عمر یا کچھ سال بڑا ساتھی سرانجام دے سکتا ہو۔ بڑی عمر والا فریق چھوٹی عمر والے سے امید کرے گا کہ وہ اس کا احترام کرے اور اس کی ضروریات کا خیال اسی طرح رکھے جیسے کوئی بھی کم عمر بڑی عمر والے رشتہ دار کا رکھ سکتا ہو۔ مگر چونکہ یہاں رشتہ کوئی خون کا رشتہ نہیں ہوتا بلکہ ضروریات کے تبادلے کا رشتہ ہوتا ہے جو قریب قریب تمام ہی انسانوں کی دو اصناف کا رشتہ ہوتا ہے اس لیے دونوں ہی فریقین کی توقعات پوری نہیں ہوتیں۔ ایسا نہ ہونے کی کڑھن بھی تعلقات کو مزید تلخ کیے جانے کا موجب بنتی ہیں۔
یہ بھی پوچھا جانا چاہیے کہ اگر کوئی یہ ساری باتیں سمجھ سکتا ہے تو وہ مصلحت سے کام لیتے ہوئے تعلقات کی تلخی کو کم کیوں نہیں کر سکتا؟ اس کا جواب بہت سادہ ہے کہ انسان آخر انسان ہے اور ہر انسان کی برداشت کی ایک حد ہوتی ہے جس سے ہبہ بھر بھی زیادہ برداشت کرنے کا مرحلہ آنے پر مصلحت کا بندھن طیش کا سیلاب بن کے بہہ نکلتا ہے۔ اس سے بھی باہمی مزاج کی عدم مطابقت رشتہ کو خام تر کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔
اختلافات کی نوعیت زیادہ گہری اور سنگین تب ہو سکتی ہے جب فریقین کی زبانیں مختلف ہوں۔ ان میں سے ایک فریق کو یا تو دوسرے کی زبان مکمل سمجھ نہ آئے یا وہ سمجھنے کی سعی ہی نہ کرے۔ یا فریقین کے آبائی علاقے یا ملک مختلف ہوں اور ایک فریق دوسرے فریق کے ملک یا لوگوں کے بارے میں سنی سنائی منفی باتوں کو نہ صرف درست جانے بلکہ بار بار ان کا ذکر بھی کرے۔ دوسرے فریق کی ان خیالات کی وضاحت کو درخور اعتنا ہی نہ جانے۔ ظاہر ہے بار بار ایسا کیا جانا دوسرے فریق کو بھڑکا سکتا ہے۔
یا یہ کہ ایک فریق کا بچوں کی جانب رویہ جابر تربیت کار کا ہو اور دوسرے فریق کو ایسا رویہ مناسب نہ لگتا ہو۔ یا یہ کہ ایک فریق کی آواز ویسے ہی بلند ہو اور دوسرا فریق ایسی آواز کو یہ جانے کہ جیسے جھڑکا جا رہا ہے۔ اس پر بار بار کہا جائے کہ آواز مدھم رکھو، جب کہ اس کا عمر بھر بولنا ایسے ہی رہا ہو۔ یا یہ کہ ایک فریق دوسرے فریق سے کہے کہ وہ گھر کے ایسے کام بھی کرے جو اس نے نہ کیے ہوں۔ یا ایک فریق مسلسل ایسا کام کرتا رہے جو دوسرے فریق کو مشتعل کرے یا کم از کم بیزار کر دے۔
ایسے تعلقات کے کھچاؤ اور کرب کا مزید ذکر کرنے کو روک کرایک خبر سن لیں۔ خبر یہ ہے کہ اطالیہ میں ایک شوہر بیوی کے جھگڑے سے اکتا کر گھر سے نکل کر جو پیدل چلنا شروع ہوا کہ ساڑھے چار سوکلومیٹر پر جا کر اسے خیال آیا کہ ہیں یہ کیا؟ مگر ایسے بھی ملک ہیں جہاں گھرسے نکلنے سے پہلے کسی کو باہر کی سردی کا مقابلہ کرنے کی خاطر آدھا گھنٹہ تو گرم کپڑے جوتے پہننے میں لگ جاتے ہیں اور گھر بھی اس قدر مختصر ہوتے ہیں کہ آمنا سامنا ہوئے بغیر گذارہ نہیں البتہ نواب لیو تالستائی 20 نومبر 1910 کے سرد روز اسی طرح ہی نکلے تھے کہ ایک سٹیشن کے بنچ پر موت ان کے قریب آنے لگی۔ اس اثناء میں سٹیشن ماسٹر نے انہیں پہچان لیا مگرہر دور کے اس بڑے ادیب نے نصیحت کی کہ ان کی اہلیہ ان کے سامنے نہ لائی جائے۔ چنانچہ وہ اسے دیکھے بنا مر گئے اگرچہ کہتے ہیں کہ موصوفہ نے ان کے ضخیم ناول دو دو بار اپنے ہاتھوں سے لکھے تھے بلکہ کچھ تو کہتے ہیں کہ ناول تو لکھے ہی لیو تالستائی کی اہلیہ نے تھے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply