علامہ راغب اصفہانی کا عقیدہ و فقہ میں مذہب۔۔لئیق احمد

گزشتہ دنوں ناچیز کی نظر سے امام راغب اصفہانی رح پر ایک تحقیقی مضمون گزرا، جسے ایک مجلہ میں شائع ہونے کے لیے ناچیز نے تجویز کیا۔ اس مضمون میں امام راغب الاصفہانی کے متعلق چند متنازع عبارات مندرج تھیں، جس پر مجلہ کے ایڈیٹوریل بورڈ کی جانب سے ریویو موصول ہوا کہ امام راغب الاصفہانی کے متعلق کچھ تحقیقی معلومات مہیا کر دیں۔ جس میں خاص طور پر ان کے عقیدہ اور فقہ میں مذہب سے متعلقہ تفصیلی معلومات ہوں۔ اس مطالبہ پر جب ناچیز نے انٹرنیٹ پر موجود مواد دیکھا، جس میں وکیپیڈیا اور چند ویب سائٹز پر موجود تحریروں کو پڑھا تو مجھے یہ جان کر انتہائی حیرت ہوئی کہ وہاں امام راغب الاصفہانی رح سے متعلقہ رقم کی گئیں معلومات نہایت پیچیدہ اور قابل تشویش تھیں۔ کیونکہ ان تمام تحریروں کا مجموعی تاثر یہ تھا کہ امام راغب معتزلی اور شیعی مکتبہ فکر کے نمائندہ ہیں، اس بنا پر ناچیز نے کچھ علماء سے رابطہ کیا اور امام راغب اصفہانی سے متعلق چند ریسرچ آرٹیکلز اور کتب حاصل کر کے ان کا مطالعہ شروع کیا۔ جس سے دو نتائج میرے سامنے اظہر من الشمس ہوئے۔ اول یہ کہ گوگل، ویکیپیڈیا اور ان جیسے دیگر ذرائع ایک محقق کے لیے کسی صورت بھی قابلِ اعتماد اور قابلِ بھروسہ ذرائع ہرگز نہیں ہیں۔ ثانیاً یہ کہ اس تحقیق کے باعث امام راغب الاصفہانی کا عقیدہ اور فقہ میں جو منہج ہے اس کا علم ہوا۔ جو مواد مجھے میسر آیا آپ دوستوں سے وہ شیئر کررہا ہوں۔

امام راغب الاصفہانی رح کی حالاتِ زندگی

امام راغب الاصفہانی رح کی شخصیت کے کسی گوشے کے متعلق جاننے میں سب سے بڑی پیچیدگی یہ ہے کہ ان کے حالاتِ زندگی واضح نہیں ہیں۔ کب پیدا ہوئے ؟ کہاں پیدا ہوئے؟ کہاں اور کس سے تعلیم حاصل کی؟ کچھ معلوم نہیں۔ جیسا کہ ” المفردات فی غریبِ القرآن“ کے مقدمہ (صفحہ 7) پر درج ہے کہ:
”الامام ابو قاسم حسین بن محمد بن المفضّل المعروف بالراغب الاصفہانی غَیرَ مَعرُوفٍ مَتٰی وُلِدَ، وَلَا اَینَ تَلَقَّی العِلمَ “۔
اس سے واضح ہوا کہ امام راغب کی پیدائش اور تحصیلِ علم کے متعلق کچھ پتہ نہیں ہے۔

امام ذہبی اپنی کتاب سیر اعلام النبلاء میں آپ کے لئے تعریفی کلمات لکھتے ہوۓ فرماتے ہیں:

العلامة الماهر ، المحقق الباهر أبو القاسم ; الحسين بن محمد بن المفضل الأصبهاني ، الملقب بالراغب ، صاحب التصانيف.

اسی طرح یاقوت معجم الادباء میں لکھتے ہیں:
احد اعلام العلم لغیر فن من العلوم ادبھاء وحکمنھالہ کتاب فی تفسیر القرآن قیل وھوالکبیر

آپ کی کتاب ’’المفردات‘‘ آپ کی شہرت کا باعث ہے۔ اس کتاب کی ایک خوبی یہ ہے کہ آپ اس کتاب میں اکثر وہ معانی بیان کرتے ہیں جو اہل لغت کے ہاں نہیں ملتے۔
جیسا کہ علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب الاتقان میں فرماتے ہیں:
’’وطریق التوصل الی فہمہ النظر الی مفردا ت الالفاظ من لغۃ العرب ومدلولاتہا واستعمالہا بحسب السیاق وہذایتمنی بہ الراغب کثیرا فی کتاب المفردات فیذکر قیدا زائدا علی اہل اللغۃ فی تفسیر مدلول اللفظ لانہ اقتضاہ السیاق‘‘(الاتقان ج!۲ص ! ۱۸۳)
اور اس کی سمجھ تک پہنچنے کا طریقہ یہ ہے کہ لغت عرب سے مفرد الفاظ اور ان کے مدلولات اور سیاق کلام کے اعتبار سے ان کے استعمال میں غور کیا جائے۔امام راغب ’’کتاب المفردات‘‘ میں اس پر بڑ ی توجہ دیتے ہیں ، کیونکہ وہ مدلول لفظ کی تفسیر میں اہل لغت سے بڑھ کر قید زائد کو ذکر کرتے ہیں۔ اس وجہ سے کہ سیاق کلام اس کا مقتضی ہوتا ہے۔

فقہ میں امام راغب اصفہانی صوفی شافعی المسلک تھے

آپؒ اہل سنت کے عظیم علماء میں سے اور شافعی المسلک تھے۔ لیکن تنگ نظر اور متعصب ہرگز نہ تھے۔ کسی مسئلہ پر مختلف علماء کے اقوال بیان کر کے ان پر بحث کرتے اور پھر ان میں صحیح قول کو قبول کرتے۔
بعض شیعہ علماء نے امام راغب اصفہانی کو شیعہ لکھا ہے۔
جیسا کہ الشیخ عباس القمی کی تصنیف ”اَلکُنٰی وَ الاَلقَابُ“ جلد 2، ص208، العلامہ الشیخ آقا بزرگ الطہرانی ”اَلذَّرِیعَة اِلٰی تَصَانِیفِ الشِّیعَة‘جلد 5ص45 اورعمادالدین حسن بن علی الطبرسی ”اَسرَارُالاِمَامَةِ“ صفحہ17اور514 پر لکھتے ہیں کہ ”اِنَّہ کَانَ مِن حُکَمَاءِ الشِیعَةِ الاِمَامِیَّةِ“ یعنی وہ شیعہ امامیہ کے حکماء میں سے تھے۔
شعیوں کے ان دلائل کا رد کرتے ہوۓ عرب کے مشہور اہل سنّت عالِم دین صفوان عدنان داودی
اس کا جواب یوں دیتے ہیں:
وامًا تشیعه فقد أراد الشیعة ان یجعلوہ في صفھم ومن جماعتھم ؟ نظرأ لکثرة علمه، وسعة اطلاعه، واستدئوا علیٰ ذٰلک بکثرة نقوله عن علی رضہ بن ابی طالب رضی اللہ عنہ و أئمة آل بیت.
و ھذا لیس بحجة، أذ حبُّ آل البیت جاءت به الأخبار الصحیحة ، فأذا ما احبَّھم احدٌ و نقل کلامھم فلا یعني أنه شيعي، و كثير من العلماء استشھدوا بأقوال آل البیت کالز مخشري مثلاً في ١١ ربيع الأبراره، والغزالي في ءَإحياء علوم الدين ج، والفیروز آبادی فی ج بصائر ذوي التمیز ، و غیرھم ، ولم يقل أحد إنھم من الشیعة.
(راغب اصفهانى، حسين بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، ص 11، تحقيق، صفوان عدنان داودی)
شعیوں نے امام راغب اصفہانی رح کو اپنی صفوں میں شامل کرنا چاہا اور اپنا ہم جماعت کہا جس کی وجہ امام راغب اصفہانی کی کثرت علمی، معلوماتی صلاحیت اور استدلال کا طریقہ تھا کیوں کہ انہوں نے کثرت سے امام علی رض کے اقوال کو نقل کیا ہے اور اہل بیت کے ائمہ کے اقوال کو نقل کیا ہے۔ اس لئے وہ شیعہ ہے۔ شعیوں کی یہ دلیل حجّت بننے کے لائق نہیں ہے۔ جسے بھی اہل بیت سے متعلق احادیث صحیحہ معلوم ہو جاتی ہے، وہ اہل بیت سے محبّت کرتا ہے۔ جو اہل بیت سے محبّت کرے ان کے کلام کو نقل کرے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ شیعہ ہے۔ کیوں کہ ہمارے بہت سے اکابر اہل بیت کے اقوال کو نقل کرتے آئے ہیں۔ جیسے زمخشری نے نقل کیا ہے، امام غزالی نے احیاء علوم الدین میں نقل کیا، علامہ الفیروز آبادی نے بصائر ذوي التمیز میں نقل کیا ہے اور اس کے علاوہ بھی بہت سے اکابر ہیں جو اہل بیت کے اقوال کو نقل کرتے ہیں لیکن ان کے بارے میں کسی نے یہ نہیں کہا کہ وہ شیعہ ہیں۔
لیکن صفوان عدنان داودی  اپنی تحقیق کے پیش نظر امام راغب اصفہانی کے شافعی ہونے کا بھی رد کرتے ہیں۔ ان کے مطابق وہ کسی معین مذہب کے قائل نہیں تھے بلکہ جس کا قول صحیح معلوم ہوتا تھا اسکو روایت کر دیتے تھے۔
جیسا کہ وہ لکھتے ہیں:
الذی تبین لنا بعد مطالعة کتبه أنه لم یکن من المقلدین لأحد فی الفروع الفقھیة،وإنما کان مجتھداً فی ذلک وبعضھم جعله شافعاً ، ولم یُصِب، بل للمٶلف رد علیٰ بعض أقوال الشافعیة.
(راغب اصفهانى، حسين بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، ص 11، تحقيق، صفوان عدنان داودی)
اگر ہم امام راغب اصفہانی کے کلام پر نظر کریں تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ وہ جب بھی فقہ کے اقوال اپنی کتب میں نقل کرتے ہیں تو کبھی کبھار احیاناً کا لفظ لکھتے ہیں، یعنی کبھی کسی ایک امام کا قول لیتے ہیں، کبھی دوسرے امام کے قول کو پیش کرتے ہیں۔ یہ بات دلالت کرتی ہے اس بات پر کہ یہ کسی معین مذہب کے قائل نہیں تھے بلکہ جس کا قول صحیح معلوم ہوتا تھا اسکو روایت کر دیتے تھے۔
بعض علماء اہل سنّت کے ہاں بھی آپ کے شیعہ ہونے کا ابہام پایا جاتا ہے۔
جیسا کہ صاحبِ ”روضات الجنات“ نے تصریح کی ہے کہ ”کسی شخص کے مسلکاً شیعہ ہونے کی علامت ہی یہی ہے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بجائے نام کے امیر المومنین کے لقب سے ذکر کرتے ہیں“۔ علامہ راغب بھی ایسا ہی کرتے رہے۔ (ملخصاً مفردات القرآن اردو۔ص21)
لیکن پھر ان کے سنی اور شافعی ہونے کے دلائل بھی خود پیش کرتے ہیں۔ صاحب روضات لکھتے ہیں:
ان کی کتاب محاضرات الادباء کے مطالعے سے گمان ہوتا ہے کہ وہ کٹر سنی شافعی المسلک تھے.
چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
کان من الشافعیۃکما استفید لنا من محاضراتہ
اور ایک مقام پر لکھتے ہیں:
الراغب الاصفہانی صاحب لغۃ العرب والحدیث والشعر والحکمۃ والکلام وعلوم الاوائل وغیر ذالک وفضلہ اشھر من ان یوصف و کفاہ منقبۃ قبول العامہ والخاصہ وفیما تحقق لہ من اللغۃ الخاصہ.
علامہ سیوطی رحمة اللہ علیہ ”بغیة الوعاة“ میں امام راغب کو ائمہ اہلِ سنت میں شمار کرتے ہیں۔ اور امام فخرالدین رازی”تَاسِیسُ التَّقدِیس“ میں انہیں اہلِ سنت قرار دیتے ہیں۔۔۔۔

عقیدہ میں امام راغب اصفہانی اشعری تھے

بعض اہل سنّت و اہل تشیع علماء نے آپ کو معتزلی لکھا ہے۔۔۔۔ صاحبِ ”اَعیَانُ الشِّیعَہ“ لکھتے ہیں کہ:
” اکثر علماء نے تصریح کی ہے کہ امام راغب معتزلی تھے۔ اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شیعہ بھی تھے، کیونکہ معتزلہ اور شیعہ عموماً اصول میں متحد ہیں اور اصحابِ تراجم معتزلہ اور شیعہ کا تذکرہ ایک ساتھ کرتے ہیں“۔
اور یہی ابہام اہل سنّت میں بھی پایا جاتا ہے۔
علامہ سیوطی لغبیۃ الوعاہ میں لکھتے ہیں:
کان فی ظنّي أنّه معتزلی ، حتّیٰ رأیت بخط الشیخ بدرالدین الزرکشی علی ظھر نسخةٍ من والقواعد الصغریٰ ج لابن عبدالسلام ما تصه: ذکر الإمام فخرالدین الرازي فی : وتأسیس التقدیس ج فی الاصول أنِّ أبا القاسم الراغب کان من أئمة السُّنة ، وقرنه بالغزالي۔

قال:وھي فائدة حسنة؛ فإنَّ کثیراً من النّاس یظنون أنّه معتزلي
(لبغیة الوعاة ٢٩٧/٢،)

پہلے پہل میرا گمان یہ تھا کہ امام موصوف معتزل تھے۔ لیکن جب میں نے القواعد الصغری لاین عبدالسلام کی پشت پر زرکشی کی ہاتھ سے یہ لکھا ہوا پایا کہ امام فخرالدین رازی نے تاسیس التقدیس میں تصریح کی ہے کہ امام راغب ائمہ سنت میں سے تھے اور غزالی کے ہم پایہ، تو میری یہ بدظنی دور ہوگئی۔ خصوصاً جبکہ کہ امام رازی جیسی شخصیت ان کی تقدیس کر رہی ہے۔
ان تشریحات سے پتہ چلتا ہے کہ گو امام موصوف کے متعلق لوگوں نے مختلف آراء کا اظہار کیا ہے مگر امام جلال الدین سیوطی کی رائے اور انکا آخری میلان صحیح معلوم ہوتا ہے۔
جیسا کہ عرب کے ایک نامور عالِم دین صفوان عدنان داودی
آپ کے اہل سنّت ہونے کے دلائل بیان کرتے ہوۓ لکھتے ہیں:

تنازع الناس فی عقیدتة الراغب، فقال قوم: ھو من المعتزلة، وقال آخرون: ھو من الشیعة، وقال غیرھم : ھو من أھل السُّنة والجماعة.

Advertisements
julia rana solicitors

*والصحیح الذي لا غبار علیه ۔* ان شاء اللّٰه تعالیٰ ۔ انَّه من أھل السنة والجماعة
(راغب اصفهانى، حسين بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، ص 8 تحقيق، صفوان عدنان داودی)
امام راغب کے عقیدہ کے حوالے سے اختلاف پایا جاتا ہے ایک گروہ نے کہا : وہ معتزلی ہیں اور دوسرے گروہ نے کہا : وہ شیعہ ہیں۔اور ان کے علاوہ ایک گروہ کی راۓ یہ ہے کہ وہ اہل سنت والجماعت ہیں۔
اور صحیح بات یہی ہے جس میں کوئی حرج نہیں ہے اگر اللہ تعالی چاہے۔ بے شک وہ اہل سنت و الجماعت میں سے تھے۔
آگے چل کر مزید لکھتے ہیں:
وینضح ھذا أيضا ً من خلال کتابه والمفردات٫ حتیٰ نجده یردّ علی المعترلة، فمن ذلك ردُّه على الجبائي شيخ المعتزلة في مادة(ختم) ، وعلىٰ البلخي في مادة (خل).
و بذالک یخالف المعترلة المنكرين الرؤية محتجين اقوله تعالي : (لن تراني)
[الاسراف/ ١٤٣] .
وله ردود أخرىٰ عليك في كتابه والاعتقادہ۔
(راغب اصفهانى، حسين بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، ص 9، تحقيق، صفوان عدنان داودی)
ان کی کتاب المفردات کے توسط سے ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ وہ معتزلہ کا رد کرتے ہیں بلکہ معتزلہ کے شیخ الجبائی ان پر ختم کے مادہ میں بھی رد کیا ہے اور بلخی پر خل کے مادہ میں بھی رد کیا ہے(اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ معتزلہ میں سے نہیں تھے)
اس طرح مخالفت کرتے وہ معتزل کی جو رویت کے منکر ہیں اللہ تعالی کا قول:(لن ترانی)اور اس حوالے سے دیگر تفصیلات ان کی کتاب الاعتقاد میں ہیں۔
شیخ طاہر پنج پیری و انوار شاہ کشمیری کی تحقیق کے مطابق بھی امام راغب اشعری ہیں۔ جو لوگ انکی بعض عبارتوں کے پیش نظر انھیں معتزلہ جانتے ہیں، وہ غلطی پر ہیں۔ شیخ طاہر پنج پیری و انوار شاہ کشمیری کی اس پر تحقیق یہ ہے کہ ان کی کتابوں میں الحاق ہوا۔ اسکی واضح دلیل یہ ہے کہ مفردات کے ترکی والے نسخےمیں وہ تفردات نہیں ہیں، جو بیروتی نسخے میں ہیں۔
اگر امام راغب اصفہانی کو معتزلہ میں شمار کیا جائے تو یہی تاثر جصاص ، شہرستانی ، کیدانی ، نسفی و دیگر اکابرین کے بارے میں بھی ہوگا۔ طبقات میں بہت سے اکابر کا نام معتزلہ کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ حالانکہ وہ معتزلی نہیں۔ اگر اس روش کو اپنایا گیا تو اکابرین کے بارے میں کوئی نہیں بچے گا۔
امام راغب اصفہانی کی تالیفات میں ایک تالیف *کتاب الایمان و الکفر ہے*
جس سے واضح معلوم ہوتا ہے کہ وہ اصول میں اشعری تھے۔
انسائیکلوپیڈیا آف اسلام کے مطابق بھی آپ اشعری تھے
Al-Isfahani’s theological stance seems to have been close to that of the Ash’ari school. In one of his works entitled al-I’tiqadat, Al-Isfahani attacks both the Mu’tazila and the Shi’a showing that questions about his adherence to either of these positions is groundless.
Reference
Bosworth, C.E.; van Donzel, E.; Heinrichs, W.P.; Lecomte, G. (1995). Encyclopaedia of Islam (New Edition). Volume VIII (Ned-Sam). Leiden, Netherlands: Brill. p. 390. ISBN 9004098348.

Facebook Comments

لیئق احمد
ریسرچ سکالر شعبہ علوم اسلامیہ جامعہ کراچی ، ٹیچنگ اسسٹنٹ شعبہ علوم اسلامیہ جامعہ کراچی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply