• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • خاندانی نظام اور دور جدید کے رجحانات(2،آخری حصہ)۔۔عمار خان ناصر

خاندانی نظام اور دور جدید کے رجحانات(2،آخری حصہ)۔۔عمار خان ناصر

سنیہ ڈار: یعنی  مسلمانوں کے لیے بھی زمانے اور صورتحال کی بنا پر اس وضع شدہ نظام کے اندر تغیر و تبدل ممکن ہے بشرطیکہ وہ تبدل شریعت سے انحراف پر مبنی نہ ہو؟ اور یہ فطری پدر سری نظام جامد  نہیں ہے کہ اس میں تبدیلی سرے سے ممکن ہی نہیں؟

جواب:  بالکل۔ پدرسری نظام کے جن پہلووں کا تعلق عرف اور کلچر سے ہے، وہ یقینا ًقابل تبدیل ہیں۔ اسی طرح کسی خاص پابندی کی بنیاد اگر کسی علت پر ہے تو اس کی روشنی میں بھی تبدیلی کی جا سکتی ہے۔ کسی پابندی میں ملحوظ مصلحت اگر تقاضا کر رہی ہو کہ قانون کی ظاہری ہیئت میں کچھ تبدیلیاں کی جائیں تو اس کا راستہ بھی کھلا ہے۔

اسی بحث سے جڑا ہوا  ایک سوال گزشتہ دنوں محترمہ ڈاکٹر عابدہ شریف نے اٹھایا  کہ  آج مغربی سماج میں شادی کے بغیر پیدا ہونے والے بچوں کے والدین پر اس کے باقاعدہ حقوق تسلیم کیے جاتے ہیں، جبکہ اسلامی قانون کی رو سے ایسے بچے کی ولدیت وراثت کے حقوق صرف ماں سے ثابت ہوتے ہیں، یعنی بچے کا باپ اس کی پرورش،  اخراجات اور وراثت وغیرہ تمام ذمہ داریوں سے آزاد ہے۔   اس کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ موجودہ دور میں بدکاری کے مواقع عام ہو جانے کی وجہ سے  مائیں، یک طرفہ ذمہ داری سے بچنے کے لیے   ایسے بچوں کو پیدائش کے بعد قتل کر کے پھینک دیتی ہیں۔  تو کیا حالیہ معاشرتی بگاڑ کے تناظر میں ایسے بچوں کی شناخت کو  والد کے ساتھ  نتھی کر کے اسے بچے کی جملہ ذمہ داریوں میں شریک نہیں ٹھہرانا چاہیے؟

اس کے جواب میں عرض کیا گیا کہ ثبوت نسب کے لیے شریعت کا  واضح قانون یہ ہے کہ زنا سے نسب ثابت نہیں ہوتا ، اس کے لیے رشتہ نکاح کا ہونا ضروری ہے۔ یہاں شریعت میں اہم تر مصلحت کو زیادہ اہمیت دینے کا اصول اختیار کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ  خاندان کے ادارے کی مجموعی مصلحت ایسے بچوں کی انفرادی مصلحت سے مقدم ہے۔ زنا سے نسب ثابت مانا جائے تو خاندان کا پورا نظام متاثر ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ تجویز کہ ایسے بچوں کو قتل سے بچانے کے لیے ان کی ولدیت قانونا مان لی جائے، مسئلے کا حل نہیں۔  بچے کا قتل یقیناً گناہ اور جرم ہے، لیکن کیا زناکار عورت اس لیے ایسا کرتی ہے کہ اس کی ممانعت کا کوئی قانون نہیں بنا ہوا؟ وہ تو اس لیے کرتی ہے کہ اس سے زنا ثابت ہو جائے گا اور یا تو سزا ملے گی یا بدنامی ہوگی اور زندگی مشکل ہو جائے گی۔ ایک ایسا ماحول جس  میں زنا بھی ایک جرم رہے اور ماؤں کو سزا بھی ملتی رہے، لیکن مائیں  بچے کے حق زندگی کا احترام  کرتے ہوئے پھر بھی اسے زندہ رہنے دیں، انفرادی اخلاقیات کا مسئلہ ہے۔ اس میں  معاشرتی قوانین کو یک طرفہ طور پر ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا، اور یہ تجویز کہ چونکہ زنا عملا عام ہو گیا ہے، اس لیے اس کو قانونی تحفظ بھی دے دیا جائے،  تو بالکل ہی ناقابل فہم ہے۔

مثال کے طور پر  بچوں کی پرورش والد اور والدہ کی ذمہ داری ہے۔ اگر کسی معاشرے میں خود غرضی اتنی عام ہو جائے کہ والد اور والدہ یہ ذمہ داری اٹھانے کے روادار نہ ہوں تو کیا ریاست کو یہ قرار دینا چاہیے کہ آج سے بچوں کی پرورش والدین کی ذمہ داری میں شامل نہیں؟ ظاہر ہے، ایسا نہیں ہوگا۔ ریاست ایک ’’مسئلے’’ کے طور پر یقینا ًان بچوں کی پرورش اور کفالت کا انتظام کرے گی جن کے والدین اس ذمہ داری سے فرار اختیار کیے ہوں، لیکن ایک معاشرتی واخلاقی ضابطے کی حیثیت سے اس اصول کو کالعدم قرار نہیں دے گی کہ بچوں کی پرورش والدین کی ذمہ داری ہے۔

یہی نوعیت ناجائز تعلقات سے پیدا ہونے والے بچوں کی ہے۔ ان کو قانونی لحاظ سے نکاح کے تحت پیدا ہونے والے بچوں جیسا قرار دینا ولدیت کے رشتے کے ساتھ وابستہ تقدس اور زنا کے ساتھ وابستہ تنفر کو ختم کیے بغیر ممکن نہیں۔ یقیناً ایسے بچوں کا کوئی قصور نہیں اور ان کے ساتھ ازروئے شریعت، عام سماجی  معاملات میں کوئی امتیاز نہیں برتا جا سکتا، لیکن ولدیت کی شناخت حاصل نہ ہونا ایسے ہی ایک تقدیری معاملہ ہے جیسے مثلاً کچھ بچوں کا معذور پیدا ہو جانا۔  یہاں یہ بنیادی فیصلہ کرنا ہوگا کہ ایسے بچوں کو انفرادی طور پر جس محرومی کا  سامنا کرنا پڑتا ہے، اس میں اور خاندانی نظام کی مجموعی مصلحت میں سے کس کو زیادہ اہمیت دی جائے۔ مغربی معاشرے بچوں کے انفرادی حقوق کو جبکہ اسلامی شریعت خاندان اور معاشرے کی مجموعی مصلحت کو زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ ہم بطور مسلمان اسی ترجیح کو قبول کرنے کے پابند ہیں جو شریعت نے قائم کی ہے۔

تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ ولدیت کے رشتے کے علاوہ، باقی معاشرتی وقانونی امور میں اگر ایسے بچوں کے ساتھ ناانصافی یاامتیاز برتا جاتا ہے تو اس کی اصلاح میں مذہب واخلاق اور ریاست کا کوئی کردار نہیں بنتا۔ اس پہلو کی اپنی جگہ اہمیت ہے اور دراصل اسی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر تعلیم وتربیت اور ریاستی اقدامات سے ایسا ماحول بنا دیا جائے جس میں ایسے بچوں کے ساتھ باقی تمام افراد کی طرح ہی برتاو کیا جائے تو ولدیت کی شناخت کا مسئلہ اتنا سنگین نہیں رہے گا۔ اسی طرح مثال کے طور پر  بچے کے اخراجات زانی پر بطور تعزیر اجتہادا لازم کیے جا سکتے ہیں۔ اس کی بنیاد حق ولدیت پر نہیں، تعزیر کے اصول پر ہوگی۔ اس کے مقابلے میں اگر زنا اور نکاح کو ایک ہی قانونی درجے پر لے آیا جائے تو اس کے مضمرات واضح طور پر مہلک اور تباہ کن ہوں گے۔

مذکورہ مسئلے کے تقابل میں، جن چیزوں میں تمدنی حالات کی تبدیلی کے تحت ایک اجتہادی زاویہ نظر اختیار کیا جانا چاہیے، اس کی  مثال کے طور پر بیویوں کی جسمانی تادیب کے مسئلے کو دیکھا جا سکتا ہے۔  شوہروں کی طرف سے اس اختیار کا سوء استعمال   ایک اہم اور قابل توجہ مسئلہ ہے اور اس سوال کا پیدا ہونا بالکل فطری ہے کہ  شریعت نے جن شرعی واخلاقی حدود میں   ایک خاص صورت حال میں شوہر کو تادیب  کا اختیار دیا ہے، اگر  معاشرے میں عموما ان حدود کی پابندی نہ کی جا رہی ہو تو  اس کا سدباب کیسے کیا جا سکتا ہے؟   یہ سوال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی سامنے آیا  تھا اور آپ نے خواتین کی شکایت پر شوہروں کی طرف سے اختیار کے سوء استعمال کو دیکھتے ہوئے ایک موقع پر اس پر پابندی لگا دی۔ تاہم اس کا نتیجہ خواتین کے جری ہو جانے کی صورت میں نکلا اور شوہروں کی طرف سے جوابی شکایت پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو انھیں  دوبارہ اس کی اجازت دینا پڑی۔

دور جدید میں بہت سے اہل علم اس تناظر میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ سد ذریعہ کے طور پر  شوہروں کے اس اختیار پر قانونی پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔  ممتاز  تیونسی عالم ابن عاشور  نے اس ضمن میں یہ اہم نکتہ بھی  پیش کیا ہے کہ شوہروں کو اپنی بیویوں کو مارنے کی جو اجازت دی گئی، وہ ان لوگوں کے عرف کے لحاظ سے ہے جو اس کو معیوب نہ سمجھتے ہوں اور ان کے ہاں اسے شوہر کا ایک معمول کا اختیار مانا جاتا ہو۔ ابن عاشور مزید یہ کہتے ہیں کہ یہ چونکہ محض ایک اجازت ہے جو کئی شرائط کے ساتھ مشروط ہے، مثلا ًناجائز تعدی نہ کرنا، اور اس میں معاشرتی عرف کا بھی لحاظ ہے، اس لیے حکومت اس اختیار پر پابندی لگا سکتی اور اسے قابل تعزیر عمل قرار دے سکتی ہے۔ (التحریر والتنویر  ۵/۴۴)

بعض دیگر اہل علم اس اختیار کے سوء استعمال کو روکنے کے لیے   بیوی کی تادیب کا اختیار نظم اجتماعی کو تفویض کر دینے کی تائید کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر جناب جاوید احمد غامدی  لکھتے ہیں :

’’ اِس آخری چیز کے بارے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تمدن کی تبدیلی کے ساتھ ریاست کیا شوہروں کو پابند کر سکتی ہے کہ پہلی دونوں تدابیر اگر موثر نہ ہوں اور سزا کی نوبت آ جائے تو وہ خود کوئی اقدام نہیں کریں گے، بلکہ معاملہ عدالت کے سپرد کر دیں گے؟

ہمارا جواب یہ ہے کہ یقیناًکر سکتی ہے، اِس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر عمل کے لیے یہ محض طریق کار کی تبدیلی ہے، اِس سے کوئی حکم معطل نہیں ہوتا۔ عورت کی اصلاح کے لیے سزا شوہر دے، خاندان کے بزرگ دیں یا عدالت، اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اللہ تعالیٰ کا منشا یہ ہے کہ گھر کو بچانے کے لیے اگر سزا بھی دینی پڑے تو دی جائے۔ یہ اصلاح کی ایک تدبیر ہے، اِس سے زیادہ اِس سے کچھ مقصود نہیں ہے۔“

ان دونوں مثالوں سے کافی حد تک یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ خاندانی نظام سے متعلق شریعت کے احکام میں کون سی چیزیں ہیں  جو اس نظام کے لیے بنیادی اساس کی حیثیت رکھتی ہیں اور جنھیں ان کی جگہ سے ہٹانے سے پورے ڈھانچے کا  زمیں بوس  ہو جانا یقینی ہے، اور کون سی چیزیں ہیں جن کے حوالے سے نظام کی بنیادی عمارت  کو قائم رکھتے ہوئے  تمدنی، سماجی اور قانونی ضرورتوں کے تحت اجتہادی انداز فکر اختیار کیا جا سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہذا ما عندی واللہ تعالیٰ اعلم

Facebook Comments

عمار خان ناصر
مدیر ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply