ہریانہ۔۔ہمایوں احتشام

ہریانہ، بھارت کی ایک ریاست ہے۔ جس کے شمال مغرب میں پنجاب، شمال مشرق میں ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ، جنوب اور جنوب مغرب میں راجستھان، مشرق میں دہلی اور اتر پردیش ہیں۔ ریاست کا صدر مقام چندی گڑھ ہے، جو یونین ٹیرٹری کی حیثیت رکھتا ہے۔
ہریانہ کی تاریخ کے بارے میں ویدوں میں کہا جاتا ہے کہ برہما نے دنیا کو تخلیق کرنے کے لئے ہریانہ میں ایک قربان گاہ تعمیر کی۔ ادھر قربانی دینے کے بعد اس نے کائنات کو تخلیق کیا۔ کورو بادشاہوں نے کروکشیترہ کے مقام پر سونے کے ہل سے زمینوں کو آباد کیا، اور بھگوان شیوا کی ندی سے اس خطے کو سیراب کیا۔ ہریانہ کی دھرتی پر ہی وید ویاس نے مہابھارت لکھی۔
ہریانہ نام رکھنے کی وجہ تسمیہ بھی یہی بتائی جاتی ہے۔ رگ وید میں ہریانہ کے جنوبی علاقوں کو برہما ورتھ کا نام دیا گیا۔ جس کا مطلب برہما کا وطن، پاک ملک، مقدس سرزمین۔ چونکہ ہریانہ کی اکثریت ہندو بولنے والے لوگوں پر مشتمل تھی، اسی لئے پنجاب کے ساتھ زبردستی کے الحاق سے جان چھڑانے کے بعد لوگوں نے مطالبہ کرکے ہریانہ نام رکھنے کی مانگ کی۔ ہریانہ دو لفظوں پر مشتمل ہے۔ ہری یعنی بھگوان اور اوم گھر۔ یعنی بھگوان کا گھر۔
تاریخ میں اشوک اعظم کے بعد اس خطے پر ہرش بادشاہ کی حکومت رہی۔ جس کا پایہ تخت تھانیسر تھا۔ چھٹی یا ساتویں صدی عیسوی میں پشیابھوٹی خاندان نے اقتدار سنبھالا اور اس کے بعد تومارا خاندان اس خطے کا فرمانروا بنا۔ چودہویں صدی عیسوی میں تیمور نے یہاں قتل و غارت مچا دی اور اتنے لوگوں کو قتل کیا کہ ہریانہ ویران ہوگیا۔ تیمور کے خلاف آہیروں اور جاٹوں نے زبردست مزاحمت دکھائی۔ اس کے بعد کے ادوار میں ہریانہ کے علاقے مرکزی حکومت کے زیر اثر چلے گئے۔
ہریانہ کے ایک سپوت ہیمو بقال نے سوری سلطنت کے آخری دور میں عروج پایا۔ اسلام شاہ کی موت کے بعد فیروز شاہ نامی بارہ سالہ بچہ بادشاہ بنا۔ ہیمو اس وقت سپہ سالار تھے۔ انھوں نے سوری اور عادل شاہی حکومت کی جانب سے بطور سپہ سالار افغانوں اور مغلوں کے خلاف بائیس فیصلہ کن جنگیں جیتیں۔ سوری حکومت کے انہدام کے وقت ہیمو بنگال میں تھے، ہمایوں کی موت کی خبر سن کر انھوں نے دلی کی جانب روانگی اختیار کی۔ درمیان میں آنے والے تمام قلعے فتح کرتے ہوئے آگرہ پر قبضہ کرلیا۔ اس سے آگے تغلق آباد اور پھر دلی پر ایک جنگ کے بعد قبضہ کرلیا اور خود کو ویکرمادیتہ کے خطاب سے نوازا۔ ہیمو بقال ہندوستان کے شہنشاہ تھے۔ اسی دران اکبر کو دلی پر قبضے سے متعلق معلوم ہوا تو وہ واپس پلٹے اور پانی پت کی دوسری جنگ ہوئی، جس میں ہیمو نے اکبر کے دونوں بائیں اور دائیں بازو کو ادھیڑ کر رکھ دیا۔ اکبر کی افواج فرار ہونے لگیں، مگر اسی دران ہیمو کی آنکھ پر کسی مغل فوجی کا تیر لگا اور وہ ہاتھی سے گر گئے۔ جس سے جنگ کا پاسا پلٹ گیا۔ بعد میں قریب المرگ ہیمو کو دلی میں قتل کردیا گیا۔
مغل دور کے بعد اس خطے پر مرہٹوں کا قبضہ ہوگیا۔ جن کو ہریانہ کی سرزمین پر احمد شاہ ابدالی نے پانی پت کی تیسری جنگ میں شکست دی۔ اس کے بعد ہریانہ راجواڑوں اور کمپنی بہادر کے زیر قبضہ چلا گیا۔ 1803 میں سورجی انجگاوں معاہدہ کے تحت ہریانہ کو شمالی مغربی صوبوں میں ضم کردیا گیا۔ 1857 تک ہریانہ شمال مغربی صوبوں کا حصہ رہا مگر غدر کے بعد سزا کے طور پر اس کو پنجاب میں ضم کردیا گیا۔ تاہم ہریانہ کا بڑا حصہ تقیسم ہند سے پہلے تک دیسی ریاستوں کے تصرف میں تھا۔
رنجیت سنگھ نے اس خطے پر حملہ کیا تو کمپنی بہادر اور مقامیوں نے اسے شکست فاش دی اور معاہدہ امرتسر واقع ہوا۔ جس کے تحت ستلج دریا سکھ سلطنت اور کمپنی بہادر کے علاقے کے درمیان باونڈری کا کردار ادا کرے گا۔
ہریانہ اس سے پہلے کبھی پنجاب کا حصہ نہیں رہا۔
1857 کے غدر میں سب سے زیادہ متشدد لوگ ہریانہ کے تھے۔ بعض محققین کا کہنا ہے کہ ہریانہ کے جاٹوں اور راجپوتوں نے دلی میں موجود انگریز فوجیوں اور ریزیڈنٹ کو قتل کیا۔ تاہم یہ خطہ کمپنی کے لئے خاصا پرشورش رہا۔ اس کی شورش سے نمٹنے کے لئے انگریزوں نے اس علاقے کو انتہائی پسماندہ رکھا اور انتظامی بنیادوں پر پنجاب میں ضم کردیا۔ اس انضمام کی انتظامی بنیادوں کے علاوہ کوئی اور منطق نظر نہیں آتی۔ کیونکہ ہریانہ اور پنجاب میں زرعی سماج ہونے کے سوا مذہب، زبان، ثقافت یکساں ہونے جیسی کوئی مماثلت نہیں۔
ہریانہ ہمیشہ ہی آزادی پسندی کا گڑھ رہا ہے۔ اس خطے کے باسیوں کے خون میں حریت دوڑتی ہے۔ جب 1857 کی جنگ کی طبل میرٹھ میں بجی تو ٹھیک آٹھ گھنٹے بعد انبالہ میں ہریانوی فوجیوں نے برطانوی نوآبادکاروں کے خلاف ہتھیار اٹھا لئے۔
آزادی کے لئے پہلی جنگ ہریانہ کے باسیوں نے لڑی۔ جنگ نرنول میں راو تولہ رام آف ریواڑی، پران سکھ دیو اور خوشال سنگھ آف آوا نے اپنی چھوٹی سی فوج کے ساتھ کمپنی بہادر کی فوجوں پر ہلہ بول دیا اور ستر سے زائد گورے فوجیوں کو ہلاک کردیا۔ مگر اس آزادی کی تحریک کو کچل دیا گیا۔ تحریک آزادی کے مرکزی گڑھ سرسہ، ہانسی، حصار، روہتک، فرخ گڑھ اور کرنال تھے۔
اس وقت یعنی 1857 میں ہریانہ میں سات ریاستیں تھیں۔ ان سات میں پٹوڈی اور دوجانہ کی ریاستوں نے انگریز کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائے، جبکہ باقی کی پانچ جھجھر اور فرخ نگر وغیرہ نے کمپنی بہادر کے قبضے کے خلاف ہتھیار اٹھا لئے۔
لیکن بغاوتوں کو کچل دیا گیا۔ اس پرشورش علاقے کو قابو کرنا کمپنی بہادر کے لئے بہت دشوار ہوگیا تھا، سو اسے پنجاب میں ضم کردیا گیا۔ کیونکہ پنجاب میں انگریزوں کے سہولت کاروں اور ہمدردوں کی اکثریت تھی۔
سبھاش چندر بوس کی آزاد ہند فوج میں تین ہزار کے قریب ہریانہ کے باسی تھے۔ جن میں سے بڑی تعداد کو ظلم کے خلاف لڑتے شہادت نصیب ہوئی۔
آزادی کے بعد 1957 میں پنجابی کے خلاف چھ ماہ تک زبردست تحریک چلی۔ جس کا آغاز اس وقت ہوا جب پنجابی حکمرانوں نے ہندی یا ہریانوی بولنے والے علاقوں پر پنجابی بطور لازمی مضمون کے طور تھونپ دیا۔ بڑے پیمانے پر فسادات ہوئے اور درجنوں افراد پنجابی زبان کے توسیع پسندی کے طور پر استعمال کرنے کے خلاف جان سے گئے۔ اس چھ ماہ کی تحریک نے ہندی/ہریانوی بولنے والے علاقوں کی پنجاب سے علیحدگی کی جانب پہلا قدم کا کام کیا۔
اس تحریک کے خاتمے کے فوراً بعد پنجاب میں پنجابی صوبہ کی تحریک اٹھ کھڑی ہوئی۔ جس کا مقصد خالص پنجابی صوبہ کا قیام تھا۔ پنجابیوں نے مطالبہ کیا کہ ہندی/ہریانوی بولنے والوں اور پہاڑی بولنے والوں سے پاک ایک مکمل پنجابی صوبہ تشکیل دیا جائے، جس کی زبان پنجابی اور رسم الخط گورمکھی ہو۔
اس تحریک کے حاصلات کی وجہ سے سردار حکم سنگھ سفارشات کی روشنی میں 1965 میں جسٹس جے سی شاہ کمیشن کے زریعے حدودبندی کی گئی۔ جس کے تحت ہندی/ہریانوی بولنے والے علاقوں حصار، کرنال، مہیندرا گڑھ، روہتک، گڑگاوں کو ہریانہ کے علاقے قرار دیا گیا۔ جبکہ انبالہ کے علاقے نارائن گڑھ، جگھدری، انبالہ کو ہریانہ کا حصہ قرار دیا گیا۔
1 نومبر 1966 کو ہریانہ بطور ایک ریاست کے اپنا الگ تشخص پا گیا۔ وہ تشخص جو اس سے نوآبادکار کمپنی نے چھینا تھا۔
اس وقت ہریانہ کے بائیس اضلاع اور چھ ڈویژن ہیں۔ رقبے کے لحاظ سے یہ بھارت کی 21 ویں بڑی ریاست ہے۔ ریاست کی سرکاری زبان ہندی ہے، جبکہ دوسری سرکاری زبان تامل قرار دی گئی۔ بڑی تعداد میں تقسیم کے بعد آنے والے آبادکار پنجابیوں کی موجودگی کے باوجود تامل جیسی غیر متعلقہ زبان کا بطور دوسری سرکاری زبان ہونے کا صاف مطلب یہ ہے کہ پنجاب کے بارے میں ہریانہ کے لوگوں کے دل کے جذبات کیا تھے۔
آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر فرید آباد ہے۔ راجیہ سبھا میں ہریانہ کے پانچ اراکین ہوتے ہیں، جبکہ لوک سبھا میں دس ممبران ہریانہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔
آبادی کی پچاسی فیصد تعداد ہندو ہے۔ دوسری بڑی اقلیت مسلمان ہیں اور پھر سکھ آتے ہیں۔
گھاگھرا، جمنا اور صاحبی ہریانہ کے بڑے دریا ہیں۔
بڑے پہاڑی سلسلے شیوالک اور اراولی ہیں۔ جبکہ زیادہ تر میدان پایا جاتا ہے۔
اس وقت ہریانہ پر بی جے پی کی حکومت ہے۔ جس کے وزیر اعلی منوہر لال کھٹر اور گورنر باندرو دیتاریا ہیں۔

Facebook Comments

ہمایوں احتشام
مارکسزم کی آفاقیت پہ یقین رکھنے والا، مارکسزم لینن ازم کا طالب علم، اور گلی محلوں کی درسگاہوں سے حصولِ علم کا متلاشی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply