• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ریمپ اور قابل رسائی باتھ روم معذور افراد کی اہم ترین ضرورت/ثاقب لقمان قریشی

ریمپ اور قابل رسائی باتھ روم معذور افراد کی اہم ترین ضرورت/ثاقب لقمان قریشی

معذور شخص جب بیمار ہو جاتا ہے تو اسے ہسپتال جانے کیلئے کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ ہمارے ہسپتالوں میں کس قدر رسائی کا فقدان پایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے چند روز قبل  میری ایک تحریر شائع ہوئی۔ تحریر کے شائع ہوتے ہی ملک کے مختلف شہروں سے معذور افراد نے مجھ سے رابطہ کیا اور میری کاوش کو خراجِ تحسین پیش کیا۔

شمس القمر خاندان لوئر دیر کا مشہور سیاسی خاندان ہے۔ شمس القمر صاحب 2008ء کے الیکشنز میں اپنے حلقے سے ایم-این-اے اور ایم-پی-اے دونوں سیٹوں سے کھڑے ہوئے۔ لیکن اچانک موت کی آغوش میں چلے گئے۔ شمس القمر صاحب کی روش خیالی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انکی تین ہونہار بیٹیوں نے مختلف حوالوں سے اپنا مقام بنایا ہے۔ ایک بیٹی کا نام ڈاکٹر سمیرا شمس ہے جو پی-ٹی-آئی کی طرف سے ایم-پی-اے ہیں۔ سمیرا کا شمار ملک کے کم عمر ترین پارلیمنٹیرینز میں ہوتا ہے۔ دوسری بیٹی نورینہ شمس نے سکوائش کی دنیا میں اپنا نام بنایا ہے۔ جبکہ تیسری بیٹی کا نام سائرہ شمس ہیں۔ جو جسمانی معذوری کا شکار ہیں۔ معذوری کے باوجود سائرہ دونوں بہنوں سے پیچھے نہیں ہیں۔ سائرہ نے سوشل سائنس میں ایم-اے کیا ہے دوران تعلیم کالج میں سٹوڈنٹ یونین کی صدر رہی ہیں۔ اپنے علاقے کی دبنگ کونسلر رہی ہیں۔2013 کے عام انتخابات میں یہ اپنے علاقے کی پہلی خاتون پولنگ ایجنٹ بنیں۔ عام انتخابات میں ان کے علاقے سے صرف پانچ خواتین نے ووٹ کاسٹ کیا۔ انکی کوششوں سے 2015 کے بلدیاتی انتخابات میں ایک ہزار سے زائد خواتین نے رائے دہی کے حق کو استعمال کیا۔ جبکہ 2018 کے عام انتخابات میں 25000 سے زائد خواتین سیاسی عمل کا حصہ بنیں۔ ان کی کوششوں سے انکی بہن ایم پی اے بننے میں کامیاب ہوئیں۔ پی-ٹی-آئی کی یوتھ اسمبلی کی سپیکر رہی ہیں۔ تحریک انصاف مالاکنڈ ڈیویژن کی نائب صدر رہیں۔ اینٹی ریپ کمیٹی لوئر دیر کی سینئر ممبر ہیں۔ کالم نگاری اور شاعری میں بھی اپنے جوہر دکھا چکی ہیں۔ دو کتابوں کی مصنفہ ہیں۔

مکالمہ پر میرا کالم پڑھ کر سائرہ مجھے کال کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ آپ ریمپ اور قابل رسائی باتھ روم پر بھی ایک کالم لکھیں۔ میں نے سائرہ سے سوال کیا کہ آپ کو ریمپ اور قابل رسائی باتھ روم کی وجہ سے کن مشکلات کا سامنا رہا ہے۔

سائرہ کہتی ہیں کہ میں  اپنی بیماری کے بارے میں زیادہ تو نہیں جانی، بس اتنا پتہ ہے کہ پیدائش کے تیسرے دن  مجھےیرقان ہوا جس کی وجہ سے   بینائی اور پٹھے شدید متاثر ہوئے۔

سائرہ نے ابتدائی تعلیم ایف سی پبلک سکول سے حاصل کی جو انکے شہر ہی میں واقع تھا۔ والد صاحب انکی تعلیم کے بھر پور حامی تھے جسکی وجہ سے انھیں ابتدائی تعلیم میں زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اسکول میں مشترکہ تعلیمی نظام کے تحت تعلیم دی جاتی تھی جو انکے اعتماد میں بھر پور اضافے کا باعث بنا۔

میٹرک کے بعد جناح کالج پشاور میں خصوصی افراد کیلئے مختص نشست پر داخلہ لیا۔ لیکن اس کالج میں نظام تعلیم سے لے کر انفراسٹرکچر تک کہیں بھی خصوصی افراد کی ضروریات کا خیال نہیں رکھا گیا تھا۔ کلاسز اوپر نیچے، ہاسٹل سے باتھ روم تک ہر جگہ رسائی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ سائرہ کو ایک ایسی پرنسپل کا سامنا بھی کرنا پڑا جو انکی تعلیم کے سخت خلاف تھیں اور انکی والدہ سے کہا کرتی تھیں کہ انھوں نے پڑھ کر کیا کر لینا ہے۔

ان تمام مشکلات کے ساتھ ایف ایس سی کیا۔اس دوران ان کے والد صاحب کا انتقال ہوگیا۔ باپ کا سایہ سر سے اٹھ جانے کے بعد یہ اپنے آپ کو تنہا محسوس کرنے لگیں۔ خیر انھوں نے ہار نہیں مانی پشاور ہی سے بی-اے کی ڈگری حاصل کی۔

سائرہ کو وکالت کا شوق تھا 2012 میں بی-اے پاس کرنے کے بعد انھوں نے لاء کالج سمیت بہت سی یونیورسٹیوں کا دورہ کیا لیکن ہر جگہ رسائی کی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ آخرکار تنگ آکر تمرگرہ واپس آگئیں۔ یہاں انھوں نے عبدالولی خان یونیورسٹی کے ایک کیمپس میں داخلہ لیا اور یہیں سے سوشل سائنس میں ایم اے کیا۔

سائرہ نے ہمیں بتایا کہ دوران تعلیم انھیں ہمیشہ رسائی کے فقدان کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اسکے علاوہ انھوں نے سکول، کالج اور یونیورسٹی کا باتھ روم کبھی استعمال نہیں کیا۔ کیونکہ انھیں کہیں بھی قابل رسائی باتھ روم میسر نہیں آیا۔ سائرہ کو اپنی سماجی سرگرمیوں کیلئے مختلف شہروں کا سفر کرنا پڑتا ہے۔راستے میں کہیں بھی قابل رسائی باتھ روم نہ ہونے کی وجہ سے شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

میں ملک کے چاروں صوبوں، کشمیر اور گلگت بلتستان کے سوا سو سے زائد معذور افراد کے انٹرویوز کرچکا ہوں۔ ٹرانسپورٹ، ریمپ اور قابل رسائی باتھ روم میرے سوالات کا اہم حصّہ ہوا کرتے تھے۔ مجھے انٹریو دینے والے کسی معذور شخص نے کبھی سکول کالج اور یونیورسٹی کا باتھ روم استعمال نہیں کیا۔ بہت سے ایسے معذور افراد کو دفاتر میں آج بھی ریمپ اور قابل رسائی باتھ روم کی سہولت میسر نہیں جس کی وجہ سے یہ نہ پانی پیتے اور نہ روٹی کھاتے ہیں تاکہ باتھ روم نہ جانا پڑ جائے۔ اسی وجہ سے یہ لوگ مختلف امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

اگر کوئی شخص بیماری، موٹاپے اور ضعیف العمری کی وجہ سے زندگی کے امور آسانی سے سرانجام نہیں دے پا رہا تو ایسے شخص کو معذور شمار کیا جاتا ہے۔

پیدائشی معذور افراد کُل معذور افراد کی تعداد کا صرف 20٪ ہیں 80٪ افراد حادثات، بیماری، موٹاپے اور بڑھاپے کی وجہ سے معذوری کا شکار ہیں۔ یہ تعداد لاکھوں میں نہیں بلکہ کروڑوں میں ہے۔ انھیں بھی جینے کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا کہ نارمل انسان کو۔

ریمپ اور قابل رسائی باتھ روم بلڈنگ کوڈ کا حصہ ہیں۔ لیکن قانون پر عمل درآمد کہیں نظر نہیں آتا۔ ریمپ اور قابل رسائی باتھ روم کے فقدان کی وجہ سے لاکھوں معذور افراد تعلیم حاصل نہیں کر پاتے، نوکری نہیں کرسکتے، سفر نہیں کر سکتے، شاپنگ سینٹرز نہیں جاسکتے، تفریحی مقامات کی سیر نہیں کرسکتے، کسی خوشی، غمی کا حصہ نہیں بن پاتے۔

جدید دور میں ایسی پورٹیبل چیزیں بنائی جاچکی ہیں کہ اب بڑی توڑ پھوڑ کے بغیر دفاتر اور بلڈنگز کو قابل رسائی بنایا جاسکتا ہے۔ پورٹیبل ریمپس اور باتھ رومز کے ذریعے بلڈنگنز، تعلیمی اداروں، تفریحی مقامات وغیرہ کو باآسانی قابل رسائی بنایا جاسکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

رسائی کی نامناسب سہولیات کی وجہ سے لاکھوں معذور افراد گھروں میں عمر قید کی سزا کاٹنے پر مجبور ہیں۔ عمران خان کے دور میں ملک بھر میں ناجائز تعمیرات کے خلاف آپریشن شروع ہوا تھا۔ اگر بلڈنگ سیفٹی اور رسائی پر بھی اسی طرح کا ایک آپریشن کیا جائے،تو ملک بھر کی بہت سی عمارتوں کو حادثات سے بچایا جاسکتا ہے۔ رسائی فراہم کرکے عمارتوں اور تفریحی مقامات پر جانے کا ہر شہری کو موقع فراہم کیا جاسکتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply