کینسر (34) ۔ ڈیٹا/وہاراامباکر

سڈنی فاربر کا انتقال 1973 میں ہوا۔ یہ کینسر کے علاج کی تحقیق کے بحران کا وقت تھا۔ ادویات کی دریافت رک چکی تھی۔ تھیوریاں ناکام ہو رہی تھیں۔ ٹرائلز رکے ہوئے تھے۔ اکیڈمک کانفرسز میں لڑائیاں چل رہی تھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اور اس بحران کا آغاز اونکولوجی کے ایک مرکزی خیال سے ہوا تھا جو ریڈیکل سرجری کا تھا۔
“چھاتی کے کینسر کے آپریشن میں مریضہ کا جسم جتنا زیادہ کاٹا جا سکتا ہے، ایسا کیا جائے”۔ یہ اس کا مرکزی خیال تھا۔ اور اس کے پیچھے ہالسٹیڈ کی سنٹریفیوگل تھیوری تھی۔
ہالسٹیڈ کے مطابق کینسر ایک گھومتے پہیے کی مانند ہے جو ایک جگہ سے گھومتے گھومتے اپنے چھینٹے دور تک بکھیرتا ہے۔ اور سرجن کا کام جسم سے زیادہ سے زیادہ مواد نکال دینا ہے تا کہ یہ پہیہ ٹوٹ جائے۔ جتنا زیادہ کاٹا جائے گا، ٹھیک ہونے کا امکان اتنا زیادہ ہو گا۔
مریض بھی اسی خیال کے زیرِ تحت سرجن سے درخواست کرتے تھے کہ کینسر سے چھٹکارا دیا جائے اور کچھ بھی نہ چھوڑا جائے۔ ریڈیکل سرجری، سپرریڈیکل اور پھر الٹرا ریڈیکل اور پھر اس سے بھی آگے تک پہنچ چکی تھی۔
چھاتی، پیکٹرول مسل، سینے کی دیوار، کئی بار کچھ پسلیاں، سٹیرینم، کلاویکل اور لمف نوڈ۔ 1950 اور 60 کی دہائی اس کا عروج تھا۔
اس کا متبادل کینز نے 1927 میں پیش کیا تھا لیکن اس کو نظرانداز کر دیا گیا تھا اور اس کا مذاق بنایا جاتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امیتابھ گھوش لکھتے ہیں کہ سیاسی انقلاب محلات کے برآمدوں میں شروع ہوتے ہیں۔ طاقت کے دہانوں پر ایسی جگہوں میں جو نہ ہی نظام کے اندر ہوتی ہیں اور نہ ہی باہر۔ اس کے مقابلے میں سائنسی انقلاب سائنسی طاقت کے ایوانوں سے دور تہہ خانوں سے جنم لیتے ہیں لیکن سرجری کے انقلاب کا جنم طاقت کے مرکز میں ہی ہونا ہے۔ کیونکہ سرجری کا پیشہ اس سے باہر والوں کے لئے بند ہے۔ آپریشن تھیٹر میں داخل ہونے کے لئے صابن اور پانی اور سرجری کی روایات میں غسل لازم ہے۔ سرجری میں تبدیلی لانے کے لئے سرجن ہونا ضروری ہے۔
ایسے سرجن کرائل جونئیر تھے جو ریڈیکل سرجری کے بارے میں شکوک کا شکار تھے۔ چوہوں پر کی گئی سٹڈی نے دکھایا تھا کہ ہالسٹیڈ کی سنٹریفیوگل تھیوری درست وضاحت نہیں کرتی تھی۔ کینسر کا پھیلنا کوئی خاص پیٹرن نہیں بناتا تھا۔ کیا چھاتی کے کینسر میں بھی ایسا تو نہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرائل کو جلد ہی نئے خیالات سوجھنے لگے۔ اگر ٹیومر مقامی ہے تو مقامی سرجری اور ریڈی ایشن اسے ختم کر دے گی۔ دور تک کاٹ دینا پاگل پن ہے جس کا فائدہ نہیں۔ جبکہ اگر یہ چھاتی سے باہر پھیل چکا ہے تو سرجری ہر حال میں بے کار ہو گی۔ زیادہ جارحانہ سرجری کی جائے تو یہ زیادہ بے کار ہو گی۔ یا تو یہ مقامی بیماری ہے جس کا چھوٹے آپریشن سے مقامی علاج ہو جائے گا، یا پھر یہ سسٹمک بیماری بن چکی ہے جو کسی بھی سرجری سے قابلِ علاج نہیں ہو گی۔
کرائل نے ریڈیکل آپریشن کرنا چھوڑ دئے اور مقامی آپریشن کرنے لگے۔ چھ سال میں ان کے نتائج ویسے ہی تھے جیسے چالیس سال قبل کینز کے تھے۔
لیکن کیا کرائل ٹھیک تھے؟ اس کا پتا تجربہ کر کے لگایا جا سکتا تھا اور یہاں پر ایک بڑا مسئلہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر ادارے کی طرح میڈیسن اپنی ہائیرارکی اور کلچر اور رسومات رکھتی ہے۔ اور اس کا ڈیزائن کسی تبدیلی کے خلاف مزاحمت کے لئے ہے۔ اگر میں ایک سرجن ہوں اور ایک طریقے کو موثر اور بہتر سمجھتا ہوں تو میرے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ آپریشن تھیٹر میں داخل ہونے کے بعد اس سے ہٹ کر کچھ بھی اور کروں۔ آخر مریض پر تجربہ تو نہیں کیا جا سکتا۔
تو پھر تجربہ کیسے کیا جائے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرجیکل روایات کا شکنجہ توڑنے والے سرجن فلاڈیلفیا کے برنارڈ فشر تھے۔
فشر سرجنوں کی نئی نسل سے تھے اور کرائل اور کینز کی طرح ریڈیکل سرجری پر ان کا اعتماد نہیں رہا تھا۔ اور جب وہ کرائل اور کینز کے ڈیٹا کا جائزہ لے رہے تھے تو اس کے قائل ہو گئے کہ ریڈیکل سرجری کی کوئی بائیولوجیکل حقیقت نہیں۔ اس کے نتائج کا موازنہ سادہ سرجری اور ریڈی ایشن کے ملاپ سے کرنا ضروری ہے۔ لیکن فشر جانتے تھے کہ اس کے خلاف کتنی زیادہ مزاحمت ہو گی۔ سرجن ان کا ساتھ نہیں دیں گے۔
انہوں نے آپریشن تھیٹر میں موجود ایک اور کردار کو اس میں بھرتی کرنے کا ارادہ کیا۔ یہ کردار مریض تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساٹھ کی دہائی کے آخر میں ڈاکٹر اور مریض کے تعلق میں ڈرامائی تبدیلیاں آ رہی تھیں۔ ایک طرف میڈیسن پر اعتماد کو تھیلومائیڈ کی دوا کے سکینڈل نے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ جبکہ دوسری طرف “میرا جسم، میری مرضی” کی فیمنسٹ تحریک زوروں پر تھی۔ رو بمقابلہ ویڈ کا کیس ریاست، میڈیکل اتھارٹی اور خواتین کے جسم کے پیچیدہ تعلق کو سامنے لا رہا تھا۔ سیاسی فیمنزم میڈیکل فیمزم کی وجہ بن گیا گیا۔ “ریڈیکل سرجری کروانے سے انکار کر دیں”۔ یہ 1973 کی تحریک تھی۔ اور کئی مریضاوں نے ایسا ہی کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریچل کارسن ایک مصنفہ تھیں جنہوں نے انکار کیا۔ بیٹی رولن اور روز کوشنر دانشور خواتین تھیں جنہوں نے ایسا کیا۔ اور یہ اخبارات اور میگزین میں آنے لگا۔ اور پھر یہ طے کر لیا گیا کہ اس پر ٹرائل کیا جائے گا۔ کینسر کی تھیوری کا ایک مرکزی ستون کی اب پڑتال ہونے لگی تھا۔
فشر نے اس پر لکھا، “میں خدا کی بات پر یقین رکھنے کو تیار ہوں لیکن ہالسٹیڈ کی بات میرے لئے ویسا درجہ نہیں رکھتی۔ ہم خدا پر بھروسہ کرتے ہیں۔ باقی سب کو ڈیٹا دکھانا پڑے گا”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ڈیٹا اکٹھا ہونے میں دس برس لگے۔ ایسا کرنا آسان نہیں تھا۔ مریض تجربے میں حصہ لینے سے گریزاں تھے۔ سرجن اس سے بھی زیادہ۔ سرجنوں نے اس قدر مزاحمت کی کہ اس تجربے میں کینیڈا کے سرجنوں کا اضافہ کرنا پڑا۔ 1765 مریض اس کا حصہ بنے۔ تین حصوں میں اس کو تقسیم کیا گیا۔ ایک گروپ پر ریڈیکل سرجری کی گئی۔ دوسرے پر سادہ سرجری جبکہ تیسرے پر سادہ سرجری اور ریڈی ایشن تھراپی۔
اس کے نتائج 1981 میں منظرِ عام پر آئے۔ تینوں گروپس میں کینسر کی واپسی، موت اور جسم کے دوسرے حصے میں میٹاسٹیسس کا ریٹ یکساں رہا تھا۔ ریڈیکل سرجری نے مریضوں کو معذور تو ضرور کر دیا تھا لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔
ڈیٹا سرجنوں کے مروجہ یقین، روایات اور تربیت کی حمایت نہیں کرتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تقریباً ایک صدی تک ریڈیکل سرجری کی جاتی رہی تھی۔ 1891 سے 1981 تک امریکہ میں تقریباً پانچ لاکھ خواتین اس سے گزری تھیں۔ کئی نے اس کا انتخاب خود کیا تھا جبکہ کئی کو علم ہی نہیں تھا کہ کچھ اور انتخاب بھی کیا جا سکتا تھا۔ ہالسٹیڈ کے خیالات اونکولوجی کی لغت کا حصہ رہے تھے۔ سرجنوں کی نفسیات اور تربیت کا بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج ریڈیکل سرجری کہیں پر بھی نہیں کی جاتی۔ اس ٹرائل نے اس تمام روایت کو ختم کر دیا۔ سرجری کا یہ پورا کلچر منہدم ہو گیا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply