بس ہوسٹس کی کہانی ایک خاتون کی زبانی۔۔۔۔ثنا اللہ خان احسن

ابھی گزشتہ دنوں بس ہوسٹس مہوش کے دردناک قتل کا واقعہ پیش آیا۔
مہوش کی والدہ کا کہنا ہے کہ اُن کی بیٹی نے ابھی اٹھارہویں برس میں قدم رکھا تھا۔ پانچ سال پہلے اس کے ابو طویل بیماری کے بعد فوت ہو گئے تھے اور اب گھر چلانے کی ذمہ داری مہوش کے کندھے پر تھی۔’ ہم پہلے گھر پر دستانے بناتے تھے لیکن خرچ پورا نہیں ہوتا تھا پھر مہوش نے نوکری شروع کر دی۔ وہ میری بیٹی نہیں بیٹا تھی۔ اس بدبخت گارڈ نے میری آنکھوں کے سامنے میری بیٹی کو گولی ماری۔اس نے اپنی عزت بچاتے ہوئے جان دی ہمیں انصاف چاہیے ہم کچھ نہیں جانتے بس ہمیں انصاف چاہیے۔‘

یہ بس ہوسسٹس اور عمر دراز کوہستان سٹار بس پر 18 ماہ تک اکھٹے کام کرتے تھے۔ عمر دراز مہوش کو شادی پر مجبور کرتا تھا۔ لڑکی نے وہ نوکری چھوڑ کرالہلال والوں کے پاس نوکری کر لی۔ اس دن بھی یہ ملتان سے واپس اتری ، ہاسٹل جا رہی تھی۔ عمر دراز واش روم جا رہا تھا اس نے وہاں آ کر مہوش کا ہاتھ پکڑا اور مہوش نے جھنجوڑا تو اس نے اسے گولی مار دی۔
جہاں بے شمار لوگوں نے اس کی شدید مذمت کی وہیں کچھ ننگ خاندان اور ننگ ذہن بدبختوں نے ملازمت پیشہ خواتین کے اوپر اپنے ذہن میں موجود غلاظت بھی اچھالی اور ایسے ایسے شرمناک اور فحش کمنٹس باقاعدہ گالیوں کے ساتھ دیے  کہ دل چاہتا ہے ان کو بھی مہوش کے قاتل گارڈ کے ساتھ ہی لٹکا دیا جائے۔ ایسے ذہنی مریض یہ بھول جاتے ہیں کہ ناگہانی آفت ، حادثہ، موت بیماری کسی بھی گھر خاندان میں پیش آسکتی ہے اور اللہ کسی گھر پر ایسا وقت نہ لائے کہ اس کہ ماں بہن بیوی یا بیٹیوں کو گھر والوں کا پیٹ پالنے کے لئے باہر نکلنا پڑے  کہ ہمارا معاشرہ اب بھی بظاہر دیکھنے میں مہذب لیکن اندر سے جنسی درندوں سے بھرا پڑا ہے۔ بس ہوسٹس جیسی جاب کے لئے وہ مجبور خواتین نکلتی ہیں کہ جن کے گھر میں شدید مجبوریاں ہوں۔ جن کے گھر کمانے والا کوئی  مرد نہ ہو۔ ان کے یونیفارم پر اعتراض کرنے والوں کو علم ہونا چاہیے  کہ یہ یونیفارم ان کو ٹرانسپورٹ کمپنی مہیا کرتی ہے۔ وہ کوئی  اپنے شوق اور پسند سے یہ یونیفارم نہیں پہنتیں۔ اور جو عورت اس درجہ مجبور ہوجائے کہ گھر کی چار دیواری سے نکل کر ایک بس میں مردوں کے درمیان ان کی خدمت کرنے کے لئے ناچار تیار ہوجائے تو پھر وہ یونیفارم بھی پہنے گی۔ اور کیا ہمارے معاشرے کے اکثر مرد حضرات ایسے شریف اور مہذب ہیں کہ یونیفارم تو کیا مکمل برقعے میں ملبوس خاتون پر جملے بازی سے باز آجائیں گے یا بری نظر نہیں رکھیں گے؟ ارے یہاں تو لوگ ہیجڑوں کو نہیں چھوڑتے اور ان کے ساتھ بازاروں میں سر عام ایسے فحش اور شرمناک اشارے و افعال انجام دیتے ہیں کہ شرم آتی ہے۔

ہم پاکستانیوں کو ایک بات بہت اچھی طرح سیکھ اور سمجھ لینی چاہیے  کہ عورت کا احترام لازمی ہے۔ خواہ وہ گھر میں ہو یا ملازمت پیشہ۔ میں کہتا ہوں کہ اگر عورت کسبی بھی ہو تب بھی اس کا احترام کیجئے کہ اس کا جو بھی پیشہ ہو آپ کو اس سے کوئی  غرض نہیں ہونی چاہیے ۔ کسی کسبی کو دیکھ کر فحش گوئی یا شیطانی فعل کے لئے تیار ہوجانا خود آپ کی اصلیت کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ اگر وہ گناہگار ہے تو اپنا منہ کالا کرنے کے لئے آپ بھی ہمہ وقت تیار ہیں۔ اور مرد اور عورت دونوں کی سزا اللہ کے قانون میں یکساں ہے۔ تو خود کو مرد سمجھ کر گناہ اور سزا سے مبرا نہ سمجھیں۔ اپنے معاشرے کو مہذب بنائیے کہ  سب کی مائیں بہنیں بیٹیاں ہوتی ہیں۔ اگر آپ کسی کی عورت کو عزت دیں گے تو کوئی آپکے  گھر کی خواتین کو بھی عزت دے گا۔ اپنے اندر تھوڑاحوصلہ اور برداشت پیدا کیجئے۔

اب سنیے  ہماری لاہور سے تعلق رکھنے والی ایک فیسبک فرینڈ کی بس ہوسٹس سے متعلق کہانی۔ان کی اپنی زبانی۔

میں اکثر سفر کرتی رہتی ہوں اور اکیلے سفر کرنے کی وجہ سے مجھے زیادہ تر بس ہوسٹس کے ساتھ والی سیٹ ہی ملتی ہے۔ لمبے سفر کے دوران ان سے میری  کافی گپ شپ رہتی ہے۔ بات چیت کے دوران اکثر ان کے گھریلو حالات معلوم ہوتے رہتے ہیں۔ ان میں سے اکثریت شریف گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے اور واقعی انتہائی  مجبوری میں یہ ملازمت کرتی ہیں۔ خراب کردار کی خواتین کی تعداد بہت ہی کم ہے اور ان کو خراب بنانے والے بھی مرد ہی ہیں۔ ان بس ہوسٹسز میں سے اکثریت کی مائیں ویٹنگ ایریا میں بیٹھی ہوتی ہیں کہ کب بس آئے اور وہ بیٹی کو لے کر گھر جائیں۔ کچھ بس ہوسٹسز کی ماوں سے بھی میری بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ ان میں سے اکثریت کے گھریلو حالات ایک جیسے ہیں۔ کرائے کا گھر، بیمار باپ، چھوٹے چھوٹے بہن بھائی۔۔۔۔

ایک واقعہ مجھے نہیں بھولتا۔ میں اسلام آباد سے لاہور جارہی تھی۔ لاہور کے نزدیک آتے ہی بس ہوسٹس نے مسافروں سے ہیڈ فونز پیک کرنے کو کہا اور سب سے ہیڈ فونز اکٹھے کرنے لگی۔ جب سارے ہیڈ فونز اکٹھے کرلئے تو گنتی کی۔ دو ہیڈ فونز کم تھے۔ وہ بیچاری ایک ایک سیٹ پر چیک کرنے گئی، ایک ایک سے درخواست کی کہ ہیڈ فون واپس کردو لیکن کوئی ٹس سے مس نہ ہوا۔ اس بیچاری نے اونچی آواز سے رونا شروع کردیا اور ڈرائیور سے کہنے لگی کہ اب ان ہیڈ فونز کے پیسے کمپنی والے میری تنخواہ سے کاٹ لیں گے۔
ڈائیور نے مائیک پر مسافروں سے درخواست کی کہ کچھ خدا کا خوف کرو یہ بیچاریاں پہلے ہی حالات کی ماری ہوئی  ہوتی ہیں۔ کیوں ان کو تنگ کرتے ہو۔ براہ کرم ہیڈ فون واپس کردو۔ لیکن توبہ کیجئے صاحب جو کسی کے کان پر جوں بھی رینگی ہو۔اور وہ بس ہوسٹس سارے راستے روتی رہی۔

Advertisements
julia rana solicitors

سیدھی سی بات ہے کہ ہمارا معاشرہ ابھی اس قابل ہی نہیں ہوا ہے کہ بسوں میں مسافروں کی خدمت کے لئے خواتین ہوسٹسز رکھی جائیں۔ منٹ منٹ پر بس ہوسٹس کو بلانے والے بےغیرتوں کے لئے  وہی  ٹھیک تھا کہ ایک ڈرائیور اور گریس شدہ شلوار قمیص والے کنڈیکٹر کے ساتھ یہ بسوں میں سفر کرتے تھے۔
ابھی ہم کو بس میں خواتین ہوسٹسز سے مہذب انسانوں والا برتاو  سیکھنے کے لئے شاید مزید سو سال درکار ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply