جی پی او لاہور۔۔طلحہ شفیق

جنرل پوسٹ آفس کی یہ شاندار عمارت مال روڈ پر واقع ہے۔
ڈاک کے حوالے سے شیر شاہ سوری نے بھی کئی ایک اصلاحات کی تھیں۔ مگر پھر بھی ڈاک کا موجودہ نظام انگریز دور سے تعلق رکھتا ہے۔ لاہور میں ڈاک خانہ زیر تبصرہ عمارت کے قیام سے قبل بھی موجود تھا۔ جو کہ ١۸٤۹ء میں قائم ہوا۔ یہ ڈاک خانہ ایک بیرک میں بنایا گیا تھا۔ عرصہ قبل جی پی او میں ایک فلیکس لگایا تھا, جس میں محکمہ ڈاک کے حوالے سے قابل قدر معلومات موجود تھی۔ اس تعارفی فلیکس پر لاہور میں محکمہ ڈاک کے ارتقاء کے ضمن میں بہت سے حقائق بیان کیے گے ہیں۔ لاہور کا پہلا ڈاک خانہ ٹولنٹن مارکیٹ کے شمال میں اور پنجاب پبلک لائبریری کے مشرق میں تھا۔ اس کے پہلے پوسٹ ماسٹر جناب ڈبلیوٹی کلف فورڈ تھے، جنہوں نے ١۲ جون ١۸٤۹ء کو اپنے عہدے کا چارج سنبھالا۔ یہ ڈاک خانہ شمال مشرقی صوبہ جات کے پوسٹ ماسٹر جنرل کے ماتحت تھا۔ ڈاک خانے کے قیام کے بعد اس کی عمارت میں ضرورت کے پیش نظر وقتاً فوقتاً تبدیلیاں کی جاتیں رہیں لیکن ہمیشہ جگہ کی قلت کا سامنا رہا۔ نیز یہ جگہ نامناسب معلوم ہوتی تھی۔ جب چھاونی انارکلی سے میاں میر منتقل ہوئی تو بیشتر جگہیں خالی ہوگئیں۔ اس وقت کے پوسٹ ماسٹر جنرل جناب بی رڈل نے مارچ ١۸٥۲ء میں حکومت کی توجہ اپنے ١۰ نومبر ١۸٥١ء کو لکھے گے ایک خط کی جانب دلائی, جس میں فوج کی جانب سے انارکلی میں خالی کی گئی عمارات میں سے مناسب جگہ ڈاک خانے کے لیے طلب کی گئی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مگر اس پر کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔ اکتوبر ١۸٦۲ء میں پنجاب کا پوسٹ ماسٹر جنرل الگ بنا دیا گیا۔ لیکن لاہور جی پی او اپنی اصل جگہ پر ہی کام کرتا رہا۔ ١۸۸٣ء کے گزٹئیر میں تحصیل لاہور کے مندرجہ ذیل ڈاک خانوں کا ذکر ہے : لاہور جنرل پوسٹ آفس, لوہاری منڈی, موتی بازار, ریلوے اسٹیشن, میاں میر, صدر بازار, رائے ونڈ, منانواں, شاہدرہ, کاہنہ کاچھا, چوہنگ اور بھڈانہ۔ ١۸۹٣ء کے گزٹئیر میں ذرا تفصیل سے نظام ڈاک کا ذکر ہے۔ اس وقت تک ضلع کے دیہی ڈاک خانوں کی تعداد ٥٥ ہوچکی تھی, نیز ڈاک خانے کی مرکزی عمارت ١۸٤۹ء والی جگہ پر ہی موجود تھی۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ شہر کی دیواروں کے اندر پانچ ڈاک خانے ہیں, جن سے ماسوائے اتوار و دیگر تعطیلات پانچ مرتبہ ہی ترسیل ہوتی ہے۔ شہر میں ١۸ اور سول سٹیشن میں ۲٦ ڈاک بکس موجود تھے۔
جی پی او کی عمارت کے متعلق عموماً دو باتیں بے حد مشہور ہیں کہ یہ عمارت ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی کی تقاریب کے ضمن میں ١۸۸٧ء تعمیر کی گئی نیز اس کا نقشہ سر گنگارام نے بنایا تھا۔ جہاں تک ١۸۸٧ء میں تعمیر کا تعلق ہے تو یہ چیز کسی طور درست معلوم نہیں ہوتی۔ کرنل ایچ آر گولڈنگ نے اپنی ١۹۲٤ء میں شائع شدہ کتاب میں ذکر کیا ہے کہ “جس مقام پر پبلک ورکس سیکرٹریٹ قائم ہے وہاں ١۸٤۹ء میں تعمیر کردہ ایک قدیم بیرک نما عمارت موجود ہوا کرتی تھی اسے جی پی او کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ بعد میں بیس سال بیشتر جی پی او کی موجودہ خوبصورت عمارت پایہ تکمیل کو پہنچی۔” اس بیان سے عمارت کا سن تکمیل ١۹۰٤ء نکلتا ہے۔ اس کی تائید لاہور گزٹئیر ١۹١٦ء سے بھی ہوتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ “جی پی او کی عمارت اپر مال پر مرکزی تار گھر اور بینک آف بنگال کے بلمقابل واقع ہے۔ یہ عمارت ١۹۰٤ء میں مکمل ہوئی اور ڈاک خانے کے طور پر اسی سال استعمال میں آئی۔” بزم اردو کی مرتب کردہ ١۹۰۹ء کی “لاہور گائیڈ” میں جی پی او کی تعمیر کے حوالے سے مختصر مگر جامع معلومات موجود ہے۔ اس میں درج ہے کہ “یہ شاندار عمارت جس میں یورپی اور ایشیائی دونوں مذاق کی جھلک نظر آتی ہے۔ فروری ١۹۰١ء سے شروع ہو کر اکتوبر ١۹۰٥ء میں ختم ہوئی۔ دو مستقیم لائنیں بڑے بڑے کمروں کی شمال سے جنوب اور جنوب سے مغرب کی طرح بنائی گئی ہیں۔ ان کے سروں پر دو دو خوشنما گنبد عجب بہار دکھاتے ہیں۔ دونوں قطاروں کے مرکز میں ایک اور بڑا شاندار گنبد ہے جس میں بڑا سا کلاک لگا ہوا ہے۔ دونوں منزلوں میں ڈاک خانے کے متعدد دفاتر ہیں۔ تمام شہر کی ڈاک یہیں سے مختلف حلقوں میں تقسیم ہوتی ہے۔ اس عمارت پر ٣١٦٤٧٥ روپے خرچ ہوئے ہیں۔” ١۸۹۲ء میں تحریر کردہ سید لطیف کی کتاب میں بھی ڈاک خانے کا محل وقوع عجائب گھر کے پاس بتایا گیا ہے نیز ١۸۹٣ء کے گزٹئیر میں بھی یہی درج ہے۔ برطانوی عہد كے لاہور پر ڈاکٹر طاہر کامران صاحب نے تحریر کردہ اپنی تحقیقی کتاب میں بھی جی پی او کا سن تعمیر ١٩٠٤ء ہی درج کیا ہے۔ ١۸۸٧ء میں ملکہ کی گولڈن جوبلی کے حوالے سے “سیر ہندوستان” نامی کتاب شائع کی گئی تھی, اس کتاب میں لاہور کی انگریزی دور کی تعمیرات کا خصوصاً ذکر ہے۔ لیکن اس میں جی پی او کی عمارت شامل نہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ عمارت ١۹۰٤ء میں ہی مکمل ہوئی اور ١۸۸٧ء میں ڈاک خانہ اپنے پرانے مقام پر ہی موجود تھا۔ پروفیسر یوسف جمال و نقوش لاہور نمبر میں جی پی اور کا سن تعمیر ١۹١۲ء درج ہے۔ مگر درج بالا حقائق کی روشنی میں واضح ہے کہ یہ درست نہیں۔
اب اس عمارت کا نقشہ سر گنگارام نے بنایا تھا یا نہیں, یہ دیکھنا باقی ہے۔ اس بات کی شہادت بی پی ایل بیدی کی تحریر کردہ سر گنگارام کی سوانح عمری “صحرا کی فصل” سے ملتی تو ہے لیکن یہ بیان درست نہیں لگتا۔ اس حوالے سے ڈاکٹر عارف رحمان نے ایک مضمون بھی تحریر کیا ہے۔ ١۹۰۲ء میں “آرکیٹیکچرل” نامی جریدے میں جناب سٹریمر ہیک کا ایک نقشہ ”لاہور کے نئے جی پی او“ کے عنوان کے تحت شائع ہوا تھا۔ اگر اس کو نقشے کو مدنظر رکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ جی پی او کی موجودہ عمارت اسی نقشے میں بعض ترامیم کرکے بنائی گئی ہے۔ پھر جی پی او کی عمارت ١۹۰٤ء میں مکمل ہوئی تھی, جبکہ سر گنگارام سرکاری نوکری سے ١۹۰٣ء میں ریٹائر ہوچکے تھے۔ اس ضمن میں ایم آر شاہد صاحب نے حال ہی میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں درج کیا ہے کہ جی پی او کا نقشہ ریلوے کے چیف انجینئر مسٹر بیٹی نے تیار کیا تھا۔ قرین قیاس یہی ہے کہ جی پی او کی عمارت سٹریمر ہیک کے نقشے کو مدنظر رکھ کر بعض تبدیلیوں کے ساتھ تعمیر کی گئی۔ کچھ لوگ جی پی او کو بھائی رام سنگھ کی تعمیر بھی بتاتے ہیں۔ بھائی رام سنگھ پر پرویز و ساجدہ ونڈل نے تفصیلی کتاب تحریر کی ہے۔ مگر اس میں ایسی کوئی روایت درج نہیں کہ بھائی رام سنگھ کا جی پی او کی تعمیر سے کوئی تعلق تھا۔ جی پی او کے طرز تعمیر کی بات کی جائے تو اس میں ہمیں ہندوستانی و برطانوی دونوں ہی کھ جھلک نظر آتی ہے۔ البتہ لوسی پیک کے بقول یہاں موجود برآمدوں کے باوجود مجموعی طور پر عمارت کو تعمیر کرتے ہوئے یہاں کے موسم کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ خیر قیام پاکستان کے بعد جی پی او کی عمارت میں ضرورت کے مطابق وقتا فوقتاً تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ اسی کی دھائی میں تو عمارت پر سیمنٹ کا پلستر کردیا گیا۔ جس پر اہل دانش نے کافی احتجاج کیا۔ اسی دوران یہاں فارن آفس کو آگ بھی لگی تھی۔ پھر محترمہ یاسمین لاری کی زیر نگرانی اس عمارت کی بحالی کا کام شروع ہوا۔ جی پی او لاہور پر محکمہ ڈاک نے اگست ١۹۹٦ء میں ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا تھا۔ جی پی او گو کہ اب محفوظ عمارات میں تو شامل ہے، لیکن حال ہی میں اورنج لائن ٹرین منصوبے کی وجہ سے یہ عمارت بھی باعث تنازع  رہی۔
جی پی او لاہور یوں تو اکثر چکر لگتا رہتا ہے، لیکن کچھ عرصہ قبل عمارت کو ذرا تفصیل سے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ جی پی او حقیقتاً انگریزی دور کی بہترین یادگار ہے اور مال روڈ پر موجود حسین ترین عمارات میں سے ایک ہے۔ انگریز دور میں جب ڈاک آتی تھی تو اس کا منظر بڑا ہی دلچسپ ہوتا تھا۔ اس کا تفصیلی تذکرہ ١۹١٦ء کے لاہور گزٹئیر میں موجود ہے, مرتبین بتاتے ہیں کہ ” لاہور میں ڈاک کا منظم نظام موجود ہے, گلیوں میں ١٣۲ ڈاک کے بکسے لگائے گئے ہیں، جن کو چپراسی سائیکل پر جا کر خالی کرتے ہیں۔ یہی لوگ جنرل پوسٹ آفس, چیرنگ کراس, چھاونی اور مغل پورہ میں ڈاک کی ترسیل کرتے ہیں۔ ریلوے اسٹیشن سے ڈاک گھوڑے جُتے چھکڑوں کے ذریعے لائی اور لے جائی جاتی ہے۔ جی پی او پر دو جھنڈے لہرائے جاتے ہیں۔ ایک سرخ رنگ کا, جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ بیرون ملک ڈاک کی ترسیل کا اشارہ بمبئی سے موصول ہو چکا ہے اور ڈاک لاہور پہنچنے والی ہے۔ دوسرا شاہی ڈاک کا جھنڈا (سفید رنگ) جو لاہور سے غیرملکی ڈاک کی روانگی کا دن ظاہر کرتا ہے۔” گزٹئیر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جی پی او کے داخلی دروازے کے پاس وہ لیٹر بکس بھی نصب ہے, جسے ١۹١١ء میں دہلی میں شہنشاہ جارج ہفتم کی تاج پوشی کے موقع پر شاہی دربار میں لگایا گیا تھا۔ لیکن اب یہ لیٹر بکس یہاں نظر نہیں آتا۔ البتہ جی پی او میں ایک پرانا گھنٹا دکھائی دیتا ہے جس پر ١۸٦۰ء درج ہے۔ اس گھنٹے کی بھی ایک الگ داستان ہے۔ اس حوالے سے عبدالمجید شیخ صاحب لکھتے ہیں “اس تاریخی گھنٹے کو بطور اطلاع اس وقت بجایا جاتا تھا جب غیر ملکی ڈاک لے کر سرکاری بیل گاڑی لاہور پہنچتی تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے زمانے میں لاہور جو ان دنوں پرانی انارکلی میں بستا تھا, جان پڑ جاتی تھی اور اس روز ہر کوئی یہی سوال کرتا, ’کیا آپ کے نام کوئی شے وصول ہوئی ہے؟‘ یہ گھنٹا ہفتے میں دو بار بجتا تھا۔ ایک بار اس وقت جب ڈاک پہنچی تھی اور دوسری بار لاہور سے “غیر ملکی” ڈاک روانہ ہونے سے ایک گھنٹہ قبل۔ دوسری صورت میں لوگ اپنے خطوط کی ترسیل کے لیے دوڑ لگا دیتے۔۔۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ محض رسمی گھنٹا بن کر رہ گیا تھا۔ ١۹٥۰ء کے کسی وقت جب ریلوے کا نظام مستحکم ہوچکا تھا اور روزانہ دو سے تین بار ڈاک کی کی ترسیل ہونے لگی تو یہ گھنٹا خاموش ہوگیا۔ آج لاہور شہر کے شور شرابے میں یہ چپ ہے۔ اس روایت کی تصدیق میں جو غالبا اتنی پرانی ہے جتنا ہمارا شہر! ۔” خیر اب شاید ہی کوئی اس گھنٹے پر توجہ دیتا ہوگا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس کے پاس ایک تعارفی تختی لگا دی جاتی۔ ویسے تو عمارت کی تاریخ پر بھی یہاں معلوماتی تختیاں لگانی چاہیں۔ ہزار ہا لوگ روازنہ یہاں آتے ہیں۔ انہیں بھی معلوم ہو کہ یہ رفیع الشان عمارت کب تعمیر ہوئی۔ لیکن عموماً ہمارے ہاں ناجانے کیوں ان چیزوں کو اچھا نہیں جانا جاتا۔ احباب سے گزارش ہے کہ اب کبھی ٹھنڈی سڑک کی سیر کو نکلیں تو جی پی او کا بھی چکر لگائیں۔ عمارت محکمے کے عروج کی نشانی ہے جبکہ اندر جانا ہو تو محکمے کا نظام اور اسٹاف کا رویہ بتاتا ہے کہ محکمہ کو زوال کیوں کر آیا۔ تو عروج و زوال کا پتا دینے والی اس تاریخی عمارت کا دورہ بچوں کے ہمراہ یقیناً مفید رہے گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply