نعتوں کی چوری شُدہ دُھنیں اور حرام موسیقی۔۔ ذیشان احمد

نعتوں کی چوری شُدہ دُھنیں اور حرام موسیقی۔۔ ذیشان احمد/انسان صدیوں سے اپنی آواز کو سنتا آیا ہے اور سانس لینے کے عمل سے انسان کا رشتہ ازل سے  ہے۔ سانس لینا انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ انسان نے اپنے شعور کے بل بوتے پر سانس کی ہَوا پر گرفت حاصل کی اور اسی ہَوا سے “آواز” مختلف منازل طے کرتی ہوئی جدید زبانوں کے بیش بہا ذخیرے تک پہنچ پائی۔ اس سفر میں انسان نے آواز کی مترنم شکلیں بھی دریافت کیں تھیں جن میں ردھم، شاعری اور موسیقی سرفہرست ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شاعری اور موسیقی نے ابتداء  سے ہی انسان کے ساتھ سفر کیا ہے اور آئندہ بھی یہ سفر جاری رہے گا۔

پہلے زمانے میں انسان نے ہَوا کو اپنے منہ کے اندر کنٹرول کر کے ان سے آوازیں بنائیں اور اسی طرح بعد میں وہ آلات بنائے جن کے اندر ہَوا کی منظم صورتحال کو بھانپ کر اَن گنت ساز تخلیق کئے۔ اس پورے سفر میں انسان نے معاشرتی و ثقافتی اقدار کو بھی بنایا ہے۔ معاشرتی و ثقافتی اقدار کے ساتھ ساتھ جب معاشرے میں مذہبی خیالات کا غلبہ بڑھا تو اُس وقت بھی موسیقی اور شاعری انسان کے ساتھ ساتھ رہے۔ اگر ہم مذہبی صحیفوں کی بات کریں تو ان میں بھی ایک خاص قسم کا ردھم ہے، نغمگی  ہے جسے صرف وہی لوگ محسوس کر سکتے ہیں جو موسیقی کے اسرار و رموز سے واقف ہیں۔

موجودہ  صدی میں بطور مسلمان ہم جب موسیقی کے بارے میں بات کرتے ہیں تو زیادہ تر یہ روایات دیکھنے کو ملتی ہیں کہ
“موسیقی سننا اور ساز بجانا حرام ہے”
کیا واقعی موسیقی سننا اور ساز بجانا حرام ہے؟ ہمارے معاشرے میں موسیقی کو مذہبی انتہاپسندی کی بدولت جو مزاحمت درپیش ہے وہ دوسرے مسلم معاشروں کی نسبت بہت شدید ہے۔ کیونکہ جب آپ کو دن رات یہ بات بتائی جائے کہ موسیقی حرام ہے تو پھر اکثریت اسی کو سچ سمجھ بیٹھتی ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے معاشرے میں موسیقی کو وہ مقام نہیں دیا گیا جو اسے دیا جانا چاہیے تھا۔
لیکن غوروفکر کرنے والے انسانی ذہن کو یہ بات بہت عجیب سی لگتی ہے کہ موسیقی حرام ہے۔

سائنسی ترقی کی بدولت ہم نے اپنے بچپن سے ہی کچھ مذہبی قدروں کو بدلتے دیکھا ہے جیسا کہ بیسویں صدی کی آخری دہائی میں مولوی حضرات تصویر کو حرام قرار دیتے تھے لیکن آج گلی محلوں میں سب سے بڑے پوسٹر اور تصاویر ان ہی کے شائع ہوتے ہیں۔

پہلے وقتوں میں ٹی وی کو شیطان کا فتنہ قرار دے کر جلا دیا جاتا تھا، بلکہ افغانستان میں طالبان کی پہلی حکومت نے اس کام کو فخریہ طور پر کیا بھی تھا لیکن آج ہر مولوی کی جیب  میں موبائل کی شکل میں ٹی وی موجود ہے۔ اسی طرح موسیقی کے آلات کی طرف موجودہ افسوسناک رویہ بھی اسی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ ماضی میں ایسے کئی افسوسناک واقعات رونما ہو چکے ہیں جس میں موسیقار اپنی جان تک گنوا بیٹھے۔ سوات میں مذہبی  تشدد کے دوران کئی گلوکار اور موسیقار طالبان کے ہاتھوں مار دیے گئے۔ ابھی حال ہی میں افغانستان کے اندر موسیقی کے آلات جلائے گئے ہیں اور موسیقاروں کو بے عزت کیا گیا ہے۔ یہ سلسہ مذھبی تقدس کے نام پر بدستور جاری ہے۔

کیا یہاں کوئی ایسا دردمند ہے جو یہ سوچ سکے کہ ان موسیقاروں پر کتنا ظلم ہو رہا ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں وہ تھکے ہوئے انسانوں کے چہروں پر مسکان کا ایک بیش بہا خزانہ نچھاور کرنے والے ہیں تو دوسری طرف مذہبی تشدد کی وجہ سے ان کی زندگیوں کو اجیرن کیا جا رہا ہے۔

ایک طرف تو موسیقی کو حرام قرار دے کر لوگوں کو تلقین کی جا رہی ہے کہ موسیقی سے دور رہیں یا اس سے اجتناب برتیں لیکن دوسری طرف یہ مذہبی لوگ مشہور گانوں کی دُھنوں کو ڈھٹائی سے چوری کر کے انہیں نعت و حمد کی صورت میں ہوبہو ریکارڈ کر کے مستقل ریلیز کیے جا رہے ہیں۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب موسیقی سننا حرام اور گناه ہے تو ان لوگوں کو مشہور گیتوں کی دُھنیں کیسے مل رہی ہیں؟۔ ان دھنوں کو سُنے بغیر کوئی انہیں کیسے کسی حمد یا نعت کے روپ میں ڈھال سکتا ہے۔ ایک گلوکار ہونے کے ناطے میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ایک یا دو نہیں بلکہ سیکڑوں کی تعداد میں اردو، پشتو اور سرائیکی زبان کے گیتوں کی دھنوں کو چوری کیا گیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے مولوی  صاحبان گلوکاروں کے گائے ہوئے گیتوں کو بھرپور طریقے سے سنتے ہیں اور پھر نہایت ہوشیاری سے گانوں کی دھنوں کو اپنی حمد و نعت کے روپ میں ڈھال کر ریکارڈ کر لیتے ہیں۔ اس دوران یہ لوگ ایک سُر بھی اوپر نیچے نہیں کرتے۔ اگر یہ ان دُھنوں کو بغور سُن کر کاپی نہیں کرتے تو کیا کسی گانے کی اتنی پرفیکٹ کمپوزیشن ان پر آسمانوں سے نازل ہوتی ہے؟۔ اس زمانے میں یہ ناممکن سی بات ہے کہ زمین پر کسی گیت کی تخلیق کی گئی کوئی دُھن کسی مولوی صاحب کو نعت و حمد ریکارڈ کرتے وقت آسمان سے نازل ہو۔ آسمان سے نازل ہونے والی کسی چیز میں کچھ فرق تو ہونا چاہیے جبکہ مولوی صاحبان کا تو یہی عقیدہ ہے کہ موسیقی حرام ہے۔ کیا کسی گیت کی دُھن چوری کرنا حلال ہے؟ شاید یہ حلال ہے کیونکہ ابھی تک کسی بھی مولوی صاحب نے چربہ شدہ نعت و حمد کے خلاف کوئی فتویٰ صادر نہیں کیا ہے۔ اب میں کچھ مثالوں کے ذریعے قارئین تک یہ بات پہنچانا چاہوں گا کہ مشہور گیتوں کی دھنوں پر ہمارے مذہبی لوگ نعت و حمد بنا کر ریلیز کر رہے ہیں۔

پشتو کا مشہور گیت “تک اسپین اسپین” کی دُھن کو مکمل طور پر کاپی کر کے مولانافضل الرحمٰن کے لیے مذہبی گیت بنایا گیا ہے۔ اس گیت میں مولانا کی عظمت کے گُن گائے جا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ ان کی عظمت کے گُن ایک پشتو گیت کو چوری کر کے تخلیق کیے گئے ہیں۔ شہنشاہ باچا نے “حساب کتاب تہہِ  انداز ہوکہ نو تپے” کے ٹائٹل سے یہ نعت روایتی طور پر “ٹپّے” سے اخذ کی ہے۔ پشتو کے بہت سے گلوکاروں نے اس دُھن کو گایا ہے اور اب اس روایتی دُھن کو لے کر شہنشاہ باچا نے اسے مذہبی گیت میں پیش کیا ہے۔ ہارون باچا کے مشہور پشتو گیت “آخر خزان بہ دې بهار شی یاره زما” کی دھن کو بھی چوری کر کے مذہبی جامہ پہنا دیا گیا ہے۔ گزشتہ سال پشتو زبان کا ایک گیت “بیبو بیبو” جسے ایک ٹرانس گلوکارہ ثوبیہ نے گایا تھا بہت مشہور ہوا تھا۔ اس گیت کو بھی فوراً ہی کاپی کر کے مذہبی رنگ میں ڈھال لیا گیا۔ مذہبی گیت کا ٹائٹل تھا “بولو بولو”۔ اگر ہم “بولو بولو ” کو سنیں تو فوراً ہی ہمیں ثوبیہ کے “بیبو بیبو” کا خیال آئے گا۔ کیونکہ چربہ دھنوں کو پہچاننا بہت ہی آسان ہے۔ ایسے بہت سے گیت ہیں جن کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔ ان گیتوں کی دھنوں کو چوری کر کے نعت، قوالی یا حمد کے روپ میں ریلیز کیا جا رہا ہے۔

اگر ہم اسلام کی ابتدائی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ انصار جو کہ موسیقی کا شغف رکھتے تھے ان کی شادی بیاہ اور دیگر ثقافتی رسوم میں دف بجانے کا تذکرہ جگہ جگہ ملتا ہے اور دف اس وقت موسیقی کا ایک مروجہ آلہ تھا۔ خود پیغمبر پاک نے بھی موسیقی کے خلاف کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے یہ ثابت ہو کہ موسیقی حرام ہے۔ امام غزالی سے لے کر مولانا رومی تک اور بلھے شاہ سے لے کر رحمان بابا تک ان گنت ہستیاں سماع کی محافل میں موسیقی کی روایت سے محظوظ ہوتی رہی ہیں۔

ہمارے یہاں مقامی سطح پر موسیقی کو درپیش مسائل میں سب سے بڑی رکاوٹ اُن تنگ نظر مولویوں کا جتھہ ہے جنہوں نے اپنے مقاصد کے لیے مذہبی عقائد کو مسخ کر کے نہ صرف مذہب کو نقصان پہنچایا بلکہ موسیقی جیسی خوبصورت شہ کو بھی ایک جان لیوا مرض قرار دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جب تک معاشرے میں میانہ روی سے ان چیزوں کے بارے میں ایک معقول اور مناسب راستہ نہیں اپنایا جاتا تب تک موسیقی جیسی خوبصورت اور لازوال چیز اس معاشرے میں حرام ہی تصور ہو گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ارباب اختیار کو چاہیے کہ دوسرے سماجی و سائنسی علوم کی طرح موسیقی کو بھی جگہ دینی چاہیے۔ کیونکہ موسیقی سے ہی تشدد کی فضا میں کمی لائی جا سکتی ہے اور انسانی زندگی کو خوشگوار بنایا جا سکتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply