عافیہ! ہم تو شرمندہ بھی نہیں ہیں

ہر ملک کے صدر کی طرح صدرِ امریکا کو بھی یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ قیدیوں کی سزا میں کمی یا معافی کا اعلان کر سکتا ہے۔ عام طور پر امریکی صدور دورانِ صدارت یہ اختیارات استعمال نہیں کرتے اور قصرِ سفید چھوڑنے سے چند روز قبل ان قیدیوں کی فہرست جاری کی جاتی ہے جن کا معاملہ صدارتی میز پر آیا ہو اور صدرِ امریکا یہ سمجھے کہ ان کی سزا معاف کی جا سکتی ہے۔ صدر باراک اوبامہ کی جانب سے بھی چند روز قبل ایسے ہی قیدیوں کی ایک فہرست جاری کی گئی جس میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا نام بھی شامل تھا۔ عافیہ صدیقی کی وکیل نے پاکستانی حکمرانوں سے اپیل کی کہ اگر وہ تھوڑی سی ہِل جُل کا مظاہرہ کریں تو عافیہ کو وطن واپس لایا جا سکتا ہے لیکن زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد کے مصداق ہمارے حکمرانوں پر جُوں تک نہ رینگی اور یہ سطور شائع ہونے تک ہم یہ موقع بھی کھو چکے ہوں گے۔ قصرِ سفید میں ڈونلڈ ٹرمپ نئے مکیں کی صورت میں متمکن ہو چکے ہوں گے اور نئی امریکی انتظامیہ کی ایک نئی پوزیشن ہو گی جس کو کم ازکم ہمارے سفارتی ذرائع تبدیل کرانے کی قطعی کوئی صلاحیت نہیں رکھتے۔
پرویز مشرف کے سیاہ دور کے سیاہ کارناموں کی فہرست طویل ہے جس میں ایک ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکا کے حوالے کرنا بھی شامل ہے۔ ڈالروں کے عوض وطن کے بیٹوں بیٹیوں کو امریکا کے حوالے کرنے کا اعتراف بڑے فخر سے موصوف نے اپنی کتاب میں بھی کیا ہے لیکن ان سارے جرائم کے بعد بھی پوری دنیا میں آزاد گھومنے میں مصروف ہیں۔ 2003 میں کراچی سے تین بچوں سمیت اغوا کی گئی عافیہ کی کہانی 2008 میں اس وقت منظرِ عام پر آئی جب بگرام جیل سے رہائی پانے والے معظم بیگ نے اپنی کتاب میں قیدی نمبر 650 کا ذکر کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ایک خاتون کی دلدوز چیخیں پوری جیل میں گونجتی تھیں جو تمام قیدیوں کیلیے انتہائی تکلیف کا باعث ہوتی تھیں۔ برظانوی صحافی یوان ریڈلے نے معاملے کو پریس کے ذریعے پوری دنیا میں اجاگر کیا اور لارڈنذیراحمد کی بدولت عافیہ کے نام کی بازگشت برطانوی ہاؤس آف لارڈز میں بھی سنی گئی۔ پاکستان میں یوان ریڈلے کے ساتھ عمران خان اور جماعتِ اسلامی نے بھی اپنی آواز ملائی اور معاملے پر بھرپور احتجاج کیا جس پر پہلے تو امریکی انتظامیہ قیدی نمبر 650 کی موجودگی سے انکار کرتی رہی لیکن بالآخر امریکی انتظامیہ نے عافیہ صدیقی کے اٹھائے جانے کی تصدیق کر دی۔ عافیہ صدیقی پر امریکی فوجیوں پر حملے کا مضحکہ خیز الزام لگا کر عافیہ کو افغانستان سے امریکا منتقل کر کے ٹرائل کا آغاز کیا گیا۔ قید کے دوران جیل انتظامیہ عافیہ صدیقی پر ذہنی اور جسمانی تشدد بھی کرتی رہی جس سے عافیہ صدیقی ذہنی طور پر اپنے حواس تقریباً کھو بیٹھی اور امریکی عدالت نے پہلے ڈاکٹر عافیہ کو ٹرائل کیلیے mentally unfit قرار دیا لیکن بعد میں اس کے باوجود بھی ٹرائل کا آغاز کر کے چھیاسی سال قید کی سزا سنا دی۔ اس سارے عرصے کے دوران حکومتِ پاکستان نے عافیہ صدیقی کی رہائی اور وطن واپسی (repatriation) کیلیے کوئی خاص کوششیں نہیں کیں۔
وزیرِاعظم نواز شریف 2013 کے انتخابات سے قبل کراچی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائشگاہ پر گئے اور عافیہ صدیقی کی والدہ عصمت صدیقی اور بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو یقین دہانی کروائی کہ الیکشن جیتنے کے بعد وہ عافیہ صدیقی کو وطن واپس لا کر دم لیں گے، لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے۔ اقتدار کے تین سالوں میں تو نواز حکومت کو عافیہ صدیقی یاد نہیں آئی اور اب جو موقع ہاتھ آیا وہ بھی گنوا دیا گیا۔ نہ صدرِمملکت کو کوئی خیال آیا اور نہ وزیرِاعظم کو کوئی جنبش ہوئی۔ اور رہ گیا امریکا میں سفیر اور سفارتی عملہ، ان کا کام پاکستان اور پاکستانیوں کے مفادات کا تحفظ تو ہے ہی نہیں۔ وہ حکمرانوں کے ذاتی ملازموں کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب فہرست میں عافیہ صدیقی کا نام آیا تو امریکا میں پاکستانی سفارتی عملہ متحرک اور یکسو ہو کر عافیہ صدیقی کو وطن واپس لانے کیلئے دن رات ایک کر دیتا لیکن دنیا بھر میں ہمارے سفارتی مشنز کی دوڑیں صرف اسی وقت لگتی ہیں جب ہمارے سربراہِ حکومت یا مملکت ان ممالک کے دورے پر جاتے ہیں، رہے اُن ممالک میں مقیم پاکستانی شہری تو وہ تو بھیڑ بکریاں ہیں، اُن کے مسائل سے سفارتی عملوں کو کیا سروکار!!
ؑعافیہ صدیقی کی رہائی کا امکان پیدا ہوا تو ایک بار پھر سوشل میڈیا پر عافیہ کی رہائی کوششیں کرنے کے مطالبات کیے گئے لیکن ملک بھر میں کہیں کوئی زلزلہ برپا نہیں ہوا۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے عافیہ اَن دنوں پھر پکار پکار کر کہہ رہی ہو کہ
بولتے کیوں نہیں میرے حق میں
زباں پر آبلے پڑ گئے کیا!!!
عافیہ شاید نہیں جانتی کہ کشکول اٹھا کر پوری دنیا میں ہم گھوم سکتے ہیں لیکن جہاں معاملہ ہماری قومی غیرت کا ہو وہاں تو کشکول اٹھاتے ہوئے بھی ہماری جان جاتی ہے، وہاں تو ہم ترلا اور منت بھی نہیں کرپاتے۔ اُس وقت ہماری زبانوں پر آبلے نہیں، چھالے اور پھوڑے نکل آتے ہیں۔ اب تو قوم کی غیرت کا گراف بھی شاید صفر سے نیچے گر چکا ہے کہ کسی بہن بیٹی کی پکار بھی ہماری زندگیوں میں ارتعاش پیدا نہیں کرتی۔ منافقت کیوں کروں!! میں یہ کیوں نہ کہوں کہ عافیہ! ہم تو شرمندہ بھی نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments

محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ
میں جو محسوس کرتا ہوں، وہی تحریر کرتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply