بدلہ۔مہوش طالب

رات چاندنی اپنے جوبن پر تھی, فضا میں  دلفریب پھولوں کی باس رچی تھی, میں جو اس کی یاد سے منہ موڑنے کی تدبیریں کررہا تھا, یکدم اس کی موجودگی کا احساس میرے حواسوں پہ سوار ہوکرمجھےبے  چین کرنے لگا, میں نے تو تہیہ کر رکھا تھا کہ اب کبھی جو وہ میرے سامنے آئی تو اس کو اسی کے  انداز میں نظرانداز کروں  گا, اس کے وجود کو خاطر میں نہ لاؤں گا, مگر اب وہ میرے سامنے تھی, اور اپنی انا کے مینار کو فلک بوس رکھنے کہ میرے سارے خواب چکنا چور ہوگئے,

اور اب میں اسے دم بخود تکے جارہا تھا,

وہ ویسی ہی تھی, من موجی سی, ارد گرد سے بے نیاز, بڑی بڑی سیاہ آنکھوں میں, وہی تلملا کر رکھ دینے والی شرارت تھی,ہاں مگر وہ ذرا سی فربہی مائل ہوگئ تھی, ظاہر ہے جسے زندگی مسکراکر گلے ملتی رہے, اسے کیا مات.

وہ یونہی لب بستہ کھڑی رہی,شاید کچھ کہنا چاہتی تھی.

میں بھی کچھ لمحے خاموشی میں اس کا ساتھ دیتا رہا, لیکن پھر ایک جھماکا بجلی کے کوندے کی مانند ذہن میں لپکا,

کیوں نہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے,

میں نہیں چاہتا تھا کہ آنکھ مچولی کا کوئی کھیل شروع ہوجائے,

گرمیوں کی وہ ٹھنڈی رات اور سرسراتی خاموشی, میں نے اسے ذہنی اذیت کے بجائے جسمانی تکلیف دینے کا فیصلہ کیا, تاکہ اس کی وقت بے وقت کی آمد (خیالی اور حقیقتاً)مجھے گراں نہ گزر سکے, کہ نہ ہوگا بانس ,نہ بجے گی بانسری

, وہ وہیں جم سی گئی  تھی,اور میرے پاس موقع تھا , اس کی بے خبری و بے نیازی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے نشانہ باندھا,وہ مضبوط اعصاب کی مالک تھی, مجھے لگا تھا وہ فوراً یا تو دغا دے جائے گی یا جواباً  مجھ پر حملہ کرےگی , لیکن  آج پہلے وار میں ہی وہ گھائل ہوگی تھی,  کیونکہ اس سے پہلے جب کبھی میں نے اسے قابو کرنے کی کوشش کی, اس سے اپنا حالِ دل بیان کرنے کی سعی کی, وہ اک ادا سے دامن چھڑا کر بھاگ جاتی تھی, مگر اب اس نے ذرا سی مزاحمت کی بھی کوشش نہیں کی تھی, ایک لمحے کو میرا دل دُکھا تھا, مگر دل کو تھپکی دےکر میں نے اس پر دوسرا اور پہلے سے شدید وار کیا,

اس نے ایک سسکاری بھری, اس کی, خوبصورت, نشیلی آنکھیں, نیم وا ہوئیں اور وہ تڑپتے  ہوئے میرے قدموں میں آگری,میں ساکت رہ گیا.

Advertisements
julia rana solicitors london

پھر گہری سانس لیتے ہوئےمیں  نے ایک آخری اور بھرپور نگاہ اس دشمنِ جاں پر ٹکائی اور اسے گٹر میں پھینک دیا, یہ وہی “چھپکلی” تھی جس نے پچھلے سال کی گرمیوں سے میری ناک میں دم کر رکھا تھا

Facebook Comments

Mahwish talib
ماہ وش طالب نے پانچ سال قبل ماہانہ پرچے سے لکھنے کا آغاز کیا ، اب وہ مختلف اخباروں، رسائل اور ڈیجیٹل پورٹلز کے لیے لکھ رہی ہیں ، محترمہ ماہ وش یو ای ٹی لاہور سے اپلائیڈ کیمسٹری میں ایم فل کرچکی ہیں۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply