• صفحہ اول
  • /
  • خبریں
  • /
  • مسلمان اور ہندو خواتین کا ایک دوسرے کے خاوندوں کے لیے گردے کا عطیہ

مسلمان اور ہندو خواتین کا ایک دوسرے کے خاوندوں کے لیے گردے کا عطیہ

نئی دہلی: بھارت میں سشما اونیال اور سلطانہ علی نے ایک دوسرے کے خاوندوں کی زندگیاں بچانے کے لیے گردوں کا عطیہ دے کر ایک مثال قائم کردی ہے۔

انسانی اعضا کا عطیہ دینا عام زندگی میں کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے لیکن اس کیس میں انفرادیت یہ ہے کہ سلطانہ علی مسلمان خاندان سے تعلق رکھتی ہیں جب کہ سشما اونیال ہندو مذہب کی پیروکار ہیں۔

سعودی عرب کے مؤقر انگریزی اخبار عرب نیوز کے مطابق گردوں کی یہ پیوند کاری بھارتی ریاست اتر کھنڈ کے دارالحکومت دہرہ دون میں انجام پائی ہے۔

اخبار کے مطابق سشما کو اپنے 51 سالہ خاوند ویکاس اونیال کے لیے گردے کے ڈونر کی تلاش تھی جب کہ سلطانہ علی اپنے 52 سالہ شوہر اشرف علی کے لیے گردوں کا عطیہ کرنے والا ڈھونڈ رہی تھیں۔ دونوں افراد 2019 سے گردہ فیل ہونے کی تکلیف میں مبتلا تھے۔

اس سلسلے میں دونوں خاندانوں کی جانب سے متعلقہ اداروں میں درخواستیں جمع کرائی گئی تھیں اور رابطے بھی کیے گئے تھے لیکن کسی طرح کی کوئی کامیابی نہیں ملی تھی۔

انسانی اعضا کی پیوند کاری کے حوالے سے بھارتی قانون کے تحت اس کی اجازت اس صورت میں ہوتی ہے کہ جب ڈونر قریبی عزیز ہو۔ بھارتی قانون کے تحت لیکن اگر قریبی عزیز ڈونر نہ ہو تو خون کے رشتہ داروں کے علاوہ بھی دیگر لوگ انسانی اعضا عطیہ کرسکتے ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں 20 لاکھ افراد گردے کی پیوند کاری کے منتظر ہیں مگر چونکہ ڈونرز نہیں ہیں اس لیے مریضوں کو تکلیف سے نجات نہیں مل پا رہی ہے۔

انسانی دل کی تھری ڈی پرنٹنگ: اعضا عطیہ دینے والوں کی ضرورت نہیں رہے گی؟

میڈیا رپورٹس کے مطابق قانونی طریقہ کار پر عمل درآمد سے صرف 3 سے 5 فیصد مریضوں کی ضرورت پوری ہوتی ہے۔

بھارت میں پیوند کاری پر تقریباً 8 ہزار ڈالرز تک کا خرچہ آتا ہے اور یہ عمل 10 سے 15 دنوں میں مکمل ہوتا ہے۔

اخبار کے مطابق سشما اور سلطانہ کے کیسز میں ایک یہ بھی مسئلہ تھا کہ وہ دونوں اپنے خاوندوں کو گردوں کا عطیہ نہیں دے سکتی تھیں کیونکہ طبی طور پر موافق نہیں تھے۔

اس سلسلے میں سب سے اہم کردار ڈاکٹر شہباز احمد نے ادا کیا جو دونوں مریضوں کے کیسز دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ اگر وہ ایک دوسرے کے خاوندوں کو گردے عطیہ کردیں تو ان کی مشکل حل ہو سکتی ہے۔

ڈاکٹر شہباز احمد کے مطابق یہ مشورہ دیتے ہوئے انہیں یہ خیال بھی تھا کہ مذہب اختلاف آڑے آسکتا ہے لیکن بحیثیت ڈاکٹر انہوں ںے بات کی اور دونوں خاندانوں کو ایک دوسرے سے ملوایا جس کے بعد ٹیسٹوں سے معلوم ہوا کہ ان کا خیال ٹھیک ہے یعنی دونوں خواتین ایک دوسرے کے خاوندوں کو گردہ عطیہ کرکے جان بچا سکتی ہیں۔

سوچ بچار کے بعد دونوں خاندان اس پیوند کاری پر راضی ہو گئے لیکن پھر کورونا کی لہر نے منصوبہ پایہ تکمیل کو نہیں پہنچنے دیا مگر اب 4 ستمبر کو یہ پیوند کاری مکمل ہو گئی جس میں تقریباً 10 گھنٹے لگے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ڈاکٹر شہباز احمد کے مطابق سرجری کے بعد دونوں خاندانوں کے درمیان ایک رشتہ بھی قائم ہو گیا ہے اور جو کچھ ہوا وہ قانونی بھی ہے۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply